Inquilab Logo Happiest Places to Work

ابوجہل، اخنس اور ابوسفیان رات کی تاریکی میں چھپ کر قرآن سننے سے خود کو روک نہیں پاتےتھے

Updated: May 08, 2020, 1:47 PM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

ایک طرف تو مشرکین مکہ اور ان کے سردار ، نبی کریم ؐ کو روکنے کیلئے مال و دولت کی پیشکش اور مفاہمت کی کوشش کررہے تھے، دوسری طرف رات کی تاریکی میں کاشانۂ نبوت کے اطراف چھپ جاتے کہ قرآن مجید سن سکیں

Quran Kareem - Pic : INN
قرآن کریم ۔ تصویر : آئی این این

اسی طرح کی ایک اور میٹنگ اس اجتماع سے پہلے یا بعد میں منعقد ہوئی، اس میں بھی مکہ مکرمہ کے یہی گنے چنے اربابِ بسط وکشاد شریک تھے۔ دراصل یہ لوگ صرف مال دار ہی نہیں تھے، بلکہ طاقتور بھی تھے اور فتنہ وفساد میں بھی ماہر تھے۔ پورے مکہ پر ایسے ہی لوگوں کی حکمرانی تھی۔ شریف لوگ تو ان سے پناہ مانگتے تھے اور اپنے گھروں میں دبکے رہتے تھے۔ اس مرتبہ میٹنگ میں یہ طے پایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی کو گفتگو کے لئے بھیجا جائے، اور ان کے سامنے فلاں فلاں تجاویز رکھی جائیں۔ تمام شرکاء کا خیال یہ تھا کہ محمدؐ  کی دعوت و تبلیغ کا معاملہ بہت زیادہ بڑھتا جارہا ہے، اب تو ان کے چچا حمزہؓ بھی اسلام لے آئے ہیں، دن بہ دن مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ضروری ہے کہ کوئی ایسا راستہ تلاش کیا جائے جس سے قوم انتشار وافتراق سے بچ جائے، ہوسکتا ہے محمدؐ  ایک نئے دین کے نام پر اپنے لئے کچھ سماجی مراعات اور امتیازات کے خواہاں ہوں، اگر ہم ان کی خواہش پوری کرکے قوم کو بکھرنے سے بچالیں تو یہ سودا گھاٹے کا نہیں ہوگا۔ 
رسول اللہ ﷺ سے بات چیت کیلئے عتبہ بن ربیعہ کو منتخب کیا گیا جو سحر، کہانت اور شعر گوئی کے فن میں یکتا سمجھا جاتا تھا۔
تجویز کے مطابق طے شدہ اُمور پر گفتگو کرنے کیلئے عتبہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’اے بھتیجے! قوم میں حسب نسب کے اعتبار سے تمہارا جو مقام ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے، مگرتم نے اپنی قوم کو امتحان میں ڈال دیا ہے اور اس کو دوخانوں میں بانٹ دیا ہے، تم ہمارے معصوم نوجوانوں کو ورغلا رہے ہو، ہمارے معبودوں کو برا کہہ رہے ہو، ہمارے آباء و اجداد کی شان میں گستاخیاں کررہے ہیں، اس لئے میں تم سے کچھ کہنے کے لئے آیا ہوں، میری باتیں غور سے سنو اور ان پر توجہ دو، میں قوم کی طرف سے  ایک پیشکش لے کر  اس اُمید کے ساتھ تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم یہ پیشکش قبول کرکے قوم کا شیرازہ بکھرنے سے بچالوگے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابوالولید! تم جو کہنا چاہتے ہو، کہو۔‘‘  عتبہ نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’اے بھتیجے! جو کھڑاگ تم نے کھڑا کیا ہے اگر اس سے تمہارا مقصد پیسہ کمانا اور مال اکٹھا کرنا ہے تو ہم سب مل کر تمہیں اتنی دولت دے دیتے ہیں کہ تم، ہم لوگوں میں سب سے زیادہ مال دار بن سکتے ہو، اور اگر تم عزت وشرف کے طالب ہو تو ہم تمہیں اپنا بڑا مان لینے کیلئے تیار ہیں، ہمارا وعدہ ہے کہ قوم کا کوئی بھی معاملہ تمہارے مشورے اور رائے کے بغیر طے نہیں پائے گا، اور اگر تمہیں حکومت واقتدار چاہئے تو یہ بھی مشکل نہیں، ہم آج ہی سے تمہیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں، اور اگر تمہارے ساتھ کوئی اور مسئلہ ہے، کوئی سحر یا جنون وغیرہ جس کی وجہ سے تم اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو تو ہم علاج معالجے کیلئے بھی تیار ہیں، ہم تمہارے لئے ماہر اطباء کو بلائیں گے اور اس کام میں جو پیسہ بھی خرچ ہوگا وہ کریں گے۔‘‘ 
 رسول اللہ ﷺخاموشی اور وقار کے ساتھ یہ کلام سنتے رہے، جب عتبہ اپنی بات کہہ کر فارغ ہوگیا تو آپؐ  نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابوالولید! کیا تم اپنی بات مکمل کرچکے ہو؟‘‘  اس نے کہا: ’’ہاں! اب مجھے کچھ نہیں کہنا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اب میری سنو۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے سورۂ حم سجدہ کی تلاوت شروع فرمادی۔ آپؐ تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ تعجب خیز انداز میں اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے آپ کو دیکھتا رہا اور آپؐ  کی تلاوت سنتا رہا، جب آپ اس آیت: فَإِنْ أَعْرَضُوْا ( آیت ۱۳  : ترجمہ: اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اِن سے کہہ دو کہ میں تم کو اُسی طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا ۔‘‘) پر پہنچے تو عتبہ نے اپنا ہاتھ آپ ؐ  کے دہن مبارک پر رکھ دیا اور آپؐ  کو قسم دے کر کہنے لگا: آپؐ آگے نہ پڑھیں ہم پر رحم فرمائیں۔ اسے ڈر ہوا کہ کہیں قوم عاد وثمود کی طرح یہاں بھی کوئی عذاب نہ آجائے، اس کے بعد بھی آپؐ نے تلاوت جاری رکھی۔ آیت سجدہ پڑھنے کے بعد آپؐ نے سجدۂ تلاوت بھی ادا فرمایا، اس کے بعد ختم سورہ تک تلاوت فرمائی اور عتبہ سے فرمایا کہ اے عتبہ! تمہیں جو سننا تھا وہ سن چکے، باقی تمہیں اختیار ہے۔ 
عتبہ  جب آپؐ  کے پاس سے رخصت ہوا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، لوگوں نے عتبہ کو اس حال میں آتے ہوئے دیکھا تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ عتبہ کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے، جس حال میں وہ یہاں سے گیا تھا اس حال میں واپس نہیں آیا۔ ابوجہل نے پوچھا! اے ابوالولید، اس قدر گھبرائے ہوئے کیوں ہو، تم محمد سے ملاقات کرنے گئے تھے، وہاں کیا واقعہ پیش آیا، تمہارا چہرا فق کیوں ہے، تم پر لرزہ کیوں طاری ہے، تم تو بدل سے گئے ہو، کہیں تم بھی صابی تو نہیں ہوگئے۔ عتبہ نے جواب دیا میں ایک کلام سن کر آیا ہوں، آج سے پہلے میں نے ایسا کلام کبھی نہیں سنا تھا، نہ وہ شاعری ہے، نہ سحر، نہ کہانت ہے، وہ تو کچھ اور ہی چیز ہے۔ اے اکابرین قریش! میرا کہنا مان لو، اور محمدؐ  کو اس کے حال پر چھوڑ دو، خدا کی قسم جو کلام میں اس کی زبان سے سن کر آرہا ہوں اس کی ایک شان ہوگی، اب اگر عرب نے انہیں نقصان پہنچایا تو تم پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی اور تم اطمینان کا سانس لوگے، اور اگر وہ عربوں پر غالب آگئے تو یہ تمہارے لئے فخر کی بات ہوگی کہ تمہارا بیٹا، تمہارا بھائی، تمہارا بھتیجا اور ہر طرح سے تمہارا اپنا سارے عرب کا سردار ہے، اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور تم اس پر فخر کروگے۔ یہ سن کر ابوجہل اور دیگر مخالفین کہنے لگے واللہ! اے ابو الولید،  اس نے تو اپنی باتوں سے تم پر جادو کردیا ہے، عتبہ نے جواب دیا، میری رائے تو یہی ہے، باقی تمہیں اختیار ہے جو چاہے کرو۔
 (دلائل النبوۃ، البیہقی: ۲/۲۰۴، ۲۰۵، البدایہ والنہایہ: ۳/۶۲،  ۶۴)
lمفاہمت کی کوشش:
  کفار ومشرکین نے اپنی سی تمام کوششیں کرکے دیکھ لیں، جسمانی و ذہنی ایذائیں، دھمکیاں، لالچ، ہر پہلو سے ان کی یہ کوشش رہی کہ یہ دین یہاں مکہ مکرمہ اور دوسرے قبائلِ عرب میں فروغ نہ پائے، اس کے لئے وہ جو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے کیا، بس اب ایک ہی راستہ باقی بچا تھا اور وہ تھا باہمی مفاہمت کا راستہ، اس کے لئے ان کے ذہن میں جو تجویز آئی وہ یہ تھی کہ یا تو آپ ہمارے بتوں کی برائی سے باز آجائیں یا پھر آپس میں ایک بات طے کرلیں کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی بوجا کریں اور ایک سال ہم آپ کے رب کی عبادت کریں۔ معجم طبرانی نے حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ قریشِ مکہ کی تجویز مفاہمت یا تجویز روا داری کے جواب میں قرآن کریم کی یہ سورہ  نازل ہوئی:
 ’’آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو، میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو، اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی ہے، اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں، تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے۔‘‘ (الکافرون:۱؍ تا ۵)  
 اس سورہ  کے ساتھ یہ آیتیں بھی نازل ہوئیں: 
  ’’آپ کہہ دیجئے کہ اے جاہلو! کیا تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کرنے کا مشورہ دیتے ہو؟ (یہ بات تمہیں ان سے صاف کہہ دینی چاہئے کیونکہ) تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم خسارے میں رہو گے۔ لہٰذا  تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔‘‘ (الزمر: ۶۴۔ ۶۶)  (تفسیر الطبری: ۲۴/ ۶۶۲) 
lقرآن کریم سننے کا شوق: 
 ایک طرف تو دین اسلام، پیغمبر اسلام اور کتابِ ہدایت یعنی قرآن کریم سے نفرت کا یہ حال کہ اس کا نام لینا اور سننا تک گوارا نہیں، دوسری طرف چھپ چھپ کر قرآن کریم سننے کی کوشش، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اگر یہ انسانی کلام تھا تو بہتیرے موجود تھے، ایک سے ایک ماہر خطیب اور زبان داں، جس قوم میں سحبان بن وائل جیسے خطیب موجود ہوں جو بغیر رُکے اور ٹھہرے گھنٹوں بول سکتے ہوں ان کیلئے انسانی کلام کوئی عجوبہ نہیں تھا کہ چھپ چھپ کر سناجاتا، ان کے کان شاعری سے بھی آشنا تھے، جس قوم میں امراء القیس، طرفۃ بن العبد، زہیر بن أبی سلمی، لبید بن ربیعہ، عمرو بن کلثوم، عنترۃ بن شداد، حارث بن حلزہ اور نابغۃ الذبیانی جیسے نابغہ ٔ روزگار شعراء موجود ہوں ان کیلئے کسی اور کی شاعری میں بھی اتنی دلچسپی نہیں ہوسکتی، سحر اور کہانت کے مکالمات بھی ان کیلئے انوکھے نہیں تھے، پھر کیا دلکشی تھی اس کلام میں جس کو اللہ اپنے محبوب بندے اور رسول پر نازل کررہا تھا، دن میں اس کلام کی تردید اور مذمت اور رات کی تاریکیوں میں سننے کا اشتیاق ،خواہش اور کوشش!!
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ تہجد کی نماز گھر میں ادا فرماتے تھے، اور بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سفیان بن حَرْب، ابوجہل بن ہِشَام، اور اَخْنَسْ بن شُرَیْق اپنے اپنے گھروں سے نکل کر رسولؐ اللہ کے دولت کدے کی طرف چلے، تینوں کا مقصد قرآن کریم سننا تھا، ان تینوں کو معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تہجد کی نماز میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں، تینوں نے گھر کے اطراف میں الگ الگ جگہ کا انتخاب کیا تاکہ وہاں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر قرآن سن سکیں، تینوں کو ایک دوسرے کی کوئی خبر نہ تھی، آپؐ طلوع فجر تک تلاوت فرماتے رہے اور یہ تینوں سنتے رہے، جب آپؐ کی نماز ختم ہوگئی تو تینوں نے اپنی اپنی راہ لی، اتفاق سے کسی موڑ پر تینوں کا اجتماع ہوگیا، پہلے تو ہر ایک نے دوسرے سے آنکھیں چُرائیں، پھر ایک دوسرے کو ملامت کی، اس کے بعد تینوں نے یہ طے کیا کہ ہمیں اس طرح چھپ کر قرآن نہ سننا چاہئے، کسی نے ہمیں یہاں دیکھ لیا تو پورے مکہ میں شور مچ جائے گا کہ ہم دن میں قرآن کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں، اور رات میں قرآن سنتے ہیں، وعدہ وعید کرکے تینوں رخصت ہوگئے، مگر اگلے دن پھر تینوں کے قدم اسی راستے کی طرف بڑھے، پچھلے روز کی طرح آج بھی الگ الگ جگہوں پر کھڑے ہوئے اور طلوع فجر تک کھڑے رہے، واپسی میں پھر تینوں کی ملاقات ہوگئی، پہلے ملامت کا سلسلہ چلا، پھر وعدے ہوئے اور یہاں نہ آنے کے عہد وپیمان کے بعد تینوں اپنے اپنے گھر چلے گئے، مگر قرآن کریم میں لذت ہی اتنی تھی کہ اگلی رات پھر گھروں سے نکلے، گزری رات میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کیا وعدہ کیا تھا وہ ان کے ذہن میں نہیں رہا یا جان بوجھ کر ذہن سے نکال دیا، آج کی رات بھی تینوں نے ایک دوسرے سے بے خبر الگ الگ جگہ ٹھہر کر قرآن کریم سنا، قرآنی الفاظ و کلمات کی حلاوت اور رسولؐ اللہ کی دلکش آواز میں اس کی سماعت کے سبب تینوں اس قدر کھوئے کہ کب فجر ہوگئی انہیں پتہ ہی نہیں چلا، واپس ہوئے تو پھر تینوں آمنے سامنے تھے، اس بار تینوں نے ایک دوسرے کو خوب برا بھلا کہا اور یہ پختہ وعدہ کیا کہ اب ہم یہاں نہیں آئیں گے، صبح ہوئی تو اَخْنَس، ابوسفیان کے گھر پہنچا، وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ صاحب خانہ کا تأثر کیا ہے، اس کا سوال تھا: اے ابو حنظلہ! محمد جو کلام پڑھتے ہیں اس کے متعلق تمہاری رائے کیا ہے، ابو سفیان نے جواب دیا: ابو ثعلبہ! محمد کے کلام میں کچھ باتیں تو ایسی ہیں جن سے میں واقف ہوں اور کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے میں بالکل واقف نہیں اور نہ ان باتوں کے منشاء ومقصد کا  مجھے علم ہے، کچھ عجیب اور نامانوس باتیں ہیں، لیکن ان میں عجیب سی جاذبیت اور کشش ہے، جو سننے میں بہت اچھی لگتی ہیں، اخنس نے تائید کرتے ہوئے کہا: واللہ! میرا بھی یہی خیال ہے، آؤ ابو الحکم کی طرف چلتے ہیں اور اس سے بھی پوچھتے ہیں کہ اس کو محمد کا کلام کیسا لگتا ہے، دونوں ابوجہل کے گھر پہنچے، اس کا جواب ان دونوں کے برخلاف تھا، اس نے کہا میں نے کیا سنا، اور اس کا کلام مجھے کیسا لگا، یہ بات تو رہنے دو، صاف بات یہ ہے کہ ہمارے اور بنو عبد مناف کے درمیان کچھ جھگڑے ہیں اور یہ جھگڑے تفوق اور برتری کے حوالے سے ہیں، نام و نمود اور عزت وشہرت کیلئے ہمارا یہ جھگڑا بہت پرانا ہے، ویسے تو حجابت، سقایہ، علَم برداری اور دار الندوہ کی ذمہ داری ہمارے پاس ہے، ان کے پاس حجاج کی ضیافت اور خدمت ہے، سو وہ ہم بھی کرتے ہیں، سخاوت اور فیاضی میں بھی ہم ان سے کم نہیں ہیں، لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ نبوت ورسالت ہمارے گھرانے میں ہے، ہم پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے تو ہمارے دلوں پر آرے سے چلتے ہیں اور ہم اس کا جواب نہیں دے پاتے۔ یہ شرف ایسا ہے جس میں ہم ان کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں، اس لئے ہم محمد پر کبھی ایمان نہیں لاسکتے اور نہ ان کی تصدیق وتائید کرسکتے ہیں، خواہ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے۔ 
ابوسفیان اور اخنس یہ سن کر کھڑے ہوگئے اور ابوجہل کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلے گئے۔ ( سورہ الاسراء کی آیت نمبر ۴۷؍ میں اسی قصے کی طرف اشارہ کیا گیا:  ’’ہم اس (نیت) کو زیادہ جانتے ہیں جس کے ساتھ وہ اسے غور سے سنتے ہیں، جب وہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور جب وہ سرگوشیاں کرتے ہیں، جب وہ ظالم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ تم پیروی نہیں کرتے مگر ایسے آدمی کی جس پر جادو کیا گیا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK