Inquilab Logo

اگنی پتھــ: راستے میں آگ ہی آگ ہے

Updated: June 28, 2022, 11:09 AM IST | Hassan Kamal | Mumbai

اگنی پتھ اب ایسا راستہ نظر آرہا ہے، جس میں آگ ہی آگ ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں سلگ اٹھی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ نوجوانوں کے دلوں میں جو آگ لگی ہے، وہ اب جلد ٹھنڈی ہونے والی ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

یہ کیسا اگنی پتھ ہے ، جس کے لئے ملک کے نوجوانوں کے دلوں میں یہ خوف سما یا ہے کہ اگر وہ اس پر گامزن ہوئے تو اپنے مستقبل کے بارے میں انہوں نے جو سنہرے خواب دیکھے تھے، وہ سب جل کر خاک ہو جائیں گے۔ملک میں نوجوانوں کو روزگار دینے والے دو ہی سب سے بڑے ادارے ہیں، ایک ریلوے دوسرا فوج۔ ریلوے کو دھیرے دھیرے نجی سیکٹر کے حوالے کرنے کی پالیسی نے گزشتہ تین چار برسوں سے ملازمت کے دروازے بالکل بند کر رکھے ہیں۔ سرکار جب کوئی محکمہ یا ادارہ نجی سیکٹر کے حوالے کرتی ہے تو وہ نجی سیکٹر سب سے پہلے ملازموں کی تعداد گھٹاتا ہے اور صرف اتنی ہی ملازمتیں دیتا ہے جو ناگزیر ہوں۔ 
    ہندوستان کی فوج چین کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج ہے۔ برّی، بحری اور فضائی فوج کی مشترکہ تعداد ۱۳؍ لاکھ کے قریب ہے، بی جے پی تو اس کے لئے بہت زور زور سے بات کرتی ہے کہ ہماری فوج دنیا کی دوسری سب سے بڑی اور طاقتور فوج ہے۔ ہر سال ۶۰ ؍ہزار سے لے کر۹۰؍ ہزار فوجی سبکدوش ہوتے ہیں۔ یعنی ہر سال  اتنی ہی بڑی تعدا میں فوجی اسامیاں خالی ہورہی ہیں ۔ یہ سب اسامیاں یک مشت تو بھری نہیں جاتیں، لیکن ان کی ایک اچھی خاصی تعداد کے لئے نئی بھرتیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اس کی آس لگائے رہتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں جا کر دیکھئے، علی الصبح نوجوان لڑکے پارکوں اور میدانوں میں دوڑ لگاتے اور مختلف اقسام کی جسمانی ورزشیں کرتے ملیں گے۔ یہ سلسلہ دو دو تین تین سال تک چلتا رہتا ہے۔ فوجی ملازمت ان کے لئے نہ صرف گزر بسر کا ایک نادر موقع ہوتا ہے، بلکہ اسے  وہ اپنے دیش پریم کے اظہار کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ اس لئے جب انہیں یہ بتایا گیا کہ اب فوج میں خالی اسامیاں یک مشت نہیں بھری جائیں گی، بلکہ تھوڑی تھوڑی کر کے بھری جائیں گی تو لاکھوں نوجوانوں کے خوابوںکے شیش محل ریزہ ریزہ ہو گئے۔ ستم بالائے ستم انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ جو اسامیاں بھری بھی جائیں گی، ان کی مدت صرف چار سال ہوگی۔ چار سال بعد بھرتی کئے جانے والوں میں سے صرف ۲۵ ؍فیصد کی ملازمت برقرار رہے گی، باقی لوگوں کو نکال دیا جائے گا۔ یہی نہیں اس چار سال میں انہیں صرف تنخواہیں ملیں گی۔ انہیں کوئی بھتہ نہیں دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ انہیں کینٹین کی سہولت بھی نہیں دی جائے گی۔ ظاہر ہے، یہ خبر ان نوجوانوںپر برق بن کر گری۔ پھر انہوں نے اپنی خفگی کا اظہار ہر اس طرح سے کیا جس طرح کر سکتے تھے اور اس کا سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے، جاری ہے۔ نہ جانے مودی سرکار نے اس اعلان کیلئے یہی وقت کیوں چنا۔نوجوانوں کے اتنے شدید رد عمل نے مودی سرکار کا خاصا خائف ضرور کر دیا ہے۔    لیکن اسی کے ساتھ اگنی پتھ کے خیال کو دوسرے پہلوئوں سے بھی دیکھا جانا چاہئے۔ اگنی پتھ اسکیم  بجائے خود کوئی بے جواز اسکیم نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے بتایا ہندوستان کی فوج ۱۳ ؍لاکھ ہے۔ ہر سال فوجیوں کی تنخواہ کا خرچ ۴ ؍لاکھ کروڑ روپے کے قریب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فوجیوں کی پنشن کے لئے ہر سال ایک لاکھ کروڑ روپے درکار ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کی معیشت جس زبوں حالی کا شکار ہے، اس کے پیش نظر یہ رقمیں قومی خزانے کے لئے ناقابل برداشت  بوجھ ثابت ہو رہی ہے۔    حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا ہر ملک دفاعی بجٹ کے اخراجات سے پریشان ہے۔ ہر ملک اس خرچ کو کم کرنے کی ترکیبیں سوچ رہا ہے۔ سب کی یہ سمجھ میں آچکا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بڑی تعداد میں فوج بہت مہنگا سودا ہے۔ اسے کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فوج میں بس اتنے ہی  فوجی لئے جائیں جنہیں لینا لازمی ہو۔ کچھ ملکوں نے اس کی یہ ترکیب نکالی ہے کہ ہر شہری کے لئے دو یا تین سال کی فوجی تربیت لازمی قرار دی ہے۔ اس طرح کسی ہنگامی حالت میں باضابطہ فوجیوں کی کمک کے لئے یہ شہری فوجیوں کی خدمات انجام دے سکیں۔ ہمارے ملک میں بھی دسویں درجہ کے بعد طلباء کو دو سال کی این سی سی کی ٹریننگ دی جاتی تھی لیکن ایک تو یہ لازمی نہیں تھی، دوسرے یہ صرف شہروں تک محدود تھی جہاں کالج موجود تھے۔ تمام باضابطہ فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے پیچھے یہ سوچ بھی تھی کہ آج کل جنگوں میں سپاہی کم لڑتے ہیں ٹیکنالوجی زیادہ لڑتی ہے۔ ہر ملک حسب مقدور جنگی ٹیکنالوجی پرزور دے رہا ہے۔ امریکہ نے جب عراق پر حملہ کیا تھا تو اس کے بہت قلیل تعداد فوجی زمین پر تھے۔ امریکہ نے تمام جنگ عراق کے خلاف ٹیکنالوجی استعمال کرکے لڑی تھی۔ حالیہ یوکرین جنگ میں بھی روس نے فوجی کم سے کم میدان میں اتارے ۔ یہ جنگ بھی میزائیلوں سے لڑی جا رہی ہے۔  لیکن جو ممالک فوجیوں کی تعداد گھٹا رہے ہیں، وہ اسی کے ساتھ اپنے نوجوانوں کے لئے روزگار کے دوسرے دروازے بھی کھول رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شاید یہ سوچا ہی نہیں گیا۔ ہمارا خیال ہے کہ نریندر مودی کے مشیر انہیں درست اور صحیح مشورے دینے کے بجائے انہیں صرف وہی مشورے دیتے ہیں جو ان کے خیال میں مودی جی سننا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ دس لاکھ روزگار فراہم کئے جائیں گے۔ نوجوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پھر شاید انہیں بتایا گیا کہ معیشت اس کی اجازت نہیں دیتی۔  یہ مشورہ انہیں کس نے دیا یہ تو نہیں معلوم ، لیکن اگنی پتھ کی سب سے بڑی وکالت مودی جی کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈھووال کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ ان کا فوجی معاملات سے کیا تعلق؟انہیں افغانستان کے معاملات ’’سنبھالنے‘‘ کاکام دیا گیا تھا جو انہوں نے بالکل چوپٹ کر دیا تھا۔ پھر لداخ سے اروناچل تک ہونے والی چینی جارحیت کی بابت چین کے فوجی افسروں کو سمجھانے بجھانے کیلئے مامور کئے گئے، اس معاملہ میں نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ ان کا نام ہی لیاجانا ترک کر دیا گیا۔ ایک عرصہ کے بعد ان کی آواز اس دن سنائی دی، جس دن انہوں بتایا کہ اگنی پتھ کتنی اچھی اسکیم ہے۔ بہر حال اگنی پتھ اب ایسا راستہ نظر آرہا ہے، جس میں آگ ہی آگ ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں سلگ اٹھی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ نوجوانوں کے دلوں میں جو آگ لگی ہے، وہ اب جلد ٹھنڈی ہونے والی ہے۔ اب تو ان کی تحریک میںکسان بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف ہر روز کوئی نہ کوئی معاشی ماہر اس اسکیم کے گن گاتا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح کسانوں کیلئے تین قوانین کے گن گائے جاتے تھے اور دوسری طرف راہل گاندھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مودی جی کو یہ اسکیم بھی واپس لینی پڑے گی، بالکل اسی طرح، جس طرح انہوں نے کسان آندولن کے وقت کہا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK