Inquilab Logo Happiest Places to Work

مغربی بنگال: یونیورسٹی کے سوالیہ پرچے میں مجاہدین آزادی کو’’دہشت گرد‘‘لکھا گیا، شہریوں میں غم و غصہ

Updated: July 12, 2025, 8:04 PM IST | Kolkata

سی پی آئی (ایم) لیڈر سوجن چکرورتی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے آزادی پسندوں کیلئے "دہشت گرد" کی اصطلاح کے استعمال کی شدید مذمت کی اور اسے ”آزاد ہندوستان میں ناقابل تصور اور ناقابل یقین“ قرار دیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

مغربی بنگال کے پچھم میدنی پور میں واقع ودیاساگر یونیورسٹی میں تاریخ کے ایک امتحانی پرچے میں آزادی پسندوں کو ”دہشت گرد“ کہے جانے کے بعد تنازع کھڑا ہوگیا۔ سوالیہ پرچہ منظر عام پر آنے کے بعد طلبہ نے احتجاج کیا اور سیاسی حلقے سے سخت ردعمل آیا تو یونیورسٹی نے اسے ”طباعتی غلطی“ قرار دیتے ہوئے عوامی طور پر معافی مانگ لی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر، دلیپ کمار کر نے جمعرات کو معافی نامہ جاری کیا اور اس واقعے کو ”سنگین غلطی“ قرار دیا۔

ودیاساگر یونیورسٹی میں بدھ کو تقسیم کئے گئے بی اے آنرز تاریخ کے چھٹے سیمسٹر کے پرچے (بنگالی میڈیم) میں متنازع سوال نمبر ۱۲، میں پوچھا گیا تھا کہ ”میدنی پور کے دہشت گردوں نے کن تین ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کو ہلاک کیا تھا؟“ ہندوستانی آزادی پسندوں کو ”دہشت گرد“ کہے جانے کی عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر سخت مذمت کی گئی۔ درجنوں طلبہ وائس چانسلر دلیپ کمار کر کے دفتر کے سامنے جمع ہوئے اور ”ہم جواب چاہتے ہیں، بہادر آزادی پسندوں کی توہین کیوں کی گئی؟“ اور ”آپ کو معافی مانگنی چاہئے!“ جیسے نعرے لگائے۔

یہ بھی پڑھئے: بنگال کے لوگ کشمیر گھومنے جائیں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں: ممتا

وائس چانسلر دلیپ کمار کر نے کہا کہ اس غلطی پر ہمیں گہرا دکھ ہے۔ یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے اور ہم معافی کے طلبگار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ واقعے کے ۲۴ گھنٹوں کے اندر ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہ ایک طباعتی غلطی تھی جو پروف ریڈنگ کے دوران نظر انداز ہو گئی۔ ایک بار جب پرچہ تقسیم ہو گیا تو اصلاحات کرنے کا وقت نہیں تھا۔ میں نے کنٹرولر آف ایگزامینیشنز کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔

سوال میں جن تین ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس جیمز پیڈی، رابرٹ ڈگلس اور برنارڈ ای جے برج کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ برطانوی افسران تھے جو ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۴ء کے درمیان میدنی پور میں ہندوستانی انقلابیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، یہ ان کے نوآبادیاتی جبر اور ظالمانہ حکمرانی کا بدلہ تھا۔

یہ بھی پڑھئے: ہریانہ: ریاستی سطح کی ٹینس کھلاڑی رادھیکا یادو کا اپنے والد کے ہاتھوں قتل

سیاسی ردعمل

اس واقعے پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کے پوتے، چندر کمار بوس نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان انقلابیوں کو، جنہوں نے ملک کی آزادی کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیں، دہشت گرد کہنا، گستاخی ہے۔ بوس نے سوالیہ پرچہ تیار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

مغربی بنگال اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سوبھندو ادھیکاری نے اسے ”بالکل اشتعال انگیز“ قرار دیا اور دلیل دی کہ یہ ”صرف غلطی“ نہیں بلکہ ”ہماری تاریخ کو جان بوجھ کر بگاڑنے کی کوشش“ ہے۔ خاطی پروفیسر کو ہٹانے اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ادھیکاری نے کہا کہ یہ ہر اس ہندوستانی کیلئے دھچکا ہے جو ہماری آزادی کی جدوجہد کا احترام کرتا ہے۔ کیا ٹی ایم سی واضح کرے گی کہ وہ اس شرمناک بیانیے پر قائم ہے؟

یہ بھی پڑھئے: کانگریس کا گجرات کے وزیر سے استعفیٰ کا مطالبہ

ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے ریاستی جنرل سیکرٹری کنال گھوش نے پارٹی کو اس تنازع سے دور رکھا اور کہا کہ سوالات چند افراد نے تیار کئے تھے، نہ کہ محکمہ تعلیم نے۔ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ کس نے سوالیہ پرچے کو منظوری دی۔

دریں اثنا، سی پی آئی (ایم) لیڈر سوجن چکرورتی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے آزادی پسندوں کیلئے ”دہشت گرد“ کی اصطلاح کے استعمال کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ”آزاد ہندوستان میں ناقابل تصور اور ناقابل یقین“ قرار دیا اور ٹی ایم سی حکومت کو اس کی نگرانی میں ایسی سنگین غلطی کی اجازت دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK