Inquilab Logo

آہ پرنب مکھرجی

Updated: September 01, 2020, 10:43 AM IST | Editorial

سابق صدر جمہوریہ اور بھارت رتن پرنب مکھرجی کے انتقال سے ہندوستانی قوم ایک ایسے سیاستداں سے محروم ہوگئی ہے جواعلیٰ دماغ، بہترین صلاحیت اور وسیع تجربہ ہی کا حامل نہیں تھا بلکہ اپنے سیکولر مزاج اور معاملہ فہمی کی وجہ سے اس قابل تھا کہ کسی بھی مشکل وقت میں اس سے رہنمائی حاصل کی جائے

Pranabh Mukherjee - Pic : INN
پرنب مکھرجی ۔ تصویر : آئی این این

سابق صدر جمہوریہ اور بھارت رتن پرنب مکھرجی کے انتقال سے ہندوستانی قوم ایک ایسے سیاستداں سے محروم ہوگئی ہے جواعلیٰ دماغ، بہترین صلاحیت اور وسیع تجربہ ہی کا حامل نہیں تھا بلکہ اپنے سیکولر مزاج اور معاملہ فہمی کی وجہ سے اس قابل تھا کہ کسی بھی مشکل وقت میں اس سے رہنمائی حاصل کی جائے۔وہ ہندوستانی سیاستدانوں کے اُس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جس نے نہرو اور شاستری کے بعد کے دور کو بہت قریب سے دیکھا اور اس کا اہم حصہ رہے، خاص طور پر اندرا اور راجیو گاندھی کا دور اقتدار۔ پہلی بار اندرا گاندھی ہی نے اُنہیں راجیہ سبھا کی رُکنیت سے نوازا اور اس طرح مرکزی سیاست میں آنے کا موقع دیا تھا۔ 
  پرنب دا نے سیاسی واقعات نگاری کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، جسے سیاسی سوانح بھی کہا جاسکتا ہے، وہ کسی ایک کتاب سے شروع ہوکر اُسی پر ختم نہیں ہوا بلکہ چار کتابوں تک پہنچا۔ اس میں اُن کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ موجود ہے۔ ان کتابوں میں درج کئے گئے کئی واقعات، اُن ادوار کے سیاسی نشیب و فراز سے واقفیت رکھنے والوں کیلئے بھی نئے تھے۔ اس اعتبار سے یہ کتابیں جہاں ہندوستانی سیاسی تاریخ کے طالب علموں کیلئے بہت اہم ہیں، وہیں اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ پرنب مکھرجی اکثر اہم سیاسی فیصلوں کا حصہ رہے۔ 
 پرنب مکھرجی اتنی متنوع اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل نہ ہوتے تو غیر ممکن تھا کہ اُنہیں اپنے سیاسی کریئر کے الگ الگ ادوار میں الگ الگ ذمہ داریاں سونپی جاتیں۔ بہ الفاظ دیگر، یہ اُن کی گوناگوں صلاحیتوں ہی کا نتیجہ تھا کہ انہیں وزیر مالیات، وزیر دفاع، وزیر خارجہ، وزیر صنعت و تجارت، وزیر بینک کاری اور محصولات، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن، ہاؤس لیڈر (لوک سبھا)،جنرل سکریٹری آل انڈیا کانگریس کمیٹی، صدر بنگال پردیش کانگریس اور ایسے ہی کئی دیگر عہدوں پر فائزکیا گیا۔ کم ہی لوگ اتنے سارے عہدوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ انصاف کرپاتےہیں۔ 
 پھر وہ وقت بھی آیا جب اُنہیں صدر جمہوریہ جیسے جلیل القدر عہدے سے سرفراز کیا گیا۔ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں ہی کی وجہ سے اُنہوں نے ہر ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کیا اور ہندوستانی سیاست اور قانون سازی کی تاریخ کا اہم باب بن گئے۔ ۱۹۶۹ء میں راجیہ سبھا کیلئے نامزد ہونے کے بعد سے ۲۰۱۷ء میں صدر جمہوریہ کی حیثیت سے سبکدوش ہونے تک پرنب مکھرجی نے اپنی زندگی کے کم وبیش پچاس سال ملک و قوم کی خدمت کیلئے وقف کئے۔ ممکن تھا کہ اُنہیں ۲۰۰۴ء میں وزارت عظمیٰ کیلئے منتخب کیا جاتا مگر یہ اعزاز ڈاکٹر منموہن سنگھ کے حصے میں آیا، شاید اس لئے کہ ملک کا سب سے بڑا عہدہ پرنب دا کا منتظر تھا۔ 
 پرنب مکھرجی نے عملی سیاست کے دور میں وزیر اعظم بننے کی خواہش کا بھلے ہی کبھی اظہار نہ کیا ہو مگر ۲۰۰۴ء میں کانگریس فتح سے ہمکنار ہوئی تو اُن کا احساس یہ تھا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے نام پر صدر جمہوریہ کیلئے غوروخوض ہوگا اور اُن کے نام پر وزارت عظمیٰ کیلئے۔ مگر رول بدل گئے۔ منموہن سنگھ کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا اور پرنب مکھرجی صدر جمہوریہ بنائے گئے۔ وہ دوسری میعاد کیلئے بھی صدر جمہوریہ منتخب ہوسکتے تھے مگر ایک ٹرم کے بعد انہوں نے عملی سیاست سے سبکدوشی کو ترجیح دی۔ 
 پرنب دا کو اُن کی زبردست قوت حافظہ، افکار و نظریات کی شفافیت اور جیسا کہ عرض کیا گیا، متنوع صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ افسوس کہ اُنہوں نے ایسے وقت میں الوداع کہا ہے جب اُن کی پارٹی اپنی طویل تاریخ کے سب سے ناخوشگوار دور سے گزر رہی ہے اور حالت یہ ہے کہ پارٹی کا صدر بھی منتخب نہیں ہوپارہا ہے۔ یہ فرض سونیا گاندھی کو اپنی علالت کے باوجود ادا کرنا پڑرہا ہے جن کی سیاسی تربیت اور سرپرستی میں پرنب مکھرجی کا اہم کردار رہا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK