عید الفطر کے دن جو صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے یہ واجب صدقہ ہے۔ اسے حرف عام میں فطرہ بھی کہا جاتا ہے۔ حدیث ِ مبارکہ میں اس کے دو مقاصد یا حکمتیں ذکر کی گئی ہیں
EPAPER
Updated: April 19, 2023, 10:46 AM IST | Maulana Sayyid Sulaiman Yousuf Banuri | Mumbai
عید الفطر کے دن جو صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے یہ واجب صدقہ ہے۔ اسے حرف عام میں فطرہ بھی کہا جاتا ہے۔ حدیث ِ مبارکہ میں اس کے دو مقاصد یا حکمتیں ذکر کی گئی ہیں
عید الفطر کے دن جو صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے یہ واجب صدقہ ہے۔ اسے حرف عام میں فطرہ بھی کہا جاتا ہے۔ حدیث ِ مبارکہ میں اس کے دو مقاصد یا حکمتیں ذکر کی گئی ہیں
(۱) یہ روزوں میں ہونے والی خامیوں اور کوتاہیوں سے پاکی اور
(۲)مساکین کے کھانے پینے کے انتظام اور بندوبست کا ذریعہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے روزوں میں ہونے والی لغو (یعنی فضول اور لایعنی) اور فحش باتوں کے اثرات سے روزوں کو پاک کرنے کیلئے اور مسکینوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کیلئے صدقۂ فطر واجب قرار دیا۔ (سنن ابو داؤد)
یعنی مسلمانوں کے جشن و مسرت کے اس دن (عید الفطر) میں صدقہ فطر کے ذریعے محتاجوں اور مسکینوں کی ضرورتیں پوری کرکے انہیں بھی خوشی میں شریک کیا جائے اور دوسرا یہ کہ زبان کی بے احتیاطی اور بے باکی سے روزے پر جو بُرے اثرات پڑے ہونگے، ان کی طرف سے کفارہ بھی ادا ہوجائے۔
صدقہ فطر کس پر واجب ہے ؟
جو مسلمان (مرد یا عورت ) اتنا مالدار ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا اس پر زکوٰۃ تو واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہیں، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقے کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔
مالدار آدمی کیلئے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مالدار ہو تو اس کے مال سے ادا کرسکتا ہے اور اگر مالدار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مالدار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا والد پر واجب نہیں، مگر والد اپنی خوشی و رضا سے ان کی اجازت سے ان کی طرف سے ادا کردے تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا، جبکہ مالدار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے، نہ والدین کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔
صدقہ ٔ فطر کا وقت
صدقۂ فطر، عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتا ہے) اسی وقت واجب ہوتا ہے، البتہ صدقۂ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے، عیدالفطر کے دن عید کی نماز سے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کردینا چاہئے۔ یہ بہت زیادہ فضیلت کی بات ہے۔ اگر نمازِ عید سے پہلے ادا نہیں کیا تو بعد میں ادا کرنا ہوگا، لیکن اس سے ثواب میں کمی ہوگی، اور عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا خلافِ سنت اور مکروہ ہے، لیکن پھر بھی ادا کرنا ضروری ہوگا۔
عید کے دن سے پہلے صدقہ فطر کی ادائیگی کی صورت میں فقہاءِ کرام کے دو طرح کے اقوال کتبِ فقہ میں ملتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ صدقۂ فطر رمضان المبارک کے مہینے میں کسی بھی دن دینا جائز ہے؛ البتہ رمضان المبارک سے قبل ادا کرنا درست نہ ہوگا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ صدقہ فطر کا حکم بھی زکوٰۃ کی طرح ہے یعنی چاہے رمضان میں ادا کیا جائے یا رمضان سے بھی پہلے ادا کیا جائے دونوں صورتوں میں صدقہ فطر ادا ہوجائے گا۔
عبادات میں چونکہ احتیاط کو پیشِ نظر رکھنا شریعت میں مطلوب ہے؛ اسلئے پہلے والے قول پر عمل کرنا چاہئے، چنانچہ صدقہ فطر عید سے پہلے رمضان میں جس وقت چاہے ادا کرلیا جائے۔
صدقہ فطر کے مستحق
شرعی اعتبار سے صدقہ فطر اور زکوٰۃ کے مستحق وہ افراد ہیں جو نہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت) تک پہنچے۔ ایسے افراد کو زکوٰۃ اور صدقہ فطر دیاجاسکتا ہے ۔
صدقۂ فطر کی نیت
صدقۂ فطر عبادت ہے، جس کی ادائیگی کے لئے ادا کرنے سے قبل، یا ادا کرتے وقت نیت شرعاً ضروری ہوتی ہے۔ لہٰذا، صورتِ مسئولہ میں صدقۂ فطر کی نیت کے بغیر کسی کی مدد کرنے کے بعد اب صدقۂ فطر کی نیت کرلی گئی تو اس سے صدقہ فطر ادا نہ ہوگا، بلکہ باقاعدہ نیت کے ساتھ دینا لازم ہوگا، البتہ اگر مستحق شخص کے پاس بعینہ وہی رقم موجود ہو، جو مذکورہ شخص نے دی تھی اس صورت میں اگر وہ صدقہ فطر کی نیت کرتا ہے تو اس صورت میں اس کی نیت شرعاً معتبر ہوگی، اور صدقہ فطر ادا ہوجائے گا۔