مین اسٹریم میڈیا اب بھی ایلون مسک کی آٹومیٹک اور ڈرائیور لیس کاروں کی تشہیر میں مصروف رہتا ہے مگر جنوبی کوریا کی بوسان نامی بندرگاہ مکمل طور پر اے آئی سے چلتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی عمدہ مثال ہے کہ کسی طوفان کی آمد سے قبل یہاں کا اے آئی تمام کلائنٹس کو جہاز کے لنگر انداز ہونے نہ ہونے کی پوری معلومات ازخود روانہ کردیتا ہے۔ ساتھ ہی نیا شیڈول بھی جاری کرتا ہے۔ یہ سب کچھ چند سیکنڈز میں ہوجاتا ہے۔
بوسان، جنوبی کوریا بندرگاہ کا ایک منظر جہاں سالانہ ۲۰؍ ملین کنٹینرز کا انتظام سنبھالا جاتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔
اس مضمون کے مطالعہ سے قبل یو ٹیوب پر ’’اِٹرنٹی کورین‘‘ (Eternity Korean ) پوپ گروپ چینل کھولئے۔ اسے `IIternity` بینڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس چینل پر موجود عجیب وغریب نام والے DTDTGMGN ویڈیو پر کلک کیجئے۔ اسکرین پر دو خواتین گلوکارہ نمودار ہوتی ہیں جو کالج کی طالبات لگ رہی ہیں۔ گلوکاری اور رقص کے درمیان اُن کے ملبوسات تیزی سے بدلتے ہیں۔ ان کے چہروں کے تاثرات آپ کو ویڈیو دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس ویڈیو پر ۶؍ ملین سے زائد کمنٹس ہیں۔ اس چینل پر درجنوں ویڈیوز ہیں۔ بینڈ کی تقریباً تمام خواتین گلوکار دنیا کے کئی حصوں میں مقبول ہیں۔ بینڈ کی ایک رکن، زائی اِن، گلوکارہ اور رقاصہ دونوں ہیں۔ وہ ایک فیشن ڈیزائنر بھی ہیں۔ یہ بینڈ اسٹیج پر پرفارم نہیں کرتا، اسلئے آپ ان کے آٹوگراف لے سکتے ہیں نہ ان کے ساتھ تصویریں کھنچوا سکتے ہیں۔ آپ انہیں صرف ویڈیوز میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں نظر آنے والی لڑکیاں اے آئی (آر ٹی فیشیل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت) کی تخلیق ہیں۔ یہ بینڈ اے آئی نے بنایا ہے۔ اس میں نظر آنے والی لڑکیاں بظاہر انسان ہیں مگر درحقیقت وہ روبوٹ ہیں۔ یہ حالیہ ایجاد نہیں ہے بلکہ بینڈ ۵؍ سال پرانا ہے۔
جہاں دنیا چین اور امریکہ میں اے آئی کے بارے میں بات کر رہی ہے، جنوبی کوریا ایک نئے قسم کا اے آئی بنا رہا ہے۔ کوریائی بندرگاہ بوسان دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ہر سال ۲۰؍ ملین سے زائد کنٹینرز اپنی اپنی منزلوں کو روانہ کئے جاتے ہیں۔ بہت زیادہ ٹریفک کے باوجود اسے’’زیرو ڈیلے پورٹ‘‘ (ایسی بندرگاہ جہاں کبھی وقت ضائع نہیں ہوتا) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے بیشتر امور اے آئی کی مدد سے انجام دیئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی طوفان بوسان کی طرف بڑھتا ہے تو اے آئی نظام اس کی خبر اندرون ملک لاجسٹکس مراکز اور کلائنٹس کو بھیج دیتا ہے۔ یہی نہیں دن اور تاریخ وغیرہ بھی از خود شیڈول کرتا ہے۔ یہ سارا کام سیکنڈز میں ہوجاتا ہے۔ میڈیا ہمہ وقت ایلون مسک کی بغیر ڈرائیور والی آٹومیٹک کاروں کے بارے میں بات کرتا ہے مگر بوسان میں خودکار ٹرک اور کرینز ہیں جو لوڈنگ کے بہت سے کاموں کو سنبھالتے ہیں۔
راقم نے حال ہی میں شنگھائی یونیورسٹی میں کافی کی قطار میں سیول نیشنل یونیورسٹی کے بیونگ تاک ژانگ سے ملاقات کی۔ وہ ایک غیر مہذب پروفیسر معلوم ہورہے تھے لیکن ممتاز اے آئی سائنسداں ثابت ہوئے۔ انہوں نے ایک ایسا روبوٹ بنایا ہے جو ماں کے کاموں کو انجام دے سکتا ہے۔ یہ روبوٹ بچے کو جگا سکتا ہے اور اسے اسکول کیلئے تیار کر سکتا ہے۔ متعدد ملازمت پیشہ کوریائی مائیں اس روبوٹ سے بہت خوش ہیں۔ لیکن بیونگ اس کامیابی سے مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی آرزو مصنوعی جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) بنانا ہے جہاں اے آئی اور انسانوں میں فرق بالکل نہ رہ جائے۔ وہ اٹرنٹی بینڈ کے گلوکاروں کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں، یہ تو پلس نامی کمپنی کی اختراع ہیں۔ ان کے اعمال اور ردعمل پروگرام شدہ ہیں۔ وہ ایسا روبوٹ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو اپنے اردگرد کے ماحول سے معلومات جذب کر سکتا ہے، سوچ سکتا ہے اور عمل و ردعمل کا اظہار کر سکتا ہے۔
اے جی آئی کے متعلق بات چیت میں او پن اے آئی اور گوگل جیسی امریکی کمپنیوں کا ذکر زیادہ ہوتا ہے لیکن جنوبی کوریا اس سمت میں تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ اگر جنوبی کوریا کے عوام محتاط نہیں ہیں تو کیا ہوا، وہاں کے عوامی لیڈر اے جی آئی کے خطرات سے آگاہ ہیں۔ بیونگ کوریا کے سائنسدانوں اور لیڈروں کے ایک گروپ کے ساتھ تھے۔ ان میں سے ایک کم وون سو تھے۔ وہ جنوبی کوریا کے انتہائی معزز سفارت کار ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ جدید اے آئی سسٹمز سے لاحق غیر ارادی خطرات کے بارے میں بہت فکر مند ہیں جو انسانوں سے زیادہ ہوشیار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ جوہری ہتھیاروں یا موسمی تبدیلیوں کی طرح انسان کے وجود کو بحران کا باعث بنا سکتے ہیں۔
’’چوئی کیونگ جون‘‘ اس بات کو یقینی بنانے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں کہ اے آئی قانون کی حدود میں برتاؤ کرے۔ وہ گچون یونیورسٹی میں سینٹر فار اے آئی پالیسی کے سربراہ ہیں۔ وہ جنوبی کوریا اسوسی ایشن فار آرٹی فیشل انٹیلی جنس اینڈ لاء (کے اے اے آئی ایل) کے صدر ہیں۔ وہ اے آئی قانون پر جنوبی کوریا میں ہونے والی بحث کی قیادت کرنے میں بھی شامل ہے۔ یہ ان کی کوششوں کی وجہ سے ہے کہ جنوبی کوریا کے نئے متعارف کردہ بنیادی اے آئی ایکٹ میں ایک مشہور آرٹیکل ۳۵؍ ہے جو اے جی آئی پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ یہ قانون اے جی آئی کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس کی درست تعریف اب تک بیان نہیں کی گئی ہے۔ اس کے بجائے، اس میں ’’اعلیٰ اثرات والے نظام‘‘ کا ذکر ہے۔ چوئی جون، جنوبی کوریا کے انتخابات کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ نئی حکومت کے قائم ہوجانے پر مجھے یقین ہے کہ وہ ان کے کاموں کی حوصلہ افزائی کرے گی کیونکہ وہ اس طرح کے جدید نظاموں سے ہونے والے خطرات کی وضاحت میں ممکنہ حد تک درست ہیں۔ چوئی جیسے قانونی ماہرین کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے کیونکہ تمام جماعتوں کے سیاستداں اے آئی کے اخلاقی اور متوازن استعمال پر زور دے رہے ہیں۔ ایک رکن پارلیمنٹ لی ہائی من نے آرٹیکل ۳۵؍ متعارف کرانے کی بہت کوشش کی۔ ان کا تعلق ری بلڈنگ کوریا پارٹی سے ہے۔ دیگر پارٹیوں جیسے پیپلز پاور پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے، ذمہ دار اے آئی کو فروغ دینے میں سرگرم رہے ہیں۔
جنوبی کوریا اس بات کی ایک عمدہ مثال ہے کہ اے آئی کے مستقبل کیلئے متوازن نقطہ نظر کو کیسے فروغ دیا جائے۔ بیونگ جیسے سائنسداں اے جی آئی کی پیروی کر رہے ہیں اور چوئی جیسے قانونی اسکالر جو اے آئی پر رکاوٹوں کی پیروی کر رہے ہیں اپنے معاشرے کے مستقبل کے بارے میں یکساں طور پر فکر مند ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے خیر خواہ اور پرخطر جہتوں پر ملک میں صحت مندانہ بحث جاری ہے۔ باقی دنیا یہ دیکھ کر فائدہ اٹھائے گی کہ اس ملک میں اے آئی کو سنبھالنے کا انتظام کس طرح تیار ہوتا ہے۔
(سندیپ واسلیکر، اسٹریٹجک فورسائٹ گروپ کے صدر ہیں، جو ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ہے۔ آپ ’’اے ورلڈ وِدآؤٹ وار‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ )