Inquilab Logo Happiest Places to Work

زبان انسانی شرافت، معاشرتی ارتقاء اور روحانی بلندی کا زینہ ہے

Updated: June 13, 2025, 5:22 PM IST | Muhammad Tauqeer Rahmani | Mumbai

زندگی کی وسعتوں میں انسان قدم بہ قدم مختلف وسائل پر انحصار کرتا ہے، مگر زبان کا تعلق صرف ضروریات کی تکمیل تک محدود نہیں، بلکہ یہ انسان کی شناخت، اس کے جذبات کی ترجمانی، اس کے افکار کی تبلیغ اور اس کے تعلقات کی بنیاد ہے۔

Observations of life bear witness that the sweetness of the tongue is the magic that captivates hearts. Photo: INN.
زندگی کے مشاہدات گواہ ہیں کہ زبان کی مٹھاس وہ جادو ہے جو دلوں کو مسخر کر لیتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

انسانی وجود میں اگر کسی ایک عضو کو فکر، احساس اور اظہار کے درمیان ایک پُل کی حیثیت دی جا سکتی ہے تو وہ زبان ہے۔ یہ صرف گوشت کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ انسان کی داخلی کائنات کو خارجی دنیا سے مربوط کرنے والا وہ آئینہ ہے، جس میں اس کے باطن کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ زبان ایک ایسا آلہ ہے جو بےجان ہو کر بھی روحِ انسانی کا پیغام بردار ہے اور بسا اوقات دلوں کے دریچے کھولنے والی چابی بھی۔ 
زندگی کی وسعتوں میں انسان قدم بہ قدم مختلف وسائل پر انحصار کرتا ہے، مگر زبان کا تعلق صرف ضروریات کی تکمیل تک محدود نہیں، بلکہ یہ انسان کی شناخت، اس کے جذبات کی ترجمانی، اس کے افکار کی تبلیغ اور اس کے تعلقات کی بنیاد ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ زبان کے بغیر بھی زندگی رواں رہتی ہے، مگر ایسی زندگی بسا اوقات گونگی تاریکیوں کا دوسرا نام بن جاتی ہے۔ معاشرہ ایسے افراد کو ’’معذور‘‘ کے خانے میں ڈال دیتا ہے، اور ان کی خاموشی کو کمتری کا استعارہ بنا دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ شخص جو زبان کی نعمت سے محروم ہوتا ہے، اس کے فیضان کا سچا قدر دان بن جاتا ہے عین اس قرآنی اصول کے مطابق کہ ’’وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا‘‘، اور اس مقولے کے مصداق کہ ’’قدرِ نعمت بعد از زوالِ نعمت است‘‘ یعنی کسی نعمت کی قدر (اکثر) اُس سے محرومی کے بعد ہوتی ہے۔ 
اگر انسانی جسم کو ایک شہر سمجھا جائے تو زبان اس کا ترجمان ہے، جو نہ صرف دل و دماغ کی خبریں عوام تک پہنچاتا ہے بلکہ ہر فکر کو لباسِ تعبیر بھی عطا کرتا ہے۔ جسم کے دیگر اعضاء اپنی جگہ اہم ہیں، مگر زبان کو ایک منفرد مقام اس لئے حاصل ہے کہ اس کی حرکت سے صلح کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے اور جنگ کے شعلے بھی بھڑکائے جا سکتے ہیں۔ ایک دانا کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ کسی زخم پر مرہم بن سکتا ہے، تو ایک بےوقوف کی زبان سے پھسلتا ہوا جملہ دلوں کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔ کلام میں اگر فہم و فراست نہ ہو، تو خوشبو بھی خوشبو نہیں رہ جاتی۔ 
زندگی کے مشاہدات گواہ ہیں کہ زبان کی مٹھاس وہ جادو ہے جو دلوں کو مسخر کر لیتا ہے، اور زبان کی ترشی وہ زہر ہے جو صدیوں کے رشتے پل میں مٹا دیتا ہے۔ شیریں گفتاری فقط تہذیب نہیں بلکہ دلوں کی حکومت کا وہ آئینی فرمان ہے، جس پر چلنے والے افراد معاشرے کے محبوب اور معتبر ٹھہرتے ہیں۔ دوسری جانب تلخ کلامی وہ معاشرتی سرطان ہے جس سے لوگ راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ جس کے الفاظ دوسروں کی روح کو چھلنی کر دیں وہ شخص کسی بھی مجلس میں معتوب و مطعون سمجھا جاتا ہے۔ سچ یہی ہے کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے کہیں زیادہ دیرپا ہوتا ہے۔ 
اس ضمن میں پیغمبرِ رحمت ﷺ کا وہ قولِ حکیم ایک آئینہ ہے جو ہر فرد کو اپنا چہرہ دکھاتا ہے۔ اس کا مفہوم ہے: ’’بدترین لوگ وہ ہیں جن سے لوگ اس کے شرمناک کلام کے خوف سے دور ہو جائیں۔ ‘‘ ( صحیح بخاری ۶۰۵۴) 
یہ حدیث ہمیں محض اخلاقیات کی تلقین نہیں کرتی، بلکہ معاشرتی تعلقات کے نازک تانے بانے کو سنبھالنے کا گر بھی سکھاتی ہے۔ بدکلامی انسان کو دوسروں کی نگاہوں سے گرا دیتی ہے، جبکہ خوش گفتاری اسے دلوں کے تخت پر براجمان کر دیتی ہے۔ زبان کے استعمال میں انسان کی باطنی تہذیب، اس کی تربیت، اس کے شعور اور اس کے وجدان کی ساری پرتیں عیاں ہو جاتی ہیں۔ یہی وہ کسوٹی ہے جہاں مہذب اور جاہل، باشعور اور کورذہن، عابد اور فاسق کا امتیاز ہو جاتا ہے۔ اگر زبان کو حکمت، محبت اور مروّت کے سانچے میں ڈھال دیا جائے تو یہ ’’قال‘‘ کو ’’حال‘‘ بنا دیتی ہے، اور اگر اسے جہالت، کدورت اور نفرت کا آلہ بنا دیا جائے تو انسان کو شیطان کے قریب کر دیتی ہے۔ 
پس، زبان محض بولنے کا ذریعہ نہیں، یہ انسانی شرافت، معاشرتی ارتقاء، اور روحانی بلندی کا زینہ ہے۔ اس کا درست استعمال نہ صرف معاشرے کو مہذب بلکہ فرد کو معزز، دلوں کو پرنور، اور رشتوں کو پائیدار بناتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK