Inquilab Logo Happiest Places to Work

’آپریشن سیندور‘ کے بعد اپوزیشن کی غیر مشروط حمایت کے جواب میں حکومت کا رویہ

Updated: May 25, 2025, 3:12 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

کانگریس سمیت ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے جہاں پہلگام حملے کے بعد مودی حکومت کواُس کی ہر کارروائی پر ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی، وہیں اسی دوران حکومت پر اپوزیشن کو کمزور کرنے کے الزامات بھی لگے۔

The ruling party is taking out `Tiranga Yatras` in different parts of the country to take political advantage of `Operation Sindoor`. Photo: INN.
’آپریشن سیندور‘ کا سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے حکمراں جماعت ملک کے مختلف حصوں میں ’ترنگا یاترائیں ‘ نکال رہی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

میں ایک ایسے آدمی کو جانتا ہوں جو مہینے میں ۲۵؍ دن اپنی بیوی بچوں سے لڑتا جھگڑتا ہے اور پانچ دن مل جل کر رہتا ہے۔ وہ پانچ چھ دن ایسے ہوتے ہیں، جب وہ بیمار ہوتا ہے یا کسی اور پریشانی سے دوچار ہوتاہے۔ اچھا بھلا رہنے پر وہ بچوں سے دور ہی رہتا ہے، اس کے باوجود جب وہ بچوں کے پاس آتا ہے تو اس کے بچے سارے گلے شکوے بھول کر اس کی خدمت میں لگ جاتے ہیں اوراس سے کوئی سوال نہیں پوچھتے۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ 
 مجھے اس خاندان میں ملک کی موجودہ سیاست کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ ٹھیک اُس آدمی کی طرح ہماری حکومت بھی اتنی خود سر ہے کہ وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لاتی، سال کے ۱۱؍ مہینے ان سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے۔ البتہ جب اس پر کوئی پریشانی آتی ہے تو وہ اپوزیشن کے پاس آتی ہے۔ ملک کی اپوزیشن جماعتیں بھی اُس آدمی کی بیوی بچوں کی طرح ہی سادہ لوح ہیں کہ حکمراں طبقے سے اس کی غلطیوں پر سوال کرنے کے بجائے غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے خود سپردگی کردیتی ہیں۔ 
مذکورہ خاندان اور ملک کی موجودہ سیاست میں اتنی ساری مماثلت کے باوجود ایک فرق بھی ہے۔ وہ آدمی جب چار پانچ دنوں کیلئے اپنی بیوی بچوں سے قریب آتا ہے تو ’چھل کپٹ‘ کو کنارے رکھ کر پورے خلوص کے ساتھ آتا ہے لیکن ہماری حکومت جب اپوزیشن کے پاس آتی ہے تو خلوص کو کنارے رکھ کر ’چھل کپٹ‘ کے ساتھ آتی ہے۔ اسی منافقت کی وجہ سے ’آپریشن سیندور‘ اچانک ’آپریشن تھرور‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ 
۲۲؍اپریل کو پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں ۲۶؍ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا، جس میں واضح طور پر سیکوریٹی کی خامی نظرآئی تھی۔ کل جماعتی میٹنگ میں حکومت نے دبے لفظوں میں اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتیں تو سوال کرکے حکومت کا ناطقہ بند کر سکتی تھیں، لیکن انہوں نے ایسا نہیں بلکہ اس حملے کے خلاف کسی بھی کارروائی کیلئے حکومت کو بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ 
حملے کی خبر سنتے ہی وزیراعظم مودی اپنا سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے واپس آگئے، لیکن وہ پہلگام جانے یا پھر مہلوکین کے اہل خانہ سے ملاقات کرنے کے بجائے بہار میں انتخابی ریلی کرنے پہنچ گئے۔ اپوزیشن جماعتیں اس پر بھی کافی ’لے دے ‘کرسکتی تھیں لیکن ہلکی سی تنقید کے علاوہ کسی جماعت نےکچھ نہیں کہا اور حکومت کو سیاسی فائدہ اٹھانے کا پورا پورا موقع فراہم کیا۔ 
حکومت نے کل جماعتی میٹنگ طلب کی۔ اس قدر سفاک معاملے کے بعد اُس موضوع پر ہونے والی اس کل جماعتی میٹنگ میں وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا ہونا ایک طرح سے لازمی تھا لیکن اپوزیشن کے مطالبے کے باوجود وزیراعظم مودی نے شرکت نہیں کی۔ اس کے باوجود حزب اختلاف نے حکومت کا ساتھ دیا۔ ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر وزیراعظم کے رویے کو اپنی ’انا‘ کا موضوع نہیں بنایا۔ 
حکومت نے ’آپریشن سیندور‘ کے تحت پاکستان میں کچھ ٹھکانوں پر فوج کو فضائی حملے کی اجازت دی۔ اس کے نتائج میں بہت کچھ ابہام تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں نے اس پر حکومت سے کوئی سوال کرنے کے بجائے آنکھ بند کر کے اس کا ساتھ دیا۔ 
۷؍ مئی کے بعد دو تین دنوں تک وزیر خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور دیگر وزیروں کے ساتھ وزارت خارجہ کے افسران نے کئی ملکوں سے سفارتی رابطہ کیا اور دنیا پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کتنی ضروری تھی۔ تب تک اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کا کھل کر ساتھ دیا۔ 
کئی دنوں کی کوششوں کےبعدحکومت سفارتی سطح پر ناکام ہوگئی۔ اسرائیل اور گودی میڈیا کے علاوہ کسی نے بھی پاکستان پر کھل کر تنقید نہیں کی بلکہ دنیا کے بڑے ممالک نے جب بھی اس موضوع پر لب کشائی کی زحمت کی تو ہندوستان کے ساتھ ہی پاکستان کا نام بھی لیا۔ اس بڑی سفارتی ناکامی کے بعدحکومت، اپوزیشن جماعتوں کی مدد لینے پر مجبور ہوئی۔ اس نے اپنے موقف کی وضاحت کیلئےکئی پارلیمانی وفود بنانےاور دنیا کے مختلف ملکوں میں انہیں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کی اتنی بڑی سفارتی ناکامی کے بعد بھی اپوزیشن جماعتوں نےاس موضوع پر سیاست کرنے کے بجائے حکومت کا ساتھ دیا اور وفود میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی۔ 
حکومت چاہتی تواپوزیشن جماعتوں کی اس غیرمعمولی حمایت کا فائدہ اٹھاکر پوری دنیا کو اپنی اتحاد اور اپنی مضبوطی کا ایک اچھا پیغام دے سکتی تھی لیکن اس نے اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھانے اور اپوزیشن کو کمزور کرنے کوشش کی۔ پارلیمانی وفود کیلئے کانگریس کی جانب سے اراکین کے ناموں کی جو فہرست دی گئی تھی، حکومت نے اسے مسترد کردیا اور اپنی جانب سے نام طے کرکے الگ الگ وفود میں انہیں شامل کر دیا۔ مقصد واضح تھا۔ اس طرح اپنی پسند کے ناموں کاانتخاب کرکے حکومت اُس پارٹی میں انتشار پیدا کرنا چاہتی تھی اور اسی کے ساتھ منتخب رکن پارلیمان کو دانہ بھی ڈالنا چاہتی تھی۔ حکومت نے اس فہرست میں ششی تھرور کا نام شامل کرکے کانگریس کوچڑانے کی بھی کوشش کی۔ کچھ دنوں سے ششی تھرور جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، اس سے مودی اور ان کی ٹیم کو لگتا ہے کہ بہت جلد وہ ان کے ساتھ ہوں گے۔ ہوبھی سکتا ہے کہ ایسا ہو لیکن ششی تھرور کوقریب سے جاننےوالوں کا خیال ہے کہ وہ اس طرح بی جے پی میں جاکر اپنی برسوں کی محنت سے بنائی گئی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچائیں گےالبتہ ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ وہ بی جےپی میں شامل ہوئے بغیر کوئی بڑا عہدہ قبول کر لیں اور اس طرح بی جےپی کو فائدہ اور کانگریس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ آج کی تاریخ میں یہ ممکن ہے۔ ششی تھرور نے دبی دبی زبان سے اپنی اس خواہش کااظہار بھی کیاہے۔ 
اقتدار کی لالچ میں لوگ کیا کچھ کرجاتے ہیں، دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ وہی بی جے پی ہے جو ششی تھرور کو اپنی ہی بیوی (سنندہ پشکر) کا قاتل ٹھہرا چکی ہے اور یہ وہی مودی ہیں جو پشکر کی زندگی میں تھرور پر ’۵۰؍ کروڑ کی گرل فرینڈ ‘ رکھنے کا طنز کرچکے ہیں۔ آج ششی تھرور میں مودی اور ان کی پارٹی کو سرخاب کے پَر نظر آتے ہیں ۔ اس معاملے میں تھرور بھی پیچھے نہیں ہیں۔ رہ رہ کر وزیراعظم مودی کی تعریف کرنےوالے تھرورنے کبھی کہا تھا کہ ’’مودی شیو لنگ پر بیٹھے اُس بچھو کی طرح ہیں جنہیں نہ تو ہاتھ سے ہٹایا جاسکتا ہے، نہ ہی چپل سے مارا جاسکتا ہے۔ ‘‘
بحران کے اِس دور میں حکمراں جماعت وہ سب کچھ کررہی ہے، جو وہ کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان پر حملہ کرکے اپنے عوام کو مطمئن کرنا چاہتی ہے اور دنیا کو مطمئن کرنے کیلئے اپوزیشن کی خدمات بھی لے رہی ہے۔ 
اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف کو کمزور کرنے اور ’آپریشن سیندور‘ کا سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے ’ترنگا یاترائیں ‘ بھی نکال رہی ہے۔ رہی سہی کسر اُن اشتہارات کے ذریعہ پورا کرنا چاہتی ہے جن میں وزیراعظم ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار دکھائی دے رہے ہیں۔ انہیں اشتہارات کو دیکھ کر کہا جارہا ہے کہ حکومت نے جتنا خرچ ’آپریشن سیندور‘ میں کیا ہوگا، اس سے زیادہ خرچ اب وہ اس کی تشہیر پر کررہی ہے۔ اس کام میں گودی میڈیا بھرپور معاونت کررہی ہے۔ جن کا ضمیر زندہ ہے، وہ سخت سرکاری پہرے کی وجہ سے اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کرپارہے ہیں۔ حکومت اپنے ناقدین کا منہ بند کرکے ہر حربہ استعمال کررہی ہے۔ اس دوران دی وائر، مکتوب میڈیااور فور پی ایم جیسے کئی یوٹیوب چینلوں کے ساتھ ہی نیہا سنگھ راٹھور، ڈاکٹر مادری کاکوتی اور پروفیسر علی خان محمود آباد پر شکنجہ کسنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ انہیں حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں آزادانہ سوچ کی جگہ سکڑتی جارہی ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم پاکستان میں جمہوریت چاہتے ہیں لیکن اپنے یہاں اسے قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ‘‘
بہرحال دیر سے ہی اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو اپنی ذمہ داریوں کااحساس ہوا۔ اب اس نے حکومت سے سوال پوچھنا شروع کردیا ہے۔ راہل گاندھی، پون کھیڑا، جے رام رمیش اور سپریہ شرینیت جیسے لیڈران روزانہ سوالات کرکے حکومت کی دُکھتی رگ کو دبارہے ہیں۔ دراصل کسی بھی ملک میں اپوزیشن کی پہلی ذمہ داری حکومت کی نگرانی ہی ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس محاذ پر کانگریس کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کا کتنا ساتھ اور عوام کی کتنی حمایت ملتی ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK