Inquilab Logo

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس : چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

Updated: June 09, 2023, 12:01 PM IST | Shah Ajmal Farooq Nadvi | Mumbai

بورڈ مسلمانان ہند کی مشترک میراث ہے جو ۱۹۷۲ء سے ۲۰۰۲ء تک ملت کے معتمد ترین ہاتھوں سے ہوتا ہوا اپنے پانچویں دَور تک منتقل ہورہا ہے۔ جن مبارک ہاتھوں میں اسے دیا گیا ہے، وہ بھی موجودہ دور کے بہترین ہاتھ ہیں اس لئے بجا طور پر یہ امید کی جانی چاہئے کہ یہ قافلہ اپنے ماضی سے روشنی حاصل کرکے ، آج کے چیلنجوں کا ادراک کرتے ہوئے آگے بڑھے گا

A scene from the 28th meeting of the Muslim Personal Law Board held in Indore on June 3-4.
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ۲۸؍ ویں اجلاس کا ایک منظر جو ۳۔۴؍ جون کو اندور میں منعقد کیا گیا۔

ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے مؤقر، مستند اور متفق علیہ ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنی تاریخ کے نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔ ۱۳؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو سب سے لمبی مدت تک بورڈ کی سربراہی کرنے والی شخصیت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے اس دنیا کو الوداع کہا تھا۔ اس سے پہلے دو نائب صدور مولانا سید جلال الدین عمری اور مولانا سید فخرالدین اشرف کچھوچھوی کی وفات ہوئی تھی۔ کچھ دن پہلے بورڈ کے ایک سکریٹری ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی بھی داغ مفارقت دے گئے۔ ان میں سے ہر شخصیت اپنے آپ میں منفرد تھی۔ خاص طور پر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی رحلت کے بعد بہت بڑا خلاء محسوس کیا جارہا تھا۔ اسی لئے گزشتہ چند ہفتوں سے ملت کے تمام حلقوں میں بورڈ کی صدارت زیر بحث تھی۔ سب لوگ ۳؍ جون کو اندور میں منعقد ہونے والے اجلاس کے منتظر تھے۔ آخر کار مقررہ تاریخ پر بورڈ کا ۲۸؍ واں اجلاس منعقد ہوا جو ملت میںسکون و اطمینان کا ماحول پیدا کرگیا۔ بورڈ کے اراکین نے اتفاق رائے کے ساتھ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو بورڈ کا پانچواں صدر منتخب کرلیا۔ ہر غیر جانب دار شخص کا احساس ہے کہ مولانا رحمانی کا انتخاب اُس اعتماد، اتفاق اور ثقاہت کا تسلسل ثابت ہوگا، جو بورڈ کے صدور کو حاصل رہا ہے۔مولانا رحمانی کی بلند پایہ شخصیت اور علمی و ملی خدمات سے مزین زندگی کو دیکھتے ہوئے ہر شخص کو اس بات کا یقین ہے کہ مولانا قاری محمد طیب قاسمی، مولانا علی میاں ندوی، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیات میں جو اعتدال، متانت، معاملہ فہمی، فراست اور حکمت موجود تھی، وہ پانچویں صدر کا بھی طرۂ امتیاز ثابت ہوگی۔
 صدر کے علاوہ نائب صدور کی دو خالی جگہوں کو بھی پُر کیا گیا ہے۔ بریلوی مکتب فکر کی نمائندگی کیلئے مولانا ڈاکٹر سید محمد خسرو حسینی کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ امام العارفین خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کے نسلی و روحانی وارث ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کی دینی، تعلیمی اور ملی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جماعت اسلامی کی نمائندگی کے لئے حسب معمول جماعت کے امیر  سید سعادت اللہ حسینی کو نائب صدر منتخب کیا گیا ہے۔ جماعت کے بڑے طبقے میں ان کی تصانیف اور خیالات کو بہ نظر استحسان دیکھا جاتا ہے۔ جنرل سیکریٹری کا عہدہ بہت اہم عہدہ ہے۔ بورڈ میں اس عہدہ کیلئے ہمیشہ نہایت فعال اور زیرک شخصیات کو منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ مولانا سید منت اللہ رحمانی، مولانا سید نظام الدین، مولانا سید محمد ولی رحمانی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بالترتیب یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ اب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ اہم ذمے داری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی کو دی گئی ہے۔ مولانا مجددی اپنے خاندانی روحانی سلسلے کے وارث ہونے کے ساتھ ساتھ دینی و عصری تعلیم کے میدان میں متعدد انقلابی اقدام کا تجربہ رکھتے ہیں۔ راجستھان میں ان کی تعلیمی خدمات کو سرکاری اور عوامی دونوں سطحوں پر بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تین سیکریٹریز کا انتخاب بھی عمل میں آیا ہے: (۱) ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا سید بلال عبدالحئی حسنی ندوی (۲) امارت شرعیہ بہار کے سربراہ سید احمد ولی فیصل رحمانی، اور(۳) آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر مولانا یاسین علی عثمانی بدایونی۔ بورڈ کے ترجمان کی ذمہ داری مشہور ملی شخصیت ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کو دی گئی ہے اور نیو ہورائزن اسکول دہلی کے سربراہ جناب کمال فاروقی کو ان کا معاون بنایا گیا ہے۔ 
 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے  ۲۸؍ویں اجلاس کی جس نشست میں انتخابی عمل ہونا تھا، اس سے پہلے بارانِ رحمت نے برس کر رحمت ِ الٰہی کے متوجہ ہونے کا اشارہ دیا۔ اس کے بعد نہایت اعتماد اور اتحاد کے ماحول میں یہ بڑا انتخابی عمل انجام پزیر ہوا۔ صدر کے لئے سابق صدور جیسی ہی محترم، مؤقر، معتدل اور ثقہ شخصیت کا انتخاب کیا گیا۔ مختلف مسالک کی نمائندگی کے لئے نائب صدور کی خالی جگہوں پر ہلکی پھلکی نہیں، بلکہ اپنے اپنے حلقوں کی اعلیٰ شخصیات کو مقرر کیا گیا۔ اگلی صف تیار کرنے کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے تین ایسے سیکریٹریز کا انتخاب کیا گیا، جو تین عظیم خانوادوں کے وارث بھی ہیں اور اپنے اپنے دائرۂ عمل میں اہم بھی۔ ترجمان کے لئے دو ممتاز اور سرگرم افراد کو مقرر کیا گیا۔ یہ تمام باتیں اس بات کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ بورڈ کی قیادت  اور اس کے اکثر اراکین نہ صرف یہ کہ بیدار ہیں، بلکہ مسائل کا سامنا کرنے کیلئے تیار بھی ہیں۔ سخت حالات میں بیدار مغزی کا ثبوت دینا، ذہن بیدار اور فکر بیدار کی علامت ہوتا ہے۔ باعث ِ مسرت ہے کہ ملت کا سب سے متفق علیہ ادارہ پوری طرح بیدار ہے اور بیداری کے ثبوت کے ساتھ اپنے وجود کے نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔ 
 ایک طرف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا یہ اطمینان بخش اور امیدافزاانتخابی عمل ہے تو دوسری طرف وہ مسائل اور چیلنج ہیں جو نئی قیادت کے سامنے کھڑے ہیں۔ تاریخ صرف کامیاب ہونے والوں کو یاد نہیں رکھتی، اُن لوگوں کو بھی یاد رکھتی ہے جو پوری جرأت اور فراست کے ساتھ میدان میں سینہ سپر رہے ہوں۔ اس ذیل میں بابری مسجد کی بازیابی کے لئے کی جانے والی قانونی جدوجہد بورڈ کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ قوی امید ہے کہ نئی قیادت بھی اسی جدوجہد اور عزم مصمم کو اپنا شیوہ بنائے گی۔
  ترجیحات کا تعین اور نصب العین تک رسائی کی درجہ بندی بھی ضروری ہوگی۔ اس لئے کہ آج کے ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی جدوجہد یک رخی نہیں، چو مکھی ہوگئی ہے۔ بورڈ نے بہت کامیابی کے ساتھ اپنے وجود کے پچاس سال مکمل کئے ہیں۔ بہت سے بیرونی فتنوں کا بھی سامنا کیا ہے اور متعدد داخلی فتنوں کی بھی سرکوبی کی ہے۔ موجودہ انتخاب اشارہ دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس مقدس ادارے کی بقاء منظور ہے لہٰذا میدان میں چومکھی جدوجہد کی تیاری کے ساتھ اترنا ہوگا۔ حفاظت ِ شریعت کے ساتھ تعارف شریعت، افضلیت شریعت اور اعتماد بر شریعت کی جدوجہد کو ہر مسلم نوجوان کے دل و دماغ تک لے جانا ہوگا۔ اس کے لئے مدارس اسلامیہ کے طلبہ کو ہندوستانی آئین اور بین الاقوامی قوانین سے واقف کرانے اور مسلم عصری اداروں میں اسلامی قانون کے جامع نصاب کو شامل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی۔ دارالقضاء کے مبارک نظام کے ساتھ شریعہ کاؤنسلنگ کا نظام بھی شروع کرنا ہوگا تاکہ تربیت یافتہ ماہرین ِ شریعت مسلم گھروں تک پہنچ کر گھریلو مسائل کو سلجھا سکیں۔ اس کے ذریعے غیرمسلم لڑکے لڑکیوں سے تعلقات کا مسئلہ حل کرنے میں بھی بہت مدد مل سکتی ہے۔ شریعت اسلامی کے تعارف اور ان کی افضلیت کو نئی نسل کے دلوں میں بٹھانے کے لئے سال بھر ملک کے مختلف حصوں میں آف لائن اور آن لائن مختصر مدتی کورسیز بھی شروع کرنے ہوں گے۔ نئی نسل کے درمیان شریعت اسلامی کی یہ ساری جدوجہد اس لئے ہونی چاہئے کہ جب ہمارے مخلص قائدین مختلف حملوں سے محفوظ کرکے شریعت کو اگلی نسلوں تک پہنچائیں تو وہ تشکر و امتنان کے ساتھ اس مبارک میراث کو قبول کریں۔ اللہ نہ کرے کہیں ایسا  ہو کہ طویل جدوجہد کے بعد جب شریعت کی میراث اگلی نسل تک پہنچے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ 
 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانان ہند کی  مشترک میراث ہے۔ یہ مبارک ورثہ  ۱۹۷۲ء سے ۲۰۰۲ء تک ملت کے معتمد ترین ہاتھوں سے ہوتا ہوا اپنے پانچویں دَور تک منتقل ہورہا ہے۔ جن شخصیات کے سپرد اسے دیا گیا ہے، وہ موجودہ دور کی ممتاز اور خدمت کے جذبہ سے معمور شخصیات ہیں اس لئے بجا طور پر یہ امید کی جانی چاہئے کہ بورڈ کا یہ مبارک قافلہ اپنے ماضی سے روشنی حاصل کرکے ، آج کے چیلنجوں کا مکمل ادراک کرتے ہوئے آگے بڑھے گا۔ 
 یہ بھی اُمید کی جاتی ہے کہ ملت اسلامیہ اپنے قائدین پر پورے اعتماد کا اظہار کرے گی، ان کا ساتھ دے گی اور ہر طرح سے ان کی تقویت کا سبب بنے گی۔ کیوں کہ کامیاب قومیں ہر حال میں اپنے قائدین پر اعتماد کرتی ہیں جب کہ زوال یافتہ قومیں اپنے قائدین پر الزام تراشی اور شک و شبہ کرتے کرتے تباہی کے غار تک پہنچ جاتی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK