Inquilab Logo

اخترالایمان: آباد خرابے کا باسی، ا یک ضدی لڑکا - ۲

Updated: March 22, 2020, 4:51 PM IST | Muzaffar Hussain Sayed

اخترالایمان کی شخصیت ایک نادر مجموعۂ اضداد کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ نہایت عمدہ نثر لکھنے پر قادر تھے مگر انہوں نے نثر کو ادبی اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا، سوائے ایک عدد سوانح کے جو خود ان کے بیان کے بموجب بالاتفاق وجود پزیر ہوگئی

Akhtarul Iman - Pic : Rekhta
اخترالایمان ۔ تصویر : ریختا

اخترالایمان کی شخصیت ایک نادر مجموعۂ اضداد کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ نہایت عمدہ نثر لکھنے پر قادر تھے مگر انہوں  نے نثر کو ادبی اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا، سوائے ایک عدد سوانح کے جو خود ان کے بیان کے بموجب بالاتفاق وجود پزیر ہوگئی۔ وہ اعلیٰ و ارفع سخن ور تھے، اپنی مثال آپ تھے مگر جہانِ تصاویر سے طول طویل وابستگی اور اس میدان میں پیشہ ورانہ کامیابی کے باوصف (ابتدائی دور کی ایک فلم ’غلامی‘ کے علاوہ) انہوں  نے کبھی فلمی نغمے نہیں لکھے، اتفاقاً بھی نہیں۔ کتنی عجیب بات تھی کہ بہترین مکالمہ نگار و منظر نامہ نگار ہونے کے باوجود انہوں نے نہ افسانہ نگاری کی نہ ناول نگاری، بلکہ ابتدائی زندگی کے درجن بھر افسانوں کو ایک غلطی قرار دے کر ان سے پہلو تہی کر لی۔ تاہم ان کی دستیاب نثری عبارات مثلاً ان کے مجموعوں کے خود نوشت دیباچے اور کم از کم ایک ڈرامہ شاہد ہیں کہ اگر وہ تخلیقی نثر کو اپناتے تو صف ِ اوّل کے افسانہ نگار و ناول نگار ہوتے۔ اسی طرح اگر فلموں میں نغمہ نگاری کرتے تو مجروحؔ اور ساحرؔ کی طرح اس میدان کے بھی کامیاب شہسوار ثابت ہوتے مگر وہ اخترالایمان تھے، لیک سے ہٹ کر کام کرتے تھے اور اپنے فطری میلان کے برعکس کوئی کام نہیں کرتے تھے، خواہ کتنا ہی نفع بخش ہو۔ سود و زیاں کی پروا کسے تھی۔
 اخترالایمان کی پیدائش ایک ایسے خانوادے میں ہوئی جس کے تمام افراد کئی پیڑھیوں سے خدمت ِ دین کے لئے وقف تھے۔ ان کے والدِ محترم نہ صرف حافظ ِ قرآن کریم، مولوی اور عالم تھے بلکہ امامِ صلوٰۃ بھی تھے مگر انہیں فطرتاً سکونت سے زیادہ ہجرت اور قیام سے زیادہ سفر کا شوق تھا۔ جلد جلد ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل ہونا اور اسفار کی صعوبت برداشت کرنا ان کا پسندیدہ شغل تھا۔ کسی ایک مسجد یا مکتب میں ان کا دل نہیں جمتا تھا اور جیسے ہی کہیں سے دل بھر جاتا وہ مسجد ہی نہیں بستی بھی بدل دیتے تھے۔ ان کا دوسرا امتیاز یہ تھا کہ وہ شہروں سے زیادہ دیہات کو پسند کرتے تھے اور اسی سبب انہوں  نے برطانوی ہندوستان کے متحدہ پنجاب کے طول و عرض میں موضع موضع اور قریہ قریہ بہ طور امام و مدرّس اپنی خدمات پیش کیں، ماسوا ایک معمولی سی سرکاری ملازمت کے اور وہ بھی چند روزہ۔ ان تمام کوائف کا ذکر اخترصاحب نے اپنی خود نوشت سوانح، ’اس آباد خرابے میں‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔
 ابتدا میں اخترالایمان کو دیہات کی اوبڑ کھابڑ زندگی اورکچی پگڈنڈیوں پر لڑ کھڑاتی چال سے مواضع نوردی اور دشت پیمائی بہت پسند تھی۔ یہ سب انھیں بڑا رومانی لگتا تھا۔ اسی رومانی ماحول اور فطرت کی گود میں ان کے ابتدائی عشق پروان چڑھے اور نقطۂ عروج سے بہت پہلے زوال پزیر ہوگئے لیکن زوال پزیر کہنا شاید اس لئے درست نہیں کہ ان نا مکمل (ناکام نہیں) عشقیہ وارداتوں کی خلش ان کے دل میں ہمیشہ رہی۔ اپنی محبوباؤں کو انہوں  نے بارہا یاد کیا اور آخر تک یاد رکھا، کسی کا ذکر کسی مکتوب میں کیا ، کسی کا اپنی سوانح میں اور کسی کی یا د میں نظم لکھی۔ یہاں یہ اشارہ کرنا بے محل نہ ہوگا کہ اختر صاحب عشق کے میدان میں بھلے ہی ناآسودہ رہے ہوں مگر ان کی شادی کامیاب رہی اور اس شادی کی اساس عشق پر نہیں بلکہ پسند پر تھی۔ منطقی غور و خوض کے بعد ایک سوچا سمجھا فیصلہ۔ 
 غالباً اختر صاحب کو کم عمری میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا مقصد عین دیہی فضا میں حاصل نہیں ہوسکتا اور ان کی ترقی کے لئے وسیع میدان درکار ہے۔ اگر چہ وہ اس بات سے انکار کرتے تھے کہ ان کے یہاں کسی قسم کی منصوبہ بندی تھی۔ 
 اخترصاحب کے یہاں منصوبہ بندی ہو یا نہ ہو، ایک عزمِ محکم ضرور تھا، اس لئے، انہوں  نے کم سِنی میں ہی اپنے سخت گیر والد کے خلاف بغاوت کردی۔  والدین نے ان کی سرکشی سے عاجز آکر انہیں دہلی پہنچا دیا اور ان کے عمِ محترم کے سپرد کردیا۔ ان کے عمِ محترم بھی پیشے سے استاد تھے، چند روزہ خاطر تواضع  اور ناز و نعم کے بعد انہوں  نے ایک انقلابی فیصلہ کیا اور جیتے جاگتے والدین کے ہوتے ہوئے اخترالایمان کو ایک یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ حسنِ اتفاق کہ اس یتیم خانہ (موید الاسلام) میں پرورش کے علاوہ بچّوں کی تعلیم و تربیت کا بھی نظم تھا۔ خود اختر صاحب کے بقول اس قلعے نما عمارت سے ان کی ترقی کے راستے کھلے۔ درجہ ہشتم تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں  نے فتح پوری مسلم اسکول کے دروازے پر دستک دی، داخلہ ہوا اور درجہ یازدہم تک تعلیم بھی مکمل ہوگئی۔ اب ان کا اگلا پڑاؤ دہلی کالج تھا، تمام تر نامساعد حالات اور اہل ِ خانہ یا اعزّہ کی جانب سے کسی بھی قسم کی مالی، مادّی امداد یا اخلاقی حوصلہ افزائی کے فقدان کے باوجود انہوں  نے تعلیم جاری رکھی اور اچھے نمبروں سے بی اے کر لیا۔ 
 اب اگلی منزل دانش گاہِ سید تھی۔ خواب اردو میں ایم  اے کرنے کا تھا۔ داخلہ بھی ہوگیا، مہربان اُستاد بھی مل گئے اور وہ کہ جن کے نام نامی رشید احمد صدیقی اور آلِ احمد سرور تھے۔ ہر دو حضرات نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی، برومندی کی بشارت دی بلکہ ہر طرح کی سرپرستی، تعاون اور مدد میں بھی کوئی کسر نہ رکھی مگر اخترالایمان کے اندرون میں ہر دم فعال ضدی لڑکے کو یہ خوشگوار فضا راس نہ آئی۔ انہوں  نے پھر ایک انقلابی فیصلہ کیا اور علی گڑھ واپسی کے سفر کے دوران اچانک سفر کا رُخ تبدیل کر لیا۔ استادِ محترم آل احمد سرور کو حیران و ششدر چھوڑ کر پونے کی راہ لی۔ اگرچہ درمیان میں وقتاً فوقتاً وہ ریڈیو (دہلی) میں ملازمت کر چکے تھے، جہاں ان کے رفقاے کار منٹو، کرشن چندر، میراؔ جی اور ن م راشدجیسے نادر ِ روزگار ادب ساز تھے مگر انھیں یہ شغل بھی راس نہیں آیا تھا۔ اسی دوران کسی موڑ پر انہوں  نے ساغر نظامی کے ماہانہ ’ایشیا‘ (میرٹھ) کی ادارت بھی سنبھالی، مگر یہ سب ان کے خوابوں سے یکسر مختلف تھا۔
 اُن کے نظریئے کے مطابق تقدیر نے ان کی انگلی پکڑ کر انہیں منزل کی طرف دھکّا دے دیا اور وہ پونے پہنچ گئے جہاں ان کی رسائی مشہور و معروف فلم ساز ڈبلیو  زیڈ  احمد تک ہوگئی اور پھر زندگی کی سمت، رُخ اور انداز سب کچھ بدل گیا۔ وہ پونے سے بمبئی آگئے۔ اب اخترالایمان تھے اور جہانِ سیمیں تھا۔ روزی روٹی کا وسیلہ فلمی کہانیاں، منظر نامے اورمکالمے بن گئے۔ ہزار دقتوں سے گزر کر آسودگی میسّر آئی جو بالآخر تعیش میں بدل گئی۔ دوسری طرف شاعری جاری رہی، جوان ہوتی رہی، فلمی ماحول سے پرے وہ ایک اچھے اور کامیاب شاعر کی حیثیت سے مستحکم ہوتے چلے گئے۔
 ایک کامیاب و کامران زندگی کرنے کے بعد ان کا انجام بھی ان کے شایانِ شان تھا۔ گوکہ آخر میں انہیں ایسے موذی عوارض لاحق ہوگئے تھے جنھوں نے ان کی زندگی ضیق کردی تھی مگر وہ پا مردی سے ان کا مقابلہ کرتے رہے اور مسکراتے رہے۔ اس دوران ان کا فلمی سفر بھلے ہی رُک گیا ہو مگر علمی سفر جاری رہا ۔ پانچ برس تک مختلف امراض کے ساتھ مسلسل پنجہ آزمائی کرنے کے بعد ایک روز ماندگی غالب آئی اور ذرا آرام کرنے کیلئے بستر پر دراز ہوئے تو پیغامِ رخصت آگیا، پھر جو اجل آئی تو ایسی خاموشی سے دبے پاؤں کہ اس کی چاپ بھی کسی نے نہ  سنی، وہ اِس جہان سے اُس جہان کی جانب کوچ کر گئے۔
 بیگم سلطانہ ایمان راوی ہیں کہ ایک مرتبہ اختر صاحب کے کاغذات کی پڑتال کے دوران ایک مختصر تحریر ملی جو شاید کبھی کہیں شائع نہیں ہوئی تھی، وہ یوں تھی: ’’ اخترالایمان ایک واقعہ ہے جو خود بہ خود وجود میں آگیا، اجتماعی و انفرادی شعورکے ساتھ۔‘‘
 حق یہ ہے کہ یہ فقرے ان کی زندگی اور موت دونوں پر صادق ہیں۔ جس طرح وہ از خود وجود پزیر ہوگئے تھے اسی طرح خود کار طریقے سے منظر ِعالم سے غائب ہوکر ہمیشہ کے لئے غیر موجود بھی ہوگئے۔ مگر جہانِ علم و ادب میں وہ آج بھی موجود ہیں بلکہ ہمہ تن جلوہ گر ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، اس لئے کہ کسی عظیم قلم کار کی موت اس کے جسم کی موت ہوسکتی ہے اس کے فن کی نہیں۔ اخترالایمان کے باطن میں کار فرما ایک ضدّی لڑکا ان کے ساتھ بھلے ہی دنیائے شہود سے غائب ہوگیا ہو مگر وہ زبان ِ حال سے یہی کہہ رہا ہے کہ ’’دیکھو،  اخترالایمان مَیں ہی ہوں اور میں زندہ ہوں۔(مضمون طویل ہے اس لئے چند حصے ہی شائع کئے جاسکے)۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK