یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خود ساختہ بنیادوں پر دوسروں کے خلاف رائے قائم کرنا اور پھر اس رائے کو پروپیگنڈے کی شکل میں عام کرنا فکری انحطاط اور اخلاقی زوال کی علامت بن چکا ہے۔
EPAPER
Updated: June 13, 2025, 5:23 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خود ساختہ بنیادوں پر دوسروں کے خلاف رائے قائم کرنا اور پھر اس رائے کو پروپیگنڈے کی شکل میں عام کرنا فکری انحطاط اور اخلاقی زوال کی علامت بن چکا ہے۔
بلا تحقیق کسی بات کو زبان یا قلم کا حصہ بنانا، یا کسی فرد کے خلاف بدگمانی قائم کرنا اور بلا دلیل الزام تراشی کرنا معمولی سماجی کمزوری نہیں بلکہ یہ ایک گہرے اخلاقی اور فکری بحران کی علامت ہے۔ یہ رویہ انسانی عقل، عدل اور صداقت جیسے بنیادی انسانی اقدار کی نفی کرتا ہے۔ کسی بات کی تصدیق کے بغیر اسے تسلیم کر لینا یا دوسروں کے کردار پر سوال اٹھانا، دراصل اس فکری سستی کا مظہر ہے جو انسان کو سطحیت اور تعصب کی طرف لے جاتی ہے۔ منطق کا تقاضا یہ ہے کہ ہر دعوے کو دلیل کی کسوٹی پر پرکھا جائے، ہر تصور کو سوال کی چھلنی سے گزارا جائے اور ہر رائے کو انصاف کے ترازو میں تولا جائے۔ جب کوئی معاشرہ اس اصول سے انحراف کرتا ہے، تو وہ نہ صرف سچائی اور عدل سے دور ہو جاتا ہے بلکہ اپنے فکری اور اخلاقی زوال کی بنیاد بھی رکھ دیتا ہے۔
اسی وجہ سے قرآن مجید میں یہ واضح ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کوئی غیر معتبر شخص کوئی خبر لے کر آئے تو فوراً اس پر یقین نہ کیا جائے بلکہ پہلے اس کی تحقیق کی جائے۔ ’’اے مسلمانو ! اگر تمہارے پاس کوئی غیر معتبر شخص کوئی خبر لائے تو اس کی خوب تحقیق کرلیا کرو ( کہیں ایسا نہ ہو) کہ تم کسی گروہ کو ناواقفیت میں نقصان پہنچادو، پھر تم کو اپنی حرکت پر پچھتانا پڑے۔ (الحجرات: ۶) اس قرآنی اصول کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں بے بنیاد الزام، بدگمانی اور غلط فہمیاں نہ پھیلیں اور کسی معصوم فرد پر ناحق ظلم نہ ہو۔ اگر بغیر تحقیق کسی خبر کو سچ مان لیا جائے تو اس سے نہ صرف فرد کی عزت و حرمت مجروح ہو سکتی ہے، بلکہ پورے معاشرے میں بے چینی، خلفشار اور بداعتمادی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ تعلیم دراصل انصاف، تدبر اور فکری سنجیدگی پر مبنی ایک مضبوط اخلاقی بنیاد فراہم کرتی ہے، جو ہر مہذب اور بامروّت معاشرے کیلئے ناگزیر ہے۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خود ساختہ بنیادوں پر دوسروں کے خلاف رائے قائم کرنا اور پھر اس رائے کو پروپیگنڈے کی شکل میں عام کرنا فکری انحطاط اور اخلاقی زوال کی علامت بن چکا ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کے بارے میں کسی نے سنی سنائی بات کی بنیاد پر یہ مشہور کر دیا کہ وہ بددیانت ہے۔ بغیر تحقیق کئے دوسرے لوگ بھی یہی بات دہرانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص ہر خاص و عام میں بدنام ہو گیا؛ حالانکہ حقیقت میں اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ یہ رویہ ایک ایسے اندھے ہجوم کی مانند ہے جو کسی کی شخصیت کو دلیل کے بجائے آوازوں کے شور میں روند دیتا ہے۔ قرآنِ مجید نے اس خطرناک سماجی برائی یعنی بلا تحقیق بدگمانی کرنے اور دوسروں کے بارے میں منفی رائے قائم کرنے کو نہ صرف ناپسندیدہ قرار دیا ہے بلکہ اسے صریح گناہ سے تعبیر کیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اے ایمان والو! بہت سارے گمانوں سے بچو؛ کیوں کہ بعض گمان (یعنی بدگمانی) گناہ ہوتے ہیں اور ٹوہ میں نہ پڑا کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کیا کرو، کیا تم میں سے کسی کو یہ بات اچھی لگے گی کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ؟ اس سے تم نفرت کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والے اور بڑے مہربان ہیں۔ ‘‘ (الحجرات: ۱۲) اس قرآنی حکم سے واضح ہوتا ہے کہ بغیر دلیل کے کسی کے بارے میں منفی سوچ اپنانا نہ صرف اخلاقی خرابی ہے بلکہ شرعی اعتبار سے بھی قابلِ گرفت عمل ہے۔ یہ تعلیم معاشرتی ہم آہنگی، باہمی اعتماد اور عدل و انصاف کے قیام کیلئے ایک بنیادی اصول مہیا کرتی ہے، جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ فکری یا اخلاقی طور پر ترقی نہیں کر سکتا۔ موجودہ وقت کی بے چینی اور بدامنی پر اگر اہلِ فکر و نظر غور کریں گے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ خاندان، سماج اور معاشرے میں پیدا ہونے والے اکثر جھگڑوں، رنجشوں اور دوریوں کی جڑ یہی خود ساختہ سوچ، بدگمانی اور بلا تحقیق رائے قائم کرنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب افراد بغیر کسی تحقیق کے محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں، یا دوسروں کے بارے میں منفی انداز میں سوچنا اپنا معمول بنا لیتے ہیں، تو اعتماد کی فضا مجروح ہو جاتی ہے اور دلوں میں غلط فہمیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں، برادریوں میں نفرت پنپتی ہے اور معاشرہ عدم اعتماد، الزام تراشی اور ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے دوسروں کے حوالے سے خود ساختہ رائے اور بدگمانی صرف ایک انفرادی کمزوری نہیں، بلکہ ایک اجتماعی فکری بیماری ہے، جس کا علاج شعور، تحقیق اور حسنِ ظن کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ اپنے معاشرہ کو ان خرابیوں سے بچانے کیلئے تحقیق کو اپنے پر لازم کرلینا چاہئے کہ جب تک کسی بات کی توثیق و تصدیق نہیں ہوجائیگی تب تک اُس کا کسی پر اظہار نہیں کریں گے۔ یہ بات وہاٹس ایپ کے مسیج فارورڈ کرنے کے جنون پر بھی صادق آتی ہےرب العالمین ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔