Inquilab Logo Happiest Places to Work

جگن ناتھ مندر: ممتا بنرجی کا ماسٹر اسٹروک؟

Updated: May 07, 2025, 12:55 PM IST | Pervez Hafeez | Mumbai

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور زیرک سیاستداں ممتا بنرجی سمجھ گئی ہیں کہ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسی کی بچھائی ہوئی بساط پر کھیلا جائے اور اسے اسی کے گیم میں مات دی جائے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

کلکتہ سے۱۸۰؍ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع دیگھا اپنے خوبصورت ساحل سمندر کے لئے مشہور ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ چھٹیاں منانے کے لئے جاتے ہیں۔ آٹھ دن قبل وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اسی دیگھا میں ایک عالیشان جگن ناتھ مندرکا افتتاح کرکے اس ساحلی شہر کی اہمیت اورمقبولیت میں مزید اضافہ کردیا۔ پہلے پانچ دنوں میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے نئے مندر کا درشن کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ نہ صرف دیگھا بلکہ پورے صوبے کی معاشی ترقی میں معاون ثابت ہوگا۔ لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مندر کی تعمیر سے جو سیاسی فائدہ ممتا بنرجی کو ہونے جارہا ہے وہ اس معاشی فائدے سے بہت زیادہ بڑاہے۔ ۲۹؍ اپریل کے دن وزیر اعلیٰ نے دیگھا مندر کاافتتاح کرکے در اصل بنگال میں بھارتیہ جتنا پارٹی کے جارحانہ ہندوتوا کے ایجنڈا اور انتخابی عزائم کو بھاری چوٹ پہنچائی ہے۔ 
  تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود جب بی جے پی ۲۰۲۱ء میں بھی ممتاکواقتدارسے نہیں ہٹاسکی تو پارٹی کے قائدین نے فرقہ وارانہ سیاست کی آنچ مزید تیز کردی۔ بی جے پی نے ممتابنرجی کو ’’ہندو دشمن‘‘ بناکر عوام کے سامنے پیش کرنے کی جو مذموم مہم شروع کی تھی ۲۰۲۵ء آتے آتے اس مہم میں شدت پیدا ہوگئی۔ پچھلے چند ماہ سے ممتا بنرجی کو’’دورحاضرکا جناح‘‘تک قرار دیا جانے لگا۔ ممتا کو جہادیوں اور دہشت گردوں کا سرپرست تک کہا گیا۔ 
بی جے پی ہندو ووٹروں کو یہ کہ کر ورغلارہی ہے کہ ممتا کو صرف مسلمانوں کا مفادعزیز ہے اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو انہیں ممتا سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے مظالم کے حقیقی اور فرضی واقعات سناکر بی جے پی یہ پروپیگنڈہ بھی کررہی ہے کہ اگر اگلے اسمبلی الیکشن میں ممتا کا پتہ نہیں کاٹا گیا تو بنگال بہت جلد بنگلہ دیش میں تبدیل ہوجائے گا۔ پہلے دنگے بھڑکانا اور پھر ان دنگوں میں گرنے والی لاشوں پر سیاست کرنا فرقہ پرست طاقتوں کا پرانا وتیرہ رہا ہے۔ مرشدآباد میں بھی یہی ہتھکنڈہ استعمال کیاگیا۔ بی جے پی ممتا راج میں ’’ہندو خطرے میں ہے‘‘ کا ہوا کھڑا کررہی ہے۔ کلکتہ کی دیواروں پر ایسے پوسٹر لگائے جارہے ہیں جن پر لکھا تھا ’’ہندو ہندوبھائی بھائی، ۲۰۲۶ء میں بی جے پی چاہئے۔ ‘‘ بی جے پی کی حکمت عملی یہ ہے کہ انتخابی سیاست کو اس قدر پولرائز کردیا جائے کہ ہندو اکثریت لاشعوری طور پر بی جے پی کو ووٹ دینے پر آمادہ ہوجائے۔ 
جب ایسا لگ رہا تھا کہ بی جے پی کی چالیں کامیاب ہورہی ہیں اور اسمبلی انتخابات تک اس کے پروپیگنڈہ کا خاطر خواہ اثر ہو جائیگا اور ہندوؤں کا ووٹ پوری طرح ترنمول کانگریس کے خلاف چلا جائیگا، ممتا نے ۳۰؍ اپریل کے دن دیگھا میں نہایت دھوم دھام سے جگن ناتھ مندر کا افتتاح کرکے لگتا ہے بی جے پی کے غبارے کی ہوا نکال دی ہے۔ ممتا نے جگن ناتھ دھام کے پران پرتشٹھان کے وقت خود مندر میں مہا یگنہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور آرتی بھی اتاری۔ 
 مندر کی تعمیر کے ذریعہ ممتا بنرجی سیاسی اور انتخابی لڑائی کو بی جے پی کے خیمے میں لے کر پہنچ گئی ہیں۔ بی جے پی سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکال کر ممتا کی ذات پر حملے کررہی تھی۔ ممتا کو مسلمانوں کا مسیحاثابت کرکے ہندوؤں کی نظروں سے گرارہی تھی۔ بی جے پی کے زہریلے پرچار کے جواب میں ممتاپچھلے کافی عرصے سے بار بار یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ وہ ایک برہمن زادی ہیں اور ہندو رسم و رواج اور پوجا پاٹھ سے بخوبی واقف ہیں۔ ممتا یہ اعلان بھی کرتی رہی ہیں کہ انہیں ہندو شاستروں کے بے شمار اشلوک زبانی یاد ہیں اور وہ اپنے گھر میں خود کالی کی پوجا کرتی ہیں۔ لیکن ممتا کی انتھک کوششوں کے باوجودبی جے پی کی انہیں ہندو مخالف ثابت کرنے کی سازش کامیاب ہونے لگی۔ 
جب وہ ہر طرح سے اپنا دفاع کرتے کرتے تھک گئیں اور پھر بھی بی جے پی کی مذموم مہم جاری رہی تو انہوں نے حکمت عملی بدلنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ادراک ہوگیا کہ مودی جی کے نیوانڈیا میں خود کو اچھا ہندو ثابت کرنے کے لئے صرف برہمن خاندان میں پیدا ہونا اور درگا پوجا اور کالی پوجا میں حصہ لینا ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے بی جے پی کے مندر کارڈ کو ہائی جیک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ دیگھا میں مندر کی تعمیراسی فیصلے کی تکمیل ہے۔ ممتا کو امید ہے کہ ان کے اس اقدام سے ہندو دھرم کی ٹھیکیداری کے بی جے پی کے دعوے کو ضرب کاری لگے گی۔ اگرمودی جی کے نام کے ساتھ رام مندر کا نام منسوب ہوچکا ہے تو ممتا بنرجی کے نام کے ساتھ جگن ناتھ دھام کا نام بھی منسوب ہوچکا ہے۔ بی جے پی کے خیمے میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اب اگرشوبھیندو ادھیکاری اور ان کے رفقا بنگال کے عوام کویہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ ممتا ہندو ورودھی ہیں تو عوام ضرور یہ سوچیں گے کہ جس خاتون نے جگن ناتھ دھام جیسی عبادتگاہ کی تعمیر کروائی ہو وہ بھلا ہندو مخالف کیسے ہوسکتی ہیں۔ 
 میرا خیال ہے کہ اگلے سال اسمبلی کے انتخابی مہم کے دوران جگن ناتھ مندر ترنمول کانگریس کیلئے اسی طرح سے ترپ کا پتہ ثابت ہوگا جیسے رام مندر پچھلے لوک سبھا انتخابات میں مودی جی کی بی جے پی کیلئے ہوا تھا۔ رام مندر کی تعمیر کے بعد سنگھ پریوار کی کئی تنظیموں نے ایودھیا مندر کا فوٹو اور پرشاد بنگال کے گھر گھر میں تقسیم کیا تھا۔ ممتا حکومت کی جانب سے دیگھا کے نوتعمیر شدہ مندر کا فوٹو اور پرشاد بھی گھر گھر میں بانٹنے کا پلان ہے۔ زیرک سیاستداں ممتا بنرجی سمجھ گئی ہیں کہ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسی کی بچھائی ہوئی بساط پر کھیلا جائے اور اسے اسی کے گیم میں مات دی جائے۔ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں غالباً پہلی بار کسی ریاستی حکومت نے سرکاری پیسے خرچ کرکے مندر کی تعمیرمیں براہ راست حصہ لیا ہو۔ مندر، مسجد یا کسی بھی مذہبی عبادت گاہ کی تعمیر کسی سیکولر حکومت کا کام نہیں ہے۔ در حقیقت ملک کے آئین میں سرکاری خرچ پر کسی مذہبی عبادت گاہ کی تعمیر کی ممانعت کی گئی ہے۔ اسی لئے کسی ممکنہ تنازعہ یاآئینی پیچیدگی سے بچنے کی خاطر سرکاری دستاویزات میں دیگھا کے مندر کو’’جگن ناتھ دھام سنسکرتی کیندر‘‘کا لقب دیا گیا ہے۔ 
 پس نوشت: جگن ناتھ مندر کی تعمیر سے ممتا بنرجی کو ایک غیر متوقع فائدہ بھی ہوا ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور سابق ریاستی صدر دلیپ گھوش نے ان کی دعوت پر مندر کے افتتاح میں شرکت کی جس کی وجہ سے بی جے پی کے اندر خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بنگال بی جے پی میں اس گروہی چپقلش کا فائدہ الیکشن میں کس پارٹی کو ہوگا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK