بدعنوانی کا یہ معاملہ اسلئے انوکھا ہے کہ مختلف اضلاع میںجاری کستوربا گاندھی اسکولوں میں ایک ہی ٹیچر کی تقرری ہوئی اور اس نے ایک سال تک ۱۳؍ اضلاع کے اسکولوں سے تقریباً ایک کروڑ روپے تنخواہ بھی حاصل کی۔ اس وقت وہ لیڈی ٹیچر پولیس کی تحویل میں ہے جو انامیکا شکلا کے نام سے نوکری کر رہی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس انامیکا شکلا کے دستاویزات کے سہارے یہ نوکری کر رہی تھی،اس نےکبھی سرکاری اسکول میں ملازمت ہی نہیں کی
انامیکا شکلا ۔ تصویر : آئی این این
اترپردیشکو ایک آئیڈیل اسٹیٹ بنانے کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے دعوؤں کی قلعی اس وقت کھل جاتی ہے جب سرکاری محکموں میں بدعنوانی کی ایسی خبریں منظر عام پر آتی ہیںجن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کی سرکاری مشنری پوری طرح بدعنوانی کے دام میں گرفتار ہو چکی ہے۔ اس ریاست کے جن محکموں میں بدعنوانی اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے، ان میں محکمہ ٔ تعلیم کا نام نمایاں طور پر لیا جاتا ہے۔ اس ریاست میں تعلیم کی صورتحال ویسے بھی ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے بہت اطمینان بخش نہیں ہے اور اس پر مزید یہ کہ ریاستی محکمہ ٔ تعلیم میں بدعنوانی نے جس طرح اپنا دائرہ وسیع کر لیا ہے، اس کی وجہ سے یوپی میں تعلیم کا گراف اوپر اٹھنے کے بجائےمسلسل نیچے جارہا ہے۔یوپی میں سرکاری اسکولوں اور کالجوںمیں نہ صرف یہ کہ تدریس کا معیار بہت اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ ان تعلیمی اداروں میں نیچے سے اوپر تک جس طرح بدعنوانی نے اپنے پاؤں پسار لئے ہیں، اس نے ریاست کے تعلیمی ڈھانچے کو پوری طرح کمزور بنادیا ہے۔ اس ریاست میںپرائمری اور ثانوی سطح پر تعلیم کا جو سرکاری بندوبست ہے وہ کئی طرح کی خامیوں کا شکار ہے۔ ان خامیوں میں ایک بڑی خامی پرائمری اور ثانوی سطح کے تعلیمی نظام میں بدعنوانی کا وہ بڑھتا رجحان ہے جو نہ صرف ریاست کی شرح خواندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان طلبہ کے آگے بڑھنے کے راستے بھی مسدود کر دیتا ہے جو زندگی میں کچھ بہتراور نمایاں کارکردگی انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیںلیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اترپردیش کے بیشتر سرکاری اسکولوں میں بدعنوانی کی وجہ سے جس طرح کا تدریسی ماحول ہے اس میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایسے ماحول میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ زندگی میں کچھ نمایاں کارکردگی انجام دے سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں اس ریاست کے محکمہ ٔ تعلیم میں بدعنوانی کا ایک ایسا انوکھا معاملہ سامنے آیا جویہ ثابت کرتا ہے کہ اترپردیش کے سرکاری اسکولوں میں اوپر سے نیچے تک بدعنوان افسران ، اساتذہ اور دیگر ملازمین تعلیمی نظام اور طلبہ کے مستقبل کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کر رہے ہیں۔ اس ریاست میں پسماندہ طبقات کی لڑکیوں کی تعلیمی ترقی کیلئے چلائے جا رہے کستوربا گاندھی رہائشی اسکول سےمتعلق بدعنوانی کا یہ معاملہ اسلئے انوکھا ہے کہ مختلف اضلاع میں چل رہےکستوربا گاندھی اسکولوں میں ایک ہی ٹیچر کی تقرری ہوئی اور اس نے ایک سال تک ریاست کے ۱۳؍ اضلاع میں چل رہے ان رہائشی اسکولوں سے تقریباً ایک کروڑ روپے تنخواہ بھی حاصل کی۔ایک سال کے بعد جب اس گورکھ دھندے کی اصلیت سامنے آئی تو اب اس لیڈی ٹیچر کے خلاف قانونی کارروائی ہو رہی ہے۔ اس وقت وہ لیڈی ٹیچر پولیس کی تحویل میں ہے جو انامیکا شکلا کے نام سے ریاست کے ۱۳؍ اضلاع میں بہ یک وقت ٹیچر کی نوکری کر رہی تھی ۔یہ معاملہ جب دس بارہ دن پہلے منظر عام پر آیا تب سے اب تک اس میں کئی حیرت انگیز اور دلچسپ موڑ آ چکے ہیں۔ اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس انامیکا شکلا کے تعلیمی دستاویزات کے سہارے یہ خاتون نوکری کر رہی تھی،اس انامیکا شکلا نےکبھی کسی سرکاری اسکول میں ملازمت ہی نہیں کی۔ یہ ضرور ہے کہ اس نے کچھ برسوں پہلے ملازمت کیلئے درخواست دی تھی اور محکمۂ تعلیم میں بدعنوانی کا ریکیٹ چلانے والوں نے اس کی درخواست کے ساتھ منسلک اس کے تعلیمی دستاویزات کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا۔ یوپی کے ضلع فرخ آباد کی رہنے والی پریہ اس ریکیٹ کے چنگل میں آگئی جس نے بڑی مہارت کے ساتھ اسے انامیکا شکلا بنا کر ریاست کے۱۳؍ اضلاع کے کستوربا گاندھی اسکولوں میںاسے ملازمت دلا دی ۔اس معاملے میں پریہ کے والد مہی پال نے مین پوری کے نیتو نامی شخص کانام لیا ہے جس نے ایک لاکھ روپے لے کر اس کی بیٹی کو انامیکا شکلا کے نام سے نوکری دلائی تھی۔محکمۂ تعلیم کے اعلیٰ افسران اور ریاست کی پولیس اب اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے ۔
اگر یہ تفتیش ایمانداری سے مکمل ہو سکی تو ممکن ہے اس ریکیٹ کے بارے میں پتہ چل سکے جو محکمۂ تعلیم میں اس طرح کی بدعنوانی کے ذریعہ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے ۔اس معاملے پر ریاست میں سیاست بھی تیز ہو گئی ہے ۔نوعیت کے اعتبار سے یہ معاملہ انوکھا ضرور ہے لیکن اترپردیش کے محکمۂ تعلیم میں بدعنوانی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ابھی گزشتہ برس ہی چار ہزار سے زیادہ ایسے معاملے سامنے آئے تھے جن میں ریاست کے مختلف اضلاع کے سرکاری پرائمری اور ثانوی سطح کے اسکولوں میں جعلی دستاویزات کے سہارے نوکری حاصل کی گئی تھی۔ ریاستی حکومت نے ایسے معاملات پر قابو پانے کیلئے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دی تھی لیکن اس کے باوجود بدعنوانی کے ایسے معاملات پر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔اس ریاست کے محکمۂ تعلیم میں بدعنوانی کا دائرہ اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ ہر سطح پر اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔محکمۂ تعلیم کے اعلیٰ افسران، اساتذہ اور دیگر انتظامی امور سے وابستہ افراد اپنے مالی مفاد کیلئے تعلیمی نظام کو مسلسل کمزور بنا رہے ہیں۔
ایک ساتھ۱۳؍ اضلاع کے اسکولوں میں نوکری کرنے والی پریہ کے معاملے کو اس مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ محکمۂ تعلیم میں اب ایسے لوگوں کی وافر تعداد ہو گئی ہے جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بناکر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں ۔ ان افراد کی ایسی بدعنوانیوں کا خمیازہ ان طلبہ کو بھگتنا پڑتا ہے جو زندگی میں کچھ بہتر کرنے کی غرض سے تعلیم کرنا چاہتے ہیں۔یوپی کے سرکاری اسکولوں میں بدعنوانی کا معاملہ صرف جعلی دستاویزات کے ذریعہ ملازمت حاصل کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ ان دیگر امور میں بھی بدعنوانی کا بول بالا ہے جو مختلف سرکاری منصوبوں کی شکل میں طلبہ کی تدریسی ضرورتوں کی تکمیل اور ان کی تعلیمی ترقی کے مقصد سے وابستہ ہیں۔ اس سلسلے میں مڈ ڈے میل کی مثال بہت سامنے کی ہے۔حکومت کے ذریعہ سرکاری اسکولوں میں اس اسکیم کے نفاذ کا مقصد طلبہ کے ڈراپ آؤٹ کی شرح کو کم کرنے اور انھیں جسمانی طور پر چاق و چوبند بنائے رکھنا ہے ۔ اس اسکیم کے تحت اسکولوں میں جو غذا بچوں کو دی جاتی ہے وہ ہر دو مقصد کو پورا کرنے میں بیشتر ناکام رہی ہے۔اسی طرح طلبہ کو دیگر تعلیمی وسائل کی فراہمی کیلئے مختص کی جانے والی رقم کا بیشتر حصہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے ۔ محکمۂ تعلیم کے افسران اور اساتذہ و دیگر ملازمین کے ذریعہ کی جانے والی ان بدعنوانیوں کے سبب ہی اس ریاست میں تعلیم کا معیار بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔
اترپردیش جیسی بڑی ریاست میں سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی اس ریاست کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ ریاستی آبادی کی بڑی تعداد اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے ان سرکاری اسکولوںپر ہی منحصر ہے جو بدعنوانی کا اڈہ بن چکے ہیں۔ مہنگے انگریزی میڈیم اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجنے سے قاصر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ کر زندگی میں ایک باعزت مقام حاصل کرے ۔جمہوری طرز حیات کے تحت یہ ان والدین کا آئینی حق بھی بنتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہتر تعلیم کی توقع حکومت سے کریں لیکن حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں میں ملازمت کرنے والے جب تعلیم و تدریس کے بجائے صرف دولت جمع کرنے کو ترجیح دینے لگیں تو پھر مسائل کا پیدا ہونا فطری ہے۔