Inquilab Logo

اکھنڈ بھارت اور جنوبی ایشیائی ملکوں کا اتحاد

Updated: June 04, 2023, 10:33 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہ کہنا مشکل ہے کہ اکھنڈ بھارت کا تصور کہاں تک قابل عمل ہے مگر یہ کہنا مشکل نہیں کہ جغرافیائی حدود کو ملانے سے زیادہ معاشی، عوامی اور قلبی سطح پر اتحاد اہم ہے جو ممکن بھی ہے۔

narender modi
نریندر مودی

گزشتہ دِنوں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ دو بنگالی افراد کو بنگلہ دیشی درانداز کہہ کر گرفتار کرلیا گیا تھا، اب دس ماہ بعد اُنہیں رہائی ملی ہے۔ ان کے نام پلش اور شکلا ادھیکاری ہیں جن پر الزام تھا کہ وہ غیر ملکی ہیں۔ رہائی کا حکم ہونے کے باوجود اُنہیں ایک ماہ جیل میں گزارنا پڑا کیونکہ اُن کیلئے دو مقامی افراد کی ضمانت حاصل کرنا مشکل تھا۔ 
 ایک اور خبر نظر سے گزری جس کا لب لباب یہ تھا کہ نیپال کے سیاسی لیڈران ہندوستان کے نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں لگنے والے اکھنڈ بھارت کے نقشے پر معترض ہیں۔ خبر میں درج تھا کہ اکھنڈ بھارت کا تصور اُن ہندوتوا وادی قوم پرستوں کی ذہنی اختراع ہے جو پڑوسی ملکوں مثلاً افغانسان، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، میانمار، پاکستان، سری لنکا اور نیپال کو ہندوستان میں ضم کرنا چاہتے ہیں۔ 
 اب آپ کہیں گے کہ اِن دو خبروں میں کیا مشترک ہے یا ان کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے؟ اس کا جواب آپ کو ذیلی سطروں میں مل جائیگا۔ اس سے قبل بتانا چاہوں گا کہ مَیں ان دنوں اپنی نئی کتاب ’’اکھنڈ بھارت کا معاملہ‘‘ (دی کیس آف اکھنڈ بھارت) کی تصنیف میں مصروف ہوں۔ یہ تصنیفی کام یہ بتانے کی کوشش ہے کہ (۱) جو لوگ اکھنڈ بھارت کے بارے میں سوچ رہے ہیں یا پڑوسی ملکوں کو ملا کر ایک عظیم بھارت کا خواب دیکھ رہے ہیں اُن کا حقیقتاً ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ وہ اس ارادہ کو نقشے کے ذریعہ دکھانے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ (۲) اگر وہ اپنے ارادے کو عمل میں تبدیل کرنا چاہیں یعنی جنوبی ایشیاء کو متحد کرنے کی کوشش کریں تو اس کیلئے اُنہیں کیا کرنا ہوگا۔
 پہلے سوال کا جواب بہت آسان ہے۔ ان کا حقیقی ارادہ نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ وہ ایسا ملک چاہتے ہیں جس میں عوام رعایا بن کر رہیں۔ ارادہ حقیقی ہو تب بھی یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ جس پارٹی کا ایک بھی ایم پی یا ایم ایل اے مسلمان نہ ہو وہ چتاگانگ کی کسی خاتون یا پشاور کے کسی نوجوان کیلئے باعث ِ کشش نہیں ہوسکتی۔ اسی بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی زمین حاصل کرنا چاہتی ہے، اُس پر رہنے بسنے والے لوگوں سے اس کی دلچسپی نہیں ہے۔ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر آپ کشمیر کو سامنے رکھ سکتے ہیں اور وہاں کے حالات پر غور کرسکتے ہیں کہ وہاں کیا ہوا۔  
 تعصب اُکتا دینے والی چیز ہے مگر مذکورہ بالا دوسرے سوال پر غور کیجئے تو آپ کو اُکتاہٹ نہیں ہوگی بلکہ اس میں دلچسپی محسوس ہوگی کہ کیا اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے؟ یہ کام اسلحہ سے نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم میں اسلحہ کے استعمال کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے میں زیادہ طاق نہیں ہیں اور اپنی اس کوتاہی کا اعتراف بھی نہیں کرتے۔ اس کی مثال چین سے دی جاسکتی ہے کہ اس سے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کی جاسکتی ہے مگر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ اہل اقتدار میں یہ سوچنے والے لوگ بھی ہیں کہ چین ہم سے زیادہ طاقتور ہے اس لئے ہمیں محتاط رہنا چاہئے۔ 
 ہم نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش سے سختی سے پیش آسکتے ہیں مگر چاہیں کہ اُنہیں اپنے ساتھ ضم کرلیں تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی قانونی جواز ہمارے پاس نہیں ہے۔ ایک بہت سادا اور صاف راستہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی بالادستی منوا سکتے ہیں اور یہی میری مذکورہ کتاب کا موضوع ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنی قدیم جمہوریت، معاشی بالادستی (کو یقینی بناکر) اور اپنی بڑی آبادی کو بنیاد بناکر اپنے تمام پڑوسیوں کو متحد کرنے کی کوشش کریں۔ کیا یہ ممکن ہے؟
 جی ہا ںممکن ہے۔ اس کیلئے ہمیں غیر سیاسی موضوعات کو اُٹھانا اور اُن میںاپنا اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔یاد کیجئے جب یورپی یونین کی تشکیل عمل میں لائی جانی تھی، تب یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ ایک کرنسی ہوگی جو اتحاد میں اہم کردار ادا کرے گی یا متحدہ پارلیمنٹ ہوگی جس سے اتحاد کا احساس ہوگا۔ اتحاد کا معرکہ سر کیا گیا اسٹیل اور کوئلہ کارخانوں میں تال میل اور ہم آہنگی کے ذریعہ۔ اُن میں اتحاد کی کیفیت پیدا کرکے۔ یہ بہت اہم حکمت عملی تھی کیونکہ یہ دو صنعتیں ہر ملک کی اکنامی اور ملٹری کو مضبوط کرنے اور ترقی دینے کیلئے ضروری تھیں۔ یورپی ملکوں نے خود کو متحد کیا غیر معمولی تدبر، حکمت عملی اور اتفاق رائے سے۔ یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یورپی ملک ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں اس کے باوجود ان کے درمیان ۱۹۱۴ء سے ۱۹۴۵ء تک غیر معمولی جنگ ہوئی اور بے شمار لوگ مارے گئے۔ اس کے باوجود اُنہوں نے اتحاد کے فارمولے کو اپنایا اور ایسا کرکے دکھا دیا۔ کیا وہ تدبر او رحکمت عملی جو یورپی ملکوں نے اپنائی، ہمارے لئے بھی فائدہ مند ہوسکتی ہے اور سب کا ایک وزیر اعظم یا سب کی ایک کرنسی کے بغیر ہم بھی جنوبی ایشیاء کو متحد کرسکتے ہیں؟ جی ہاں یہ ممکن ہے، دیکھئے کیسے؟
 اس کیلئے ضروری ہوگا کہ نقل و حمل کو بنیاد بنے۔ ٹرانسپورٹ سب کو جوڑنے والی کڑی بن جائے۔ بری اور فضائی راستوں کے ذریعہ برصغیر کے تمام ممالک جڑ جائیں۔ اسی طرح رابطہ ٔ عامہ۔ موبائل ٹیکنالوجی نے اس مسئلہ کو بھی حل کردیا ہے۔ عوام سے عوام کا رابطہ برصغیر کے اتحاد کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ اور آگے بڑھئے، عوام سے عوام کے رابطے کیلئے ضرو ری ہے کہ آزادانہ سفر کی اجازت ہو۔ بہ الفاظ دیگر کولکاتا سے ڈھاکہ جانا ہو تو ویزا کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح لاہور سے شملہ آنے والوں کو سفر کی تکنیکی یعنی پاسپورٹ اور ویزا جیسی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیا یہ بہت مشکل کام ہے؟ نہیں، یہ بیک جنبش قلم ممکن ہے۔ مگر اسے ممکن نہیں بنایا جاتا کیونکہ جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے کے مفروضے کو حقیقت کا درجہ دیتے ہیں۔
 دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے جو یورپی یونین سے مستعار ہے کہ مال کی نقل و حمل اور خدمات کے لین دین میں سہولتیں اور آسانیاں پیدا کی جائیں۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جنوبی ایشیاء کے ملکوں کی معیشتیں خود بخود ایک دوسرے سے قریب ہوجائینگی۔ جو چیزیں ہم مینوفیکچر کرتے ہیں اُن کی ضرورت پڑوسی ملکوں کو ہے اور پڑوسی ملکوں کی اپنی معاشی خصوصیات ہیں جن سے ہم فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ اس سے تال میل بڑھ سکتا ہے۔ ذہنی سطح پر متحد ہونے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ 
 یہ اور اس طرح کے طریقے عمل میں لائے گئے تو اس سے افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہوگی، معیشتیں جڑیں گی، اس کے صلے میں عوام ایک دوسرے سے جڑیں گے اور ایک اکھنڈ بھارت بصورت دیگر معرض وجود میں آئے گا جو سب کے لئے فائدہ مند ہوگا۔ اس میں ہمیں سبقت حاصل ہوگی کیونکہ ہم سب سے بڑا ملک ہیں۔n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK