آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ (او سی سی آر پی) نےگزشتہ دنوں اڈانی گروپ کے ذریعے اپنی ہی کمپنی کے حصص خریدنے کاجو انکشاف کیا تھا اس میں عمومی پہلو سے دیکھا جائے توکوئی عیب نظر نہیں آتا کہ کمپنی کے مالک اور شراکت دار اپنا ہی مال خرید رہے ہیں ۔
EPAPER
Updated: September 10, 2023, 2:14 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ (او سی سی آر پی) نےگزشتہ دنوں اڈانی گروپ کے ذریعے اپنی ہی کمپنی کے حصص خریدنے کاجو انکشاف کیا تھا اس میں عمومی پہلو سے دیکھا جائے توکوئی عیب نظر نہیں آتا کہ کمپنی کے مالک اور شراکت دار اپنا ہی مال خرید رہے ہیں ۔
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ (او سی سی آر پی) نےگزشتہ دنوں اڈانی گروپ کے ذریعے اپنی ہی کمپنی کے حصص خریدنے کاجو انکشاف کیا تھا اس میں عمومی پہلو سے دیکھا جائے توکوئی عیب نظر نہیں آتا کہ کمپنی کے مالک اور شراکت دار اپنا ہی مال خرید رہے ہیں ۔ یعنی ایک تاجراپنی دکان سے اپنا ہی مال خریدے تواس میں گاہکوں کا کیا نقصان ہے۔گاہک بہت بہت یہ کہیں گے کہ دکاندار شاید دماغی توازن کھوبیٹھا ہے اور بہت بہت یہ کریں گے کہ اس دکان پر جانا بند کردیں گے۔لیکن اڈانی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔یہاں اپنا ہی مال اس لئے خریدا اور بیچا گیا تاکہ اس پلیٹ فارم پر برقرار رہا جا سکے جہاں سے مسلسل منافع ملنا ہےیعنی شیئربازار۔شیئر بازار یا اسٹاک مارکیٹ کے اپنے قوانین ہیں جن پراگلی سطور میں توجہ دلائی جائے گی ۔
گوتم اڈانی کا نام کاروباری طورپر تو ۳۵؍ سال پراناہے اور اس نام کی جڑیں ۱۹۸۸ء میں اس وقت تک پہنچتی ہیں جب انہوں نے اس کی بنیاد رکھی تھی اورخام اشیاء (اجناس) کی تجارت (کموڈیٹی ٹریڈ) سے شروعات کی تھی۔ اس نام کو سیاسی طورپر اس وقت عروج حاصل ہونا شروع ہوا جب ۲۰۱۴ء کے بعد سے مودی حکومت عروج پذیر ہوئی ۔اس کے بعد سے لےکراب تک اپوزیشن کی زبان سے جب بھی مرکزی حکومت کے خلاف تنقیدوں کے تیر چلے ان میں کہیں نہ کہیں اڈانی بھی نشانے پر رہے۔بالعموم کانگریس اور بالخصوص راہل گاندھی کے نشانے پر جو ۲؍ سرمایہ دار رہے ہیں ان میں سے ایک اڈانی ہی ہیں ۔اڈانی کی کاروباری ترقی کی بات کریں تواس کاسفر۱۹۹۰ء میں مندرا میں ان کی بندرگاہ (پورٹ) کے قیام سے شروع ہوگیاتھا ۔۱۹۹۸ء تک یہ بندرگا ہ ملک میں سب سے زیادہ غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد کا ذریعہ بن چکی تھی۔اس کے بعد سے اڈانی گروپ توانائی، پورٹ مینجمنٹ ،بجلی سپلائی ،ایئرپورٹ آپریشنز، تیل ، گیس اور انفرااِسٹرکچر کے شعبوں میں کاروباری ترقی کی بلندیاں طے کرتا گیا ۔مودی حکومت اڈانی پر کافی مہربان رہی ہے اور اس کے دور میں اسے کئی ترقیاتی پروجیکٹوں کے کنٹریکٹ ملے ہیں جن پراپوزیشن اکثر حملےکرتا رہتا ہے۔فی الحال مکیش امبانی کے بعداڈانی ہی ملک کے امیر ترین شخص ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت ساڑھے ۵۰۰؍ کروڑ سے زائد ہے۔
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ (اوسی سی آر پی) کی رپورٹ جو گزشتہ دنوں ’ دی گارجین ‘ اور ’فائنانشل ٹائمز ‘میں شائع ہوئی تھی اس کے انکشافات کچھ ایسے سوالات کھڑے کرتے ہیں جن کی زد میں وہ پورا سرمایہ دارانہ نظام آتا ہے جسے ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘اور ’سب کا ساتھ سب کا وشواس‘کا نعرہ بلند کرنے والی حکومت کی بھر پشت پناہی حاصل ہے۔اس رپورٹ کو سمجھناکافی تکنیکی نوعیت کا معاملہ ہے لیکن ایک عام آدمی کیلئے اتنا سمجھنا کافی ہےکہ اڈانی کو کچھ برسوں میں پیسہ کمانے یا کہہ لیجئے کہ پیسہ بنانے کے بھرپور مواقع دئیے گئے ۔اسٹاک مارکیٹ اور شیئر بازار کے قوانین کے مطابق سینسیکس میں کسی درج فہرست کمپنی کے ۲۵؍ فیصد شیئرزکا آزاد ہونا لازمی ہے تاکہ ان کی خرید و فروخت اوران میں سرمایہ کاری کی جا سکے۔یعنی اسٹاک ایکسچینج میں کوئی درج کمپنی کا مالک کمپنی میں صرف ۷۵؍ فیصد ہی ملکیت رکھ سکتا ہے باقی ۲۵؍ فیصدحصص سرمایہ کاروں کیلئے ہوتے ہیں ۔ بابا رام دیو کی پتانجلی کو اسی وجہ سے ا سٹاک مارکیٹ سے ہٹایاگیاتھا کہ اس میں ۸۰؍فیصد ملکیت بابا رام دیو کی ہی تھی۔ او سی سی آر پی کی رپورٹ کے مطابق اڈا نی گروپ کے شیئرز میں ۲؍ غیر ملکی افراد برسوں سے سرمایہ کاری کررہے تھے لیکن رپورٹ کے ان کے گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی سے قریبی تعلقات کادعویٰ کیاگیا ہے۔سمجھا جاسکتا ہےکہ اڈانی گروپ نے ان تعلقات پر پردہ کیوں ڈالے رکھا۔ وجہ یہ ہےکہ کمپنی میں ان کی ملکیت اسٹاک مارکیٹ کےقانون کےمطابق مقررہ حد سے آگے نہ بڑھ جائے ۔کیونکہ ایک گروپ ،ایک فیملی یا اس کے متعلقین کی کمپنی میں صد فیصد شراکت کی وجہ سے کمپنی شیئربازار میں کاروبار کے استحقاق سے محرو م ہوجاتی ۔اب اس ہیرا پھیری یا بیرون ملک سے یہاں کمپنی میں پیسے لگانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کمپنی جو شیئر بازارمیں کاروبار کرنے کاحق نہیں رکھتی تھی ،وہ نہ صرف مسلسل کاروبار کرتی رہی بلکہ کسی نہ کسی ذریعے سے اسےکنٹرو ل بھی کرتی رہی۔یہ موقع اسےکس نے اور کیوں دیا؟ اس سے قبل ہنڈن برگ کی رپورٹ میں بھی اڈانی گروپ پر شیئروں میں ہیرا پھیری کے الزامات لگائے گئے تھے۔اس طرح کی رپورٹیں اور ان میں کئے گئے انکشافات عام کی آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں کیونکہ عام آدمی دواوردوچارکا حساب رکھتا ہےجبکہ شیئر بازار تک پہنچتے پہنچتےحساب کافی پیچیدہ ہوجاتے ہیں ۔وہاں جودھاندلیاں اور بدعنوانیاں ہوتی ہیں وہ ہائی پروفائل ہوتی ہیں ۔وہاں فریب کئی پردوں میں دیاجاتا ہے۔یہی تو سرمایہ دارانہ نظا م ہے لیکن شکر ہےکہ کوئی بھی شعبہ قانون کی نگرانی سے خالی نہیں ہے۔یہ قانون ہر جگہ اپنا کام کرتا ہے۔پھر ضوابط کی پاسداری کو یقینی بنانے والے ادارے بھی ہوتے ہیں جو اس طرح کی رپورٹیں جاری کرکے حقیقت بے نقاب کردیتے ہیں ۔اسٹاک مارکیٹ پر نظر رکھنے والے ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اڈانی گروپ کے بارے میں ہنڈن برگ کی رپورٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو ہندوستانی سرمایہ کار اور شیئربازارکے کاروباری پہلے سے نہ جانتے ہوں ۔شیئر بازار کے ہندوستانی ماہرین کو پہلے سے پتہ تھا کہ اڈانی گروپ سرمایہ کاری کے لائق نہیں ہے۔ اس گروپ کا سرمایہ (کیپٹل ) اووَر ویلیویعنی ’ضرورت سے زیادہ‘یا ’ حساب سے باہر‘ تھا۔سوال یہ ہے اڈانی گروپ کے تعلق سے ایسی باتیں کیوں سامنے آرہی ہیں ۔چنگ چانگ لینگ اورناصر علی شعبان اہلی نے باہر سے سرمایہ کاری کیسے شروع کی ؟ماریشس اور برمودا کی کمپنیوں کا ہندوستانی اسٹاک مارکیٹ سے کیا لینا دینا ہے؟سرمایہ کاری یا سرمایہ داری کا یہ کیسا کھیل ہےکہ یہاں اپنے ملک میں غریبوں کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والی حکومتیں ان کیلئے تو بس کچھ فلاحی اسکیموں کا اعلان کردیتی ہیں لیکن اصل خزانہ اڈانی جیسے سرمایہ داروں کا بھرا جاتا ہے۔گجرات کانگریس کے چیف شکتی سنگھ گوہل نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا تھا کہ گجرات کی ایک سرکاری پاورکمپنی نے انرجی چارجزکے نام پراڈانی گروپ کی کمپنی کو ۳۹۰۰؍ کروڑ روپے زائد دئیے ہیں ۔یعنی معاہدہ کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی سرکاری کمپنی اڈانی کی کمپنی کو پیسے دیتی رہی۔ نہ لینے والے نے روکا اورنہ دینے والے نے کچھ پوچھنے کی زحمت کی ۔
ادھر ممبئی میں دھاراوی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ اڈانی کو دیاگیاہے جس کی پُر زور مخالفت کی جارہی ہے۔یہ ایسا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ ہے جس کا کوئی پلان دھاراوی کے باشندوں پرظاہر نہیں کیاگیا ہے اورنہ انہیں یہ بتایا گیا ہےکہ ان کیلئے متبادل رہائش کا نظم کیا ہوگا ؟دوسری طرف صورتحال یہ ہےکہ شیئر بازار میں اڈانی کیلئے کاروبارکے سارے راستے کھلے رکھے گئے ہیں ۔اڈانی کے معاملے میں حکومت نے ایسے خاموشی اختیارکررکھی ہے جیسے یہ کچھ معاملہ ہی نہ ہو۔ایک ارب پتی کے اشارے پر بہ آسانی ملک کا پیسہ باہر جاتا ہے اوروہاں سے یہاں اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی جاتی ہےجس پرنہ ای ڈی حرکت میں آتی ہے نہ سی بی آئی ۔ یہ اگر آمدنی سے زیادہ اثاثےرکھنے کا اپوزیشن کے کسی رکن کا معاملہ ہوتا تو اس پر کب کے چھاپے پڑ گئے ہوتے ،لیکن یہاں قانونی حد سے زیادہ کاروبار کرنے ، منافع کمانے اور مسلسل منافع میں رہنے کا معاملہ ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے!ٹھیک ہے کوئی کارروائی نہ کی جائے لیکن یہ تو بتایاجائےکہ اڈانی اور ان کےگروپ پر لگنے والے الزامات اور سامنے آنے والے ’حقائق‘ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا حکومت کو یہ بھی احساس نہیں کہ ہزاروں کروڑوں روپے ملک سے باہر جاکر واپس بھی آجاتے ہیں اور یہاں کا غریب غریب ہی رہ جاتا ہے۔