غریبوں کو ہوائی جہاز پر بٹھانے کاخواب دکھانے والی حکومت، ۱۰؍ سال سے زائد عرصے میں ٹرینوں کے سفر کو بھی آسان نہیں بنا پائی ہے۔
EPAPER
Updated: May 25, 2025, 2:33 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
غریبوں کو ہوائی جہاز پر بٹھانے کاخواب دکھانے والی حکومت، ۱۰؍ سال سے زائد عرصے میں ٹرینوں کے سفر کو بھی آسان نہیں بنا پائی ہے۔
ہوائی چپل پہن کر گھومنے والوں کو ہوائی جہاز میں دیکھنے کی خواہش کا بارہا اظہار کرنے والے وزیر اعظم کی یہ خواہش اب تک صرف خواہش ہی ہے جبکہ انھیں اقتدار سنبھالے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ مدت گزر چکی ہے۔ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ سے ملک کے وزیر اعظم بننے کے سفر میں انھوں نے عوام کا دل جیتنے کیلئے جو بھی وعدے اور دعوے کئے تھے، ان میں سے بیشتر کی حیثیت اب بھی ان خوابوں جیسی ہے جو ہمیشہ تعبیر سے محروم ہوا کرتے ہیں۔ غریبوں کو ہوائی جہاز پر بٹھانے کاخواب دیکھنے اور دکھانے والے وزیرا عظم نے حکومت کی دو میعاد مکمل کرنے کے بعد اب اس تیسرے دور میں بھی ان مسائل کی جانب نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں ہے جو عوام کی بنیادی ضرورتوں اور ان کے طرز حیات کا معیار طے کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت ملک گیر سطح پر تعلیم، صحت، مہنگائی اور روزگار جیسے مسائل دن بہ دن ایسی پیچیدہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ جس تناسب میں ان مسائل کی پیچیدگی میں اضافہ ہوا ہے اس تناسب میں نہ تو عوام کی کمائی بڑھی ہے، نہ ہی حکومت کی جانب سے ان بنیادی وسائل کی فراہمی میں ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں ۔
ان دنوں ملک کی معیشت کا حال یہ ہے کہ متوسط طبقہ کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے اور آبادی کا بڑا حصہ افلاس زدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی تشویش ناک صورتحال میں مبتلا عوام کو زبانی طور پر ہوائی جہاز میں بٹھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن جب اس زبانی دعوے کو حقیقی شکل دینے کی بات آئے تو اصل موضوع سے ہٹ کر ان عارضی اور اضافی باتوں کی تکرار کرنا ارباب اقتدار کا شیوہ ہو گیا ہے جن باتوں سے نہ تو عوام کے طرز معاشرت کا گراف اونچا ہو سکتا ہے، نہ ہی ملک و معاشرہ کی ترقی و خوشحالی کے اسباب پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہوائی جہاز میں غریبوں کو سفر کروانے کا عزم ظاہر کرنے والی حکومت اگر ریل سفر کی مشکلات کو ہی حل کرنے پر توجہ دے تو نقل و حمل کے کئی مسائل کا تصفیہ ہو سکتا ہے جن کا عوام کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ریل سفر کو آسان بنانے کے بجائے اسے پیچیدہ بنانے اور مسافروں کو ملنے والی سہولیات کا دائرہ محدود کرنے یا انھیں حذف کرنے کا رجحان ابتدا ہی سے موجودہ حکومت کی حکمت عملی رہی ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے دوسرے دورمیں ۲۰۲۲ء۔ ۲۳ء میں ریل کرائے میں ۱۰۷؍فیصد کا اضافہ کیا تھا۔ اس فیصلے پر اپوزیشن کے اعتراض کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ اس محکمے کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کا جو ہدف حکومت نے طے کیا ہے اس کے پیش نظر کرائے میں یہ اضافہ بہت معمولی ہے۔ اگر حکومت کی اس دلیل کو تسلیم کر لیا جائے تب بھی یہ بنیادی سوال برقرار رہتا ہے کہ سماج کے کس طبقے کے تناظر میں دلیل پیش کی جارہی ہے؟ ریل سے سفر کرنے والوں کی اکثریت غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے اور ان طبقات کیلئے یہ اضافہ اس مالی گرانی کی حیثیت رکھتا ہے جو ان کی کمائی اور اخراجات کے تناسب کو بگاڑ دیتا ہے۔ مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے کے نام پر صرف کرائے میں ہی اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ پلیٹ فارم ٹکٹ کی قیمت اور ٹکٹ منسوخی کی شرح میں تقریباً دُگنا اضافہ کرکےکون سی سہولت فراہم کی گئی ہے، یہ سمجھنا بہت مشکل ہے۔
کورونا کی وبا کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں میں ’آپدا میں اوسر‘ تلاش کرنے والی سرکار نے اس رجحان کا مظاہرہ اس محکمے میں کچھ یو ں کیا کہ معمر مسافروں کو کرائے میں ملنے والی رعایت ختم کر دی۔ ایک آر ٹی آئی اطلاع کے مطابق ۲۰۲۰ء سے ۲۰۲۵ء کے دوران ریلوے نے یہ رعایت ختم کرکے تقریباً ۹؍ ہزار کروڑ روپے کمائے۔ اب اس سال سے اس رعایت کو بعض شرائط کے ساتھ دوبار ہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان شرائط کے سبب مسافروں کی بڑی تعداد اب بھی اس رعایت سے محروم رہ سکتی ہے۔ موجودہ حکومت نے ریلوے کی تجدید کاری کے سلسلے میں وندے بھارت پروجیکٹ کی شروعات بڑے اہتمام سے کی تھی لیکن اس پروجیکٹ کے تحت چلنے والی ٹرینوں میں سفر کرنا ہر کسی کیلئے ممکن نہیں ہے۔ ان ٹرینوں کا کرایہ ۲؍ تا ۴؍گنا زیادہ ہے جو شتابدی اور راجدھانی جیسی مہنگی ٹرینوں سے بھی زیادہ ہے۔ غریب عوام کو ہوائی جہاز میں بٹھانے کا خواب دیکھنے والوں سے بجا طور پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ قلیل سی رقم میں گزر بسر کرنے والے لوگ جب ایسی مہنگی ٹرینوں میں سفر کرنے سے قاصر ہیں تو وہ ہوائی جہاز میں کیسے سفر کر یں گے؟
ریل مسافروں کو سہولت فراہم کرنے کے نام پر اب تک جو کچھ ہوا ہے اس میں مختلف ریاستوں کے چنندہ اسٹیشنوں کی تجدید کاری کچھ اس طور سے کی گئی ہے کہ انھیں ’ورلڈ کلاس‘ بنایا جا سکے۔ امرت بھارت پروجیکٹ کے تحت ملک گیر سطح پر پانچ سو سے زیادہ اسٹیشنوں کی تجدید کاری کا ہدف ۲۰۲۳ء میں طے کیا گیا تھا اور اس پروجیکٹ کے تحت اسٹیشنوں کی تجدید کاری پر ۲۴؍ہزار کروڑ روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اس پروجیکٹ میں شامل کچھ اسٹیشنوں کی تجدید کاری کا کام ہورا ہو چکا ہے اور اس تکمیل کے بعد اسٹیشنوں کا جو کایا کلپ ہوا ہے اس سے غریب مسافروں کے مستفید ہونے کی بات کرنا درحقیقت غربت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ ’ورلڈ کلاس‘ کے نام پر اسٹیشنوں کی تزئین کاری اور جدید تکنیکی سہولیات سے آراستہ کرنے کے عمل میں اس کا خیال ہی نہیں رکھا گیا کہ جس طبقے کے پاس ریل سے سفر کے علاوہ دوسرا متبادل نہیں ہے وہ کیوں کر ایسی پر تکلف اور مہنگی سہولیات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟اس سہولیات سے بیشتر وہی لوگ فیض اٹھائیں گے جن کیلئے ہوائی جہاز اور ریل کے سفر میں سوائے گزران وقت کے کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ریل کا سفر زندگی کی ضرورت کے طور پر نہیں بلکہ سیر و تفریح سے لطف اندوز ہونے کیلئے کرتی ہے۔
دوسری جانب وہ طبقہ ہے جو ضروریات زندگی کے تحت اپنے اخراجات میں سے پس انداز کر کے تین چار ماہ قبل سفر کا منصوبہ بناتا ہے اور مختلف وجوہ کی بنا پر جب یہ منصوبہ تکمیل کو نہیں پہنچتا تو صرف ایک سفر ہی منسوخ نہیں ہوتا بلکہ اسے کئی طرح کی الجھنوں اور کرب میں مبتلا کر دیتی ہے۔
عام آدمی کو درپیش نقل و حمل کے مسائل کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی وزارت ریل اب تک ان مسائل کا حل نہیں تلا ش کر سکی ہے جو مخصوص موقعوں پر ریل مسافروں کو پریشان کرتے ہیں۔ ان مسائل میں ایک بڑا مسئلہ تہواروں، سماجی تقریبات اور چھٹیوں کے سیزن میں ٹکٹ کا دستیاب نہ ہونا ہے۔ یہ مسئلہ ہر سال مسافروں کو پریشان کرتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ایسے موقعوں پر سارے ٹکٹ آن کے آن اس طرح فروخت ہو جاتے ہیں کہ ذرا سی تاخیر سے ٹکٹ کھڑکی پر پہنچنے والے افراد ٹکٹ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ٹکٹ کی یہ عدم دستیابی اس بدعنوانی کے سبب ہے جس نے زیریں لہر کی صورت پورے محکمے کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ سفر کو آسان بنانے کی غرض سے محکمے کی جانب سے مقرر کئے گئے ایجنٹوں کے علاوہ خاصی بڑی تعداد ایسے جعلی ایجنٹوں کی بھی ہے جوان کا بے تحاشا مالی استحصال کرتے ہیں۔ گزشتہ سال تقریباً ۵؍ہزار ایجنٹوں کو پکڑا گیا تھا۔
عام آدمی کیلئے ریل سفر کو آسان بنانا وزارت ریل کا واجبی فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی میں کسی بھی طرح کی کوتاہی یہ ثابت کرتی ہے کہ اس وزارت کے ذمہ داران صرف زبانی دعوے ہی کرتے ہیں اور صورتحال کو اطمینان بخش بنانے میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں کی تجدید کاری اور انھیں ’ورلڈ کلاس‘ بنانے کا دعوی ٰ کرنے والوں کو یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا عوام مالی اعتبار سے اس قدر متمول ہیں کہ ایسی ’ورلڈ کلاس‘ سہولیات سے استفادہ کر سکیں گے؟ غریبوں کو سہولیات فراہم کرنے اور ان کو درپیش نقل و حمل کے مسائل کو حل کرنے کیلئے زمینی سطح پر اصلاحی اقدامات درکار ہیں ورنہ یوں تو انھیں ہر روز ہوائی جہاز کے سفر کا خواب دکھانے میں نہ تو کسی منصوبہ بند حکمت عملی کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی سرمایہ درکار ہے۔