۱۹۹۹ء میں دیکھا گیا خواب اب شرمندہ تعبیر ، اس شمال مشرقی ریاست کے بیرابی سے سائرنگ تک ریلوے روٹ کی تعمیر تقریباً مکمل۔
EPAPER
Updated: July 14, 2025, 12:22 PM IST | Berabi
۱۹۹۹ء میں دیکھا گیا خواب اب شرمندہ تعبیر ، اس شمال مشرقی ریاست کے بیرابی سے سائرنگ تک ریلوے روٹ کی تعمیر تقریباً مکمل۔
ستمبر ۱۹۹۹ء میں بیرابی سے سائرنگ تک جس ریلوے لائن کا تصور کیاگیاتھا وہ اب حقیقت بننے والا ہے ۔ یہ ریلوےلائن میزورم کے بیرابی سےسائرنگ کے درمیان ۵۱ء۳۸؍ کلو میٹرکے فاصلے پر مبنی ہے جس کا وزیر اعظم مودی جلدہی افتتاح کرنے والے ہیں۔ ناہموار پہاڑوں کے درمیان فاصلے کو ٹرینوں کے ذریعے کس طرح کم کیا جا سکتا ہے ، یہ لائن اسی کی مثال ہے۔ میزورم کے بیرابی سے دارالحکومت ایزول کو جوڑنے والی ریلوے لائن کے آپریشن سے ان دونوں مقامات کے درمیان فاصلہ۱۰؍ گھنٹے سے کم ہو کر صرف تین گھنٹے رہ جائے گا۔
اس وقت بیرابی سے ایزول کو ملانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا واحد ذریعہ قومی شاہراہ نمبر۶؍ ہے اور یہ سڑک ایزول کے راستے پڑوسی ملک میانمار کی سرحد تک جاتی ہے۔ اگر اس روٹ پر ٹریفک معمول کے مطابق ہو تو سڑک کے ذریعے ۹؍ سے۱۰؍ گھنٹے لگنا معمول کی بات ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس ریلوے روٹ کو میانمار کی سرحد سے جوڑنے کا منصوبہ ہے اور اس کے لیے سروے کا کام بھی جلد شروع کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ایزول شہر کو مکمل طور پر ریل کے ذریعے منسلک کر دیا جائے گا۔ فی الحال یہ ریلوے روٹ ایزول سے تقریباً۲۰؍کلومیٹر دور سائرنگ تک بنایا گیا ہے۔ تقریباً۵۲؍کلومیٹر طویل اس راستے پر۴۸؍ سرنگیں ہیں۔
بیرابی ایزول ریلوے لائن کی تعمیر کے بعد میزورم کی راجدھانی ایزول شمال مشرقی ریاستوں کی چوتھی راجدھانی ہے جو ریل روٹ سے جڑ جائے گی ۔ آسام کے دارالحکومت گوہاٹی، ارونا چل کے دارالحکومت ایٹا نگر اور تریپورہ کے دارالحکومت اگرتلا کے بعد میزورم کا دارالحکومت ریل نیٹ ورک سے جڑجائے گا۔ایزول ریلوے روٹ پر ایئرکنڈیشنڈ ٹرین کے ڈبوں میں ڈسٹڈوم شیشے لگے ہیں جن سے کھلی روشنی ٹرین کی چھت سے آتی ہے لیکن تقریباً ہر منٹ کے بعد ٹرین کے سرنگ میں داخل ہوتے ہی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اس راستے پر ریلوے مسافر قدرتی حسن سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ اس روٹ پر ٹرینیں چلانے سے ایزول میں سیاحت میں اضافہ ہوگا اور معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا ۔
اس پروجیکٹ کے چیف انجینئر ونود کمار نے بتایا ’’اس علاقے میںکام کرنے کے موسم بہت مختصر تھے ۔ نومبرسے مارچ تک ہی ہمیں وقت ملتا تھا اور اپریل سے اکتوبر کے درمیان بھاری بارش کے موسم میں کام ممکن ہی نہیںتھا ۔نا ہموار پہاڑی سلسلے، گھنے جنگلات اور گہری وادی پروجیکٹ کے دوران سخت چیلنجز رہے۔‘‘انہوں نے بتایاتعمیراتی سائٹس پرمٹیریل کی سپلائی بھی کسی چیلنج سے کم نہیں تھی۔‘‘
واضح رہے کہ اس پروجیکٹ کو ۰۹-۲۰۰۸ء میں منظوری ملی تھی۔۲۰۱۴ءمیں اس کیلئے زمینیں تحویل میں لی گئی تھیں اور وزیر اعظم مودی نے سنگ بنیاد رکھا تھا اور اب یہ مکمل ہوچکا ہے۔