Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسوۂ نبویؐ سے استفادہ کیلئے ضروری ہے کہ مطالعہ سیرت کا طریق کار متعین کیا جائے

Updated: June 20, 2025, 5:08 PM IST | Dr Mohammed Rafat | Mumbai

معروف طرزپر مرتب کی گئی سیرت کی کتابوں میں آپ ؐکی حیاتِ طیبّہ کے واقعات، زمانی ترتیب کے تحت ہمارے سامنے آتے ہیں۔ زمانی ترتیب کے بجائے اگر سیرت کامطالعہ اِس طرح ہو کہ قرآنی ارشادات کی تشریحات کو تلاش کیاجائے اور ان کو متعین موضوعات کے تحت جُدا جُدامرتب کیاجائے تو واقعات کی ایک نئی ترتیب سامنے آئیگی۔

After the Holy Quran, the second source of biography is Hadith. Among them, the Hadiths that are the strongest in terms of chain of transmission should be utilized first. Photo: INN.
قرآن مجید کے بعد سیرت کا دوسرا ماخذ احادیث ہیں۔ اُن میں سب سے پہلے اُن احادیث سے استفادہ کیاجانا چاہئےجو سند کے لحاظ سے قوی ترین ہوں۔ تصویر: آئی این این۔

محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلّم کی سیرت ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی پُرانا نہیں ہوتا۔ ہدایت کی طالب سعید روحیں اِس تذکرے میں وہ حیات بخش پیغام پاتی ہیں جو حق کی راہ کو روشن بھی کرتاہے اور اُس پر گامزن ہونے کا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔ شاعر نے اِسی حقیقت کی عکاسی کی ہے:
سلام اُس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
سلام اُس پر کہ جس کے ذِکر سے سیری نہیں ہوتی
اِنسانِ کامل کے اُسوۂ حسنہ سے کماحقہ فائدہ اُٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ سیرت کے مطالعے کا طریق کار متعین کیا جائے۔ غور کرنے سے محسوس ہوتاہے کہ اِس مطالعے میں درجِ ذیل نکات کا لحاظ کیاجانا چاہئے:
(الف) سیرت کے مستند ماخذ پر اِصرار
(ب) انبیائی مشن کے جامع تصور کا استحضار
(ج) ختم ِنبوت کے تقاضوں کا فہم
(د) قرآنی ہدایات کی درست تعبیر متعین کرنے کی سعی
(ہ) سیرتِ صحابہ سے استفادہ
اِن نکات کی رعایت کے علاوہ اِس حقیقت کو بھی سامنے رکھاجانا چاہئے کہ اُمت کے عوام و خواص، صدیوں پر محیط تاریخ کے دوران سیرت سے استفادے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق و جستجو سے جو سرمایہ فراہم کیاہے وہ بڑا قیمتی ہے۔ ایک طالب ِ حق اِن محققین کے نتائج فکر کو نظرانداز نہیں کرسکتاگرچہ نئے حقائق کی دریافت کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ 
سیرت کے مستند ماخذ
قرآنِ مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے طرزِ عمل کو اہلِ ایمان کے لئے اُسوۂ حسنہ قرار دیتا ہے:
’’درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسولوں میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کیلئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ ‘‘ 
(سورہ احزاب:۲۱)
آیت کاپیغام عام ہے۔ گرچہ مندرجہ بالا آیت غزوۂ احزاب کے سیاق میں نازل ہوئی ہے تاہم یہ آیت بتاتی ہے کہ اسوۂ حسنہ کا اتباع اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کالازمی تقاضا ہے۔ یہ بات معلوم ہوجانے کے بعد فطری طورپر ہر صاحبِ ایمان فرد کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اسوہ حسنہ سے واقفیت حاصل کرے۔ اِس واقفیت کے ذرائع مستند ہونے چاہئیں تاکہ جو معلومات حاصل ہوں وہ قابلِ اعتماد ہوں اور پورے اطمینان کے ساتھ اُن سے رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ یہ ذرائع ترتیب کے ساتھ درج ذیل ہیں :
(الف) قرآن مجید (ب) صحیح احادیث
(ج) معتبر تاریخی بیانات اور تذکرے
سیرتِ طیبہ کا پہلا ماخذ خود قرآنِ مجید ہے۔ اس امتیاز کی وجہ بالکل ظاہر ہے۔ قرآن مجید اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے اور کلیۃً یہ بات کسی اور ماخذ کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔ قرآن مجید میں سیرت کے متعدد اہم واقعات کا تذکرہ موجود ہے یا اُن واقعات کی جانب اِشارے کئے گئے ہیں مثلاً:
نزولِ وحی کی ابتدا۔ ﴿سورہ مزمّل، مدثّر، علق
نزولِ وحی میں وقفہ۔ ﴿سورہ ضحی
واقعہ ابن ام مکتوم۔ ﴿سورہ عبس
ابوجہل و ابولہب کی مخالفت ِ اسلام ﴿سورہ علق، لہب
شق القمر۔ ﴿سورہ قمر
ہجرتِ حبشہ۔ ﴿سورہ نحل، عنکبوت، زمر
غلبہ ٔ روم کی پیش گوئی۔ ﴿سورہ روم
واقعہ معراج۔ ﴿سورہ بنی اسرائیل
ہجرتِ مدینہ۔ ﴿سورہ توبہ
تحویل قبلہ۔ ﴿سورہ بقرہ
غزوۂ بدر۔ ﴿سورہ آلِ عمران، انفال
غزوہ ٔ احد۔ ﴿سورہِ آل عمران
غزوہ احزاب۔ ﴿سورہ احزاب
واقعہ افک۔ ﴿سورہ نور
غزوہ بنی نضیر۔ ﴿سورہ حشر
غزوہ بنی قریظہ ﴿سورہ احزاب
حضرت زینب سے نکاح۔ ﴿سورہ احزاب
صلح حدیبیہ۔ ﴿سورہ فتح
واقعہ تحریم۔ ﴿سورہ تحریم
فتح مکّہ۔ ﴿سورہ نصر
غزوہ حنین۔ ﴿سورہ توبہ
غزوہ تبوک۔ ﴿سورہ توبہ
قرآن مجید کے اوّلین ماخذ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ سیرت کے جو واقعات تاریخ سے ہمارے علم میں آئیں اُن کو قرآنی تصریحات و اشارات کے سیاق و سباق میں سمجھا جائے اور ایسی کسی بات کو بہرحال قبول نہ کیاجائے جو قرآن سے متصادم ہوتی ہو۔ اِس اصول کی ایک مثال غزوہ بدر سے متعلق ہے۔ قرآن مجید میں اِس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایاگیا (اور انفال یعنی مالِ غنیمت کی تشریح کی گئی):
’’تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو ’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات کو درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو۔ ‘ سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جِن کے دل اللہ کا ذِکر سُن کر لرزجاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات اُن کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رَب پر اعتماد رکھتے ہیں، جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے ﴿ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لئے اُن کے رَب کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ ﴿اِس مالِ غنیمت کے معاملے میں بھی ویسی ہی صورت پیش آرہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جب کہ تمہارا رَب تمہیں حق کے ساتھ تمہارے گھر سے نکال لایاتھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملے میں تم سے جھگڑرہے تھے درآں حالیکہ وہ صاف صاف نمایاں ہوچکاتھا۔ اُن کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھتے مَوت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔ ‘‘ (سورہ انفال:۱؍ تا۶﴾)
قرآن مجید کے بعد سیرت کا دوسرا ماخذ احادیث ہیں۔ اُن میں سب سے پہلے اُن احادیث سے استفادہ کیاجانا چاہئےجو سند کے لحاظ سے قوی ترین ہوں۔ سیرت کے اکثر واقعات کا تذکرہ متعدد روایات میں ملتا ہے اور اُن سب کو جمع کرنے سے واقعے کی صحیح تصویر سامنے آسکتی ہے۔ احادیث کے بعد وہ کتابیں بھی سیرت کے واقعات جاننے کاذریعہ ہیں جو تاریخی طرز پر لکھی گئی ہیں۔ اُن سے حاصل ہونے والی معلومات کواحادیث صحیحہ اور قرآن مجید کے سیاق میں سمجھنا اشد ضروری ہے۔ 
انبیائی مشن
سیرت کے صحیح فہم کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس کو غیرمربوط واقعات کا مجموعہ سمجھنے کے بجائے اُس مشن کا شعور حاصل کیاجائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ آپ کی پیغمبرانہ زندگی کا ہر واقعہ اِس مشن سے مربوط ہے اور اس تناظر سے اُس واقعے کو جُدا کردیاجائے تو اس کی ساری معنویت مجروح ہوجاتی ہے۔ مشہور مفکر اسلام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اِس نکتے کی وضاحت کرتے ہیں :
’’قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلّم دونوں چونکہ ایک مشن رکھتے ہیں اور ایک مقصد و مدعا کو لئے ہوئے آئے ہیں، اِس لئے اُن کو سمجھنے کا انحصار اِس پر ہے کہ ہَم اُن کے مشن اورمقصد و مدعا کو کِس حد تک سمجھتے ہیں۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے دیکھیے تو قرآن، عبارتوں کا ایک ذخیرہ اور سیرتِ پاک، واقعات و حوادث کا ایک مجموعہ ہے۔ آپ لُغت اور روایات اورعلمی تحقیق و کاوِش کی مدد سے تفسیروں کے انبار لگاسکتے ہیں اور تاریخی تحقیق کا کمال دِکھاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے عہد کے متعلّق صحیح ترین اور وسیع ترین معلومات کا ڈھیر لگاسکتے ہیں، مگرروحِ دین تک نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ وہ عِبارات اور واقعات سے نہیں بلکہ اس مقصد سے وابستہ ہے جِس کیلئے قرآن اُتارا گیا اور رسولؐ پاک کو اس کی علمبرداری کیلئے کھڑا گیا۔ اِس مقصد کا تصور جتنا صحیح ہوگا اتنا ہی قرآن اور سیرت کا فہم صحیح ہوگا اور جتنا یہ ﴿تصور ناقص ہوگا، اتنا ہی اِن دونوں کا فہم ناقص رہے گا۔ ‘‘ ( کتاب ﴿’محسنِ انسانیت‘ کے دیباچے سے مستعار)
سیرتِ پاک کے مختلف مراحل کو نبوی مشن کے سیاق میں سمجھنے کی ضرورت واضح ہوجانے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مشن کیاتھا جس کو آپؐ کی پیغمبرانہ سعی کا محور قرار دیاجانا چاہئے؟ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ یہ مشن ’اظہارِ دین‘ تھا۔ قرآن مجید میں آتا ہے: 
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ ‘‘ 
(سورہ توبہ:۳۳﴾)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ زندگی میں جو کام انجام دیئے، وہ سب ’اظہارِ دین‘ کے بنیادی مدعا سے مربوط تھے۔ آپؐ کی سعی کے مختلف پہلوؤں کا ذِکر قرآن مجید میں کیاگیا ہے:
’’اے نبی! ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بناکر۔ ‘‘ (سورہ احزاب:۴۵-۴۶﴾)
رسولِؐ اکرم کی اِن صفات کی تشریح کرتے ہوئے شبیر احمد عثمانی نے ایک جگہ تحریر فرمایا ہے:
’’آپؐ اللہ کی توحید سکھاتے اور اُس کا رستہ بتاتے ہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں، دِل اور عمل سے اُس پر گواہ ہیں اور محشر میں بھی اُمّت کی نسبت گواہی دیں گے کہ خدا کے پیغام کو کس نے کِس قدر قبول کیا۔ ﴿یہ معنی ہیں شاہد کے۔ 
پہلے فرمایاتھا کہ اللہ کی رحمت مومنین کو اندھیرے سے نکال کر اُجالے میں لاتی ہے۔ یہاں بتلادیا ہے کہ اُجالا اِس روشن چراغ سے پھیلا ہے، آپؐ آفتابِ نبوت و ہدایت ہیں جس کے طلوع ہونے کے بعدکسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہی۔ سب روشنیاں اِس نورِ اعظم میں محو و مدغم ہوگئیں۔ ﴿یہ معنی ہیں سراجِ منیر کے۔ ‘‘
اِن تشریحات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شہادتِ حق، انذار، تبشیر اور دعوت اُسی کارِ نبوی کے مختلف پہلو ہیں جِس کی جامع تعبیر اظہارِ دین ہے۔ 
سیرتِ پاک کاایک منفرد پہلو یہ ہے کہ محمد ﷺآخری نبی ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی اور نبی آنے والانہیں ہے:
 ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ ‘‘ (سورہ احزاب:۴۰﴾)
 سوال کیاجاسکتاہے کہ ’نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر سلسلہ نبوّت کیوں ختم ہوگیا؟‘ اِس سوال کاجواب دیتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں :
’صرف چار حالتیں ایسی ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں :
اوّل: یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اِس لئے ہوکہ اس میں پہلے کبھی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کاپیغام بھی اُس تک نہ پہنچ سکتاتھا۔ 
دوم: یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اِس وجہ سے ہوکہ پچھلے نبی کی تعلیم بھُلادی گئی ہو، یا اُس میں تحریف ہوگئی ہو اور اُس کے نقشِ قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہاہو۔ 
سوم: یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعے مکمل تعلیم وہدایت، لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیلِ دین کے لئے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔ 
چہارم: یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اُس کی مدد کے لئے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔ 
اب یہ ظاہر ہے کہ اِن میں سے کوئی ضرورت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔ 
قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضورؐ کو تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایاگیاہے اور دنیا کی تمدنی تاریخ بتارہی ہے کہ آپؐ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپؐ کی دعوت، سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء کے آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔ 
قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ، اِس امر کی شہادَت دے رہاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم، بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اِس میں مسخ و تحریف کاکوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپؐ لائے تھے، اُس میں ایک لفظ کی بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ جو ہدایت آپؐ نے قول و عمل سے دی، اُس کے تمام آثار آج بھی اِس طرح ہمیں مِل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپؐ کے زمانے میں موجود ہیں۔ اِس لئے دوسری ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ 
پھر قرآن مجید، یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضور کے ذریعے سے دین کی تکمیل کردی گئی۔ لہٰذا تکمیلِ دین کے لئے بھی اَب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔ 
اب رَہ جاتی ہے چوتھی ضرورت، تو اگر اس کے لئے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضور کے زمانے میں آپ کے ساتھ مقرر کیاجاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیاگیا تو یہ وجہ بھی ساقط ہوگئی۔ ‘ ﴿(تفہیم القرآن، ضمیمہ سورہ احزاب)
یہ بنیادی حقیقت کہ ’حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی سیرت، آخری نبی کی سیرت ہے‘ اپنے کچھ تقاضے رکھتی ہے جو مطالعہ سیرت سے متعلّق ہیں :
﴿الف: پہلی بات یہ ہے کہ سیرت کے طالب علم کو دعوت کے اُن طریقوں کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے جو آپ نے مختلف اقوام اور گروہوں کو حق کی طرف بُلانے کے لئے اختیار کیے۔ اُسے جاننا چاہئے کہ مدعو ئین کے مخصوص مزاج اور خصوصیات کا آپ نے کس طرح نوٹس لیا اور اُن خصوصیات کے پیشِ نظر دعوتی اسلوب میں کس طرح مناسب تنوع پیدا کیا؟ ایک طالب علم اِن سوالات کو ذہن میں رکھ کر آپ کی دعوتی مساعی کا مطالعہ کرے گا، تو اپنے لئے رہنمائی کا بڑا سامان پائے گا۔ اُس پر یہ حقیقت کھُلے گی کہ ایک عالم گیر دعوت، اگر حق و صداقت پر مبنی ہو، تو تمام اِنسانوں کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اُس کے داعی، حکمتِ دعوت سے آگاہ ہوں اور اُس حکمت کا استعمال بھی کریں۔ 
﴿ب: نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے پیغام کے عالمگیر ہونے کی بِنا پر جو اُمت ِ مسلمہ آپؐ کے ہاتھوں تشکیل پائی وہ بھی عالمگیر ہے۔ سیرت کے طالب علم کے لئے مطالعے کا دوسرا اہم گوشہ یہ ہے کہ آپؐ نے نسلی، قبائلی اور قومی عصبیتوں پر کس طرح قابو پایا اور وحدتِ بنی آدم کے اصول کو عمل کے پیکر میں کس طرح ڈھالا۔ 
﴿ج: ختمِ نبوت کی مندرجہ بالا تشریح میں تکمیلِ دین کا تذکرہ کیا جاچکا ہے۔ یہ حقیقت کہ دین مکمل ہوچکا ہے اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پیروانِ دین، ہدایت الٰہی کے ابدی اصولوں کو بدلتے ہوئے حالات پر منطبق کرنے کے قائل ہوں اور اِس کام کا سلیقہ اور صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ سیرت کے مطالعے کاایک اہم پہلو اِس امر کی تحقیق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ ایمان کے گروہ کو متنوع حالات میں دین کے تقاضے پورے کرنے کا اہل کس طرح بنایا اور اس سلسلے میں اُن کو کیا ہدایات دیں ؟
﴿د: سیرت کے طالب علم کے سامنے یہ اہم سوال بھی آنا چاہئے کہ امامت ِ عالم کے لئے جوگروہ آپؐ نے تیار کیا اُس کی اِنسانی صلاحیتوں کو نشوونما دینے کے لئے کیاطریقے اختیار کیے۔ یہ واقعہ ہے کہ آپ کی تربیت کے نتیجے میں عرب کے بادیہ نشیں دنیا کے حکمراں اوررہنما بن گئے جن کی ہمہ جہت شخصیت کی تصویر شاعر نے کھینچی ہے:
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں بین وجہاں بان و جہاں گیر و جہاں آرا
قرآنی ہدایات کی تشریح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم محض پیغامِ حق کو پہنچانے والے مجرّد پیغام بر نہ تھے بلکہ آپ کا منصب معلّم، مربی اور رہنما کا تھا۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ کیاگیا ہے:
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو، (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبی ٔ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ ‘‘(سورہ نحل:۴۳، ۴۴﴾)
 اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کردی ہے جِس کا تقاضا یہ تھا کہ لازماً ایک اِنسان ہی کو پیغمبر بناکر بھیجا جائے۔ ’ذِکر‘ فرشتوں کے ذریعے سے بھیجا جاسکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک اِنسان تک بھی پہنچایاجاسکتاتھا مگر محض ذِکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہوسکتاتھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت و ربوبیت، اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ اس ’ذِکر‘ کو ایک قابل ترین اِنسان لے کر آئے۔ وہ اُس کو تھوڑا تھوڑاکرکے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جِن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اُس کامطلب سمجھا جائے۔ جنھیں کچھ شک ہو اُن کا شک رفع کرے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت و مزاحمت کریں اُن کے مقابلے میں وہ اُس طرح کا رویّہ برت کر دِکھائے جو اس ’ذکر‘ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کے ہر گوشے اور ہرپہلو کے متعلّق ہدایات دے، اُن کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بناکر پیش کرے، اور اُن کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جِس کاپورا اجتماعی نظام، ’ذِکر‘ کے منشا کی تشریح ہو۔ ‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ نحل)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا ارشاد کے مطابق اُس ’ذِکر‘ کی تشریح وتوضیح کا کام انجام دیا، جو آپؐ پر نازل ہوا تھا۔ آپؐ کی تشریحات ﴿قولی ہوں یا عملی، احادیث اور کتب ِ سیرت میں موجود ہیں۔ سیرت کے طالب علم کے مطالعے کاایک اہم موضوع یہ ہے کہ وہ قرآنی ہدایات کی اِن تشریحات کو تلاش کرے اور ایک ایک ہدایت کے ذیل میں یہ متعین کرے کہ اُس کا وہ مستند مفہوم کیاہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل سے سامنے آتا ہے۔ 
اِس نہج پر سیرت کے مطالعے کی افادیت کو ایک مثال سے سمجھاجاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے معاملات کے سلسلے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے:
’’اہل ایمان اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔ ‘‘ (سورہ شوریٰ:۳۸﴾)
اِس ارشاد کی تشریح کے سلسلے میں ایک مشہور سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ کیا امیر یا ذمّہ دار، مشورہ دینے والوں کی متفقہ رائے کو یا اُن کی اکثریت کی رائے کو رَد بھی کرسکتا ہے اور ﴿سارے مشورے سُننے اور ان پر دیانت داری کے ساتھ غور کرنے کے بعد، اپنی صوابدید کے مطابق فیصلے کرسکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب دینے کاایک طریقہ یہ ہے کہ سیرتِ رسول سے اُن تمام واقعات کو جمع کیاجائے جِن میں اجتماعی مشورہ کیاگیاتھا پھر دیکھاجائے کہ وہاں فیصلہ کِس طرح کیاگیا؟ اگر مختلف مواقع پر فیصلہ کرنے کے مختلف طرز سامنے آئیں تو پھر اس اختلاف کے اسباب کی تحقیق کی جانی چاہئے یا اُس اختلاف کی کوئی معقول توجیہ سامنے آنی چاہئے۔ 
معروف طرزپر مرتب کی گئی سیرت کی کتابوں میں آپؐ کی حیاتِ طیبّہ کے واقعات، زمانی ترتیب کے تحت، ہمارے سامنے آتے ہیں۔ زمانی ترتیب کے بجائے اگر سیرت کا مطالعہ اِس طرح ہو کہ قرآنی ارشادات کی تشریحات کو تلاش کیاجائے اور ان کو متعین موضوعات کے تحت جُدا جُدا مرتب کیاجائے تو واقعات کی ایک نئی ترتیب سامنے آئے گی۔ مطالعے کی اِس طرز سے امید کی جاسکتی ہے کہ سیرت نبویؐ کے نئے پہلو روشنی میں آئیں گے اور قرآنی اِرشادات کے منشا کو سمجھنے میں بھی مزید مدد ملے گی۔ 
اِس طرزِ تحقیق کو اپنانے والا سیرت کا طالب علم یہ محسوس کرے گا کہ اکثر اوقات ایک واقعہ متعدد قرآنی ارشادات کی توضیح کرتاہے چنانچہ معروف زمانی ترتیب، اُن مختلف پہلوؤں کی نشاندہی سے عموماً قاصر رہتی ہے جو اس واقعے سے متعلّق ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محض واقعات نگاری کے بجائے، سیرت کے مطالعے یا اس کی تفہیم کے ایک نئے اسلوب کیلئے تجزیاتی طرز (Analytical Approach)بھی اختیار کیا جانا چاہئے جو زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK