معروف طرزپر مرتب کی گئی سیرت کی کتابوں میں آپ ؐکی حیاتِ طیبّہ کے واقعات، زمانی ترتیب کے تحت ہمارے سامنے آتے ہیں۔ زمانی ترتیب کے بجائے اگر سیرت کامطالعہ اِس طرح ہو کہ قرآنی ارشادات کی تشریحات کو تلاش کیاجائے اور ان کو متعین موضوعات کے تحت جُدا جُدامرتب کیاجائے تو واقعات کی ایک نئی ترتیب سامنے آئیگی۔
قرآن مجید کے بعد سیرت کا دوسرا ماخذ احادیث ہیں۔ اُن میں سب سے پہلے اُن احادیث سے استفادہ کیاجانا چاہئےجو سند کے لحاظ سے قوی ترین ہوں۔ تصویر: آئی این این۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلّم کی سیرت ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی پُرانا نہیں ہوتا۔ ہدایت کی طالب سعید روحیں اِس تذکرے میں وہ حیات بخش پیغام پاتی ہیں جو حق کی راہ کو روشن بھی کرتاہے اور اُس پر گامزن ہونے کا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔ شاعر نے اِسی حقیقت کی عکاسی کی ہے:
سلام اُس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
سلام اُس پر کہ جس کے ذِکر سے سیری نہیں ہوتی
اِنسانِ کامل کے اُسوۂ حسنہ سے کماحقہ فائدہ اُٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ سیرت کے مطالعے کا طریق کار متعین کیا جائے۔ غور کرنے سے محسوس ہوتاہے کہ اِس مطالعے میں درجِ ذیل نکات کا لحاظ کیاجانا چاہئے:
(الف) سیرت کے مستند ماخذ پر اِصرار
(ب) انبیائی مشن کے جامع تصور کا استحضار
(ج) ختم ِنبوت کے تقاضوں کا فہم
(د) قرآنی ہدایات کی درست تعبیر متعین کرنے کی سعی
(ہ) سیرتِ صحابہ سے استفادہ
اِن نکات کی رعایت کے علاوہ اِس حقیقت کو بھی سامنے رکھاجانا چاہئے کہ اُمت کے عوام و خواص، صدیوں پر محیط تاریخ کے دوران سیرت سے استفادے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق و جستجو سے جو سرمایہ فراہم کیاہے وہ بڑا قیمتی ہے۔ ایک طالب ِ حق اِن محققین کے نتائج فکر کو نظرانداز نہیں کرسکتاگرچہ نئے حقائق کی دریافت کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
سیرت کے مستند ماخذ
قرآنِ مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے طرزِ عمل کو اہلِ ایمان کے لئے اُسوۂ حسنہ قرار دیتا ہے:
’’درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسولوں میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کیلئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ ‘‘
(سورہ احزاب:۲۱)
آیت کاپیغام عام ہے۔ گرچہ مندرجہ بالا آیت غزوۂ احزاب کے سیاق میں نازل ہوئی ہے تاہم یہ آیت بتاتی ہے کہ اسوۂ حسنہ کا اتباع اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کالازمی تقاضا ہے۔ یہ بات معلوم ہوجانے کے بعد فطری طورپر ہر صاحبِ ایمان فرد کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اسوہ حسنہ سے واقفیت حاصل کرے۔ اِس واقفیت کے ذرائع مستند ہونے چاہئیں تاکہ جو معلومات حاصل ہوں وہ قابلِ اعتماد ہوں اور پورے اطمینان کے ساتھ اُن سے رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ یہ ذرائع ترتیب کے ساتھ درج ذیل ہیں :
(الف) قرآن مجید (ب) صحیح احادیث
(ج) معتبر تاریخی بیانات اور تذکرے
سیرتِ طیبہ کا پہلا ماخذ خود قرآنِ مجید ہے۔ اس امتیاز کی وجہ بالکل ظاہر ہے۔ قرآن مجید اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے اور کلیۃً یہ بات کسی اور ماخذ کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔ قرآن مجید میں سیرت کے متعدد اہم واقعات کا تذکرہ موجود ہے یا اُن واقعات کی جانب اِشارے کئے گئے ہیں مثلاً:
نزولِ وحی کی ابتدا۔ ﴿سورہ مزمّل، مدثّر، علق
نزولِ وحی میں وقفہ۔ ﴿سورہ ضحی
واقعہ ابن ام مکتوم۔ ﴿سورہ عبس
ابوجہل و ابولہب کی مخالفت ِ اسلام ﴿سورہ علق، لہب
شق القمر۔ ﴿سورہ قمر
ہجرتِ حبشہ۔ ﴿سورہ نحل، عنکبوت، زمر
غلبہ ٔ روم کی پیش گوئی۔ ﴿سورہ روم
واقعہ معراج۔ ﴿سورہ بنی اسرائیل
ہجرتِ مدینہ۔ ﴿سورہ توبہ
تحویل قبلہ۔ ﴿سورہ بقرہ
غزوۂ بدر۔ ﴿سورہ آلِ عمران، انفال
غزوہ ٔ احد۔ ﴿سورہِ آل عمران
غزوہ احزاب۔ ﴿سورہ احزاب
واقعہ افک۔ ﴿سورہ نور
غزوہ بنی نضیر۔ ﴿سورہ حشر
غزوہ بنی قریظہ ﴿سورہ احزاب
حضرت زینب سے نکاح۔ ﴿سورہ احزاب
صلح حدیبیہ۔ ﴿سورہ فتح
واقعہ تحریم۔ ﴿سورہ تحریم
فتح مکّہ۔ ﴿سورہ نصر
غزوہ حنین۔ ﴿سورہ توبہ
غزوہ تبوک۔ ﴿سورہ توبہ
قرآن مجید کے اوّلین ماخذ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ سیرت کے جو واقعات تاریخ سے ہمارے علم میں آئیں اُن کو قرآنی تصریحات و اشارات کے سیاق و سباق میں سمجھا جائے اور ایسی کسی بات کو بہرحال قبول نہ کیاجائے جو قرآن سے متصادم ہوتی ہو۔ اِس اصول کی ایک مثال غزوہ بدر سے متعلق ہے۔ قرآن مجید میں اِس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایاگیا (اور انفال یعنی مالِ غنیمت کی تشریح کی گئی):
’’تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو ’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات کو درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو۔ ‘ سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جِن کے دل اللہ کا ذِکر سُن کر لرزجاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات اُن کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رَب پر اعتماد رکھتے ہیں، جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے ﴿ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لئے اُن کے رَب کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ ﴿اِس مالِ غنیمت کے معاملے میں بھی ویسی ہی صورت پیش آرہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جب کہ تمہارا رَب تمہیں حق کے ساتھ تمہارے گھر سے نکال لایاتھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملے میں تم سے جھگڑرہے تھے درآں حالیکہ وہ صاف صاف نمایاں ہوچکاتھا۔ اُن کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھتے مَوت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔ ‘‘ (سورہ انفال:۱؍ تا۶﴾)
قرآن مجید کے بعد سیرت کا دوسرا ماخذ احادیث ہیں۔ اُن میں سب سے پہلے اُن احادیث سے استفادہ کیاجانا چاہئےجو سند کے لحاظ سے قوی ترین ہوں۔ سیرت کے اکثر واقعات کا تذکرہ متعدد روایات میں ملتا ہے اور اُن سب کو جمع کرنے سے واقعے کی صحیح تصویر سامنے آسکتی ہے۔ احادیث کے بعد وہ کتابیں بھی سیرت کے واقعات جاننے کاذریعہ ہیں جو تاریخی طرز پر لکھی گئی ہیں۔ اُن سے حاصل ہونے والی معلومات کواحادیث صحیحہ اور قرآن مجید کے سیاق میں سمجھنا اشد ضروری ہے۔
انبیائی مشن
سیرت کے صحیح فہم کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس کو غیرمربوط واقعات کا مجموعہ سمجھنے کے بجائے اُس مشن کا شعور حاصل کیاجائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ آپ کی پیغمبرانہ زندگی کا ہر واقعہ اِس مشن سے مربوط ہے اور اس تناظر سے اُس واقعے کو جُدا کردیاجائے تو اس کی ساری معنویت مجروح ہوجاتی ہے۔ مشہور مفکر اسلام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اِس نکتے کی وضاحت کرتے ہیں :
’’قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلّم دونوں چونکہ ایک مشن رکھتے ہیں اور ایک مقصد و مدعا کو لئے ہوئے آئے ہیں، اِس لئے اُن کو سمجھنے کا انحصار اِس پر ہے کہ ہَم اُن کے مشن اورمقصد و مدعا کو کِس حد تک سمجھتے ہیں۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے دیکھیے تو قرآن، عبارتوں کا ایک ذخیرہ اور سیرتِ پاک، واقعات و حوادث کا ایک مجموعہ ہے۔ آپ لُغت اور روایات اورعلمی تحقیق و کاوِش کی مدد سے تفسیروں کے انبار لگاسکتے ہیں اور تاریخی تحقیق کا کمال دِکھاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے عہد کے متعلّق صحیح ترین اور وسیع ترین معلومات کا ڈھیر لگاسکتے ہیں، مگرروحِ دین تک نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ وہ عِبارات اور واقعات سے نہیں بلکہ اس مقصد سے وابستہ ہے جِس کیلئے قرآن اُتارا گیا اور رسولؐ پاک کو اس کی علمبرداری کیلئے کھڑا گیا۔ اِس مقصد کا تصور جتنا صحیح ہوگا اتنا ہی قرآن اور سیرت کا فہم صحیح ہوگا اور جتنا یہ ﴿تصور ناقص ہوگا، اتنا ہی اِن دونوں کا فہم ناقص رہے گا۔ ‘‘ ( کتاب ﴿’محسنِ انسانیت‘ کے دیباچے سے مستعار)
سیرتِ پاک کے مختلف مراحل کو نبوی مشن کے سیاق میں سمجھنے کی ضرورت واضح ہوجانے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مشن کیاتھا جس کو آپؐ کی پیغمبرانہ سعی کا محور قرار دیاجانا چاہئے؟ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ یہ مشن ’اظہارِ دین‘ تھا۔ قرآن مجید میں آتا ہے:
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ ‘‘
(سورہ توبہ:۳۳﴾)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ زندگی میں جو کام انجام دیئے، وہ سب ’اظہارِ دین‘ کے بنیادی مدعا سے مربوط تھے۔ آپؐ کی سعی کے مختلف پہلوؤں کا ذِکر قرآن مجید میں کیاگیا ہے:
’’اے نبی! ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بناکر۔ ‘‘ (سورہ احزاب:۴۵-۴۶﴾)
رسولِؐ اکرم کی اِن صفات کی تشریح کرتے ہوئے شبیر احمد عثمانی نے ایک جگہ تحریر فرمایا ہے:
’’آپؐ اللہ کی توحید سکھاتے اور اُس کا رستہ بتاتے ہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں، دِل اور عمل سے اُس پر گواہ ہیں اور محشر میں بھی اُمّت کی نسبت گواہی دیں گے کہ خدا کے پیغام کو کس نے کِس قدر قبول کیا۔ ﴿یہ معنی ہیں شاہد کے۔
پہلے فرمایاتھا کہ اللہ کی رحمت مومنین کو اندھیرے سے نکال کر اُجالے میں لاتی ہے۔ یہاں بتلادیا ہے کہ اُجالا اِس روشن چراغ سے پھیلا ہے، آپؐ آفتابِ نبوت و ہدایت ہیں جس کے طلوع ہونے کے بعدکسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہی۔ سب روشنیاں اِس نورِ اعظم میں محو و مدغم ہوگئیں۔ ﴿یہ معنی ہیں سراجِ منیر کے۔ ‘‘
اِن تشریحات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شہادتِ حق، انذار، تبشیر اور دعوت اُسی کارِ نبوی کے مختلف پہلو ہیں جِس کی جامع تعبیر اظہارِ دین ہے۔
(مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے ملاحظہ فرمائیں )