’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: May 06, 2025, 3:14 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
انسان عجلت پسند ہوگیا ہے
کتابیں پڑھنے کا ر جحان اسلئے کم ہو رہا ہےکیونکہ کتا بو ں کی جگہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈ یانے لے لی ہے۔ دورِ حاضر میں ہر شخص عجلت پسند ہے۔ اور یہ انسا نی فطرت بن گئی ہے کہ آدمی گھنٹوں کا کا م منٹو ں میں اور منٹو ں کا کام سیکنڈوں میں چا ہتا ہے۔ معلو ما ت کہاں سے جلدی حاصل ہو سکتی ہے، اس میں اس کی دلچسپی زیادہ رہتی ہے۔ کتا بیں پڑ ھنے سے اتنی عجلت میں وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر پا تا۔ اسلئے کتا بیں پڑ ھنے کا رجحا ن کم ہو رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں سو شل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر یوٹیوب کے ذریعے آ پ جو معلو ما ت حا صل کر نا چا ہیں، وہ آ پ کو آ ن کے آن میں حا صل ہو سکتی ہیں، اسلئے اب ان ذرائع کا استعمال کر نے کی مہا رت حا صل کر نا بھی بہت ضر وری ہو گیا ہے۔ ایک بات بہت صاف صاف بتادوں کہ مجھے عام کتابیں پڑھنے کا زیادہ شو ق نہیں ہے۔ میں دینی و مذ ہبی کتب بینی کا بے پنا ہ شو ق ر کھتا ہو ں اور یہا ں یہ بتانا ضر وری سمجھتا ہو ں کہ گز شتہ ایک سا ل سے میں ۱۴۷۲؍ صفحات پر مشتمل قرآ ن با معنی مکمل تفسیر کے پڑھ رہا ہوں اور پڑھتے پڑھتے کچھ با تو ں کو میں یاد رکھنے کیلئے تحر یر کر لیتا ہوں۔ قرآن پا ک کی یہ تفسیر دوسری مر تبہ پرھ رہا ہو ں۔ اسی طر ح میں احادیث کا بھی بڑی گہرا ئی سے مطا لعہ کرتا ہو ں۔
پرنسپل ڈاکٹر محمد سہیل لو کھنڈ والا(سابق ایم ایل اے)
امسال میں نے ’اور تلوار ٹوٹ گئی‘ پڑھی
آج ہم نے پیسے کمانے کی دوڑ میں خود کو اتنا مصروف کرلیا ہے کہ وقت بہت کم ملتا ہے اور جو ملتا ہے، وہ موبائیل اور سوشل میڈیا کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود ہمیں اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت کتابیں پڑھنے کیلئے نکالنا چاہئے تاکہ کچھ سیکھنے کو ملے۔ جب موبائل نہیں تھا تو لوگوں میں ابن صفی کے ناول پڑھنے کا ایسا نشہ تھا کہ ہر وقت پڑھنے کا دل کرتا تھا، لیکن اب موبائل کی وجہ سے موقع ہی نہیں ملتا۔ پچھلے ایک سال میں، میں نے اسلامی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا ہے جن میں ذوالفقا ر نقشبندی کی ’اہل دل کے تڑپا دینے والے واقعات ‘ اور’گناہ سے کیسے بچیں ‘ کے علاوہ نسیم حجازی کی مشہورکتاب ’اور تلوار ٹوٹ گئی‘ شامل ہیں۔
نوید اختر مسعود اختر( راجہ نگر، مالیگائوں )
تفہیم اقبال، جامعہ عثمانیہ کے اُردو ڈاکٹر قلمکار اور شعر فہمی کا مطالعہ کیا ہے
کتابوں کے مطالعہ میں کمی کا رجحان موجودہ لائف اسٹائل ہے جہاں لوگ اپنا زیاد ہ وقت سوشل میڈیا پر گزارنا پسند کرتے ہیں یا انٹرنیٹ پر ریل دیکھنے اور گیم کھیلنے میں گزارتے ہیں۔ جدید لائف اسٹائل کی وجہ سے اکثر لوگ اپنا وقت کتابیں پڑھنے کے بجائے تفریحی مقامات پر یا کھیل کود میں گزارتے ہیں۔ ڈیجیٹل مواد انتہائی کم وقت میں مطلوبہ مواد فراہم کر دیتا ہے اسلئے کتابوں کی گہرائی سے مطالعہ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ملازمت، گھریلو ذمہ داریاں اور لوگوں سے ملنے جلنے میں اتنا وقت شاید نہیں مل پاتا کہ لوگ کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اخبارات بھی ہاتھ میں لے کر پڑھنے کے بجائے ای پیپرس کو ترجیح دیتے ہیں۔ مادری زبان میں پڑھنے کا جو لطف آتا ہے وہ دیگر زبانوں میں نہیں آتا۔ آج کل انگریزی پڑھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اسلئے اردو مادری زبان والے گھروں کے طلبہ اردو پڑھ نہیں پاتے اور انگریزی ادب سے دلچسپی نہیں ہوتی، اسلئے بھی وہ مطالعہ سے دور بھاگتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے شوق اورسرگرمیوں کو مطالعہ پر ترجیح دیتے ہیں اور کچھ لوگوں کو پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے یا آنکھوں میں نقص کی وجہ سے بھی وہ پڑھ نہیں پاتے۔
مطالعہ سے دوری کی وجوہات پر قابو پانےکیلئے ضروری ہے کہ ہم مطالعہ کیلئے روزانہ کچھ وقت متعین کریں۔ کوئی کلب، لائبریری کے ممبر بنیں یا پھر پڑھنے لکھنے والے ساتھیوں کے رابطہ میں رہیں اور ان سے کتابوں کا تبادلہ کریں۔ نئی نئی کتابوں کے حصول کیلئے کتابی میلے میں شریک ہوں اس سے کتابوں سے دلچسپی بڑھے گی۔ والدین اپنے بچوں کو مطالعہ کی طرف راغب کریں۔
گزشتہ کچھ دنوں میں، میں نے تفہیم اقبال، جامعہ عثمانیہ کے اُردو ڈاکٹر قلم کار، شعر فہمی اور فنِ شاعری اور اپنی ہی کتاب بھیونڈی میں اردو ادب کا مطالعہ کیا ہے۔
ملک مومن(سبکدوش معلم، بھیونڈی)
مطالعے سے زندگی روشن ہوتی ہے
کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہیں جو ہمیں نئے علم، جذبات اور نظریات سے روشناس کراتی ہیں۔ اچھی اور معنیخیز کتابیں نہ صرف ہماری سوچ کو وسعت دیتی ہیں بلکہ زندگی میں مثبت تبدیلیاں بھی لاتی ہیں۔ اسکولی دنوں میں اچھا خاصا مطالعہ کیا کرتا تھا مگر پڑھائی کے اختتام کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ آج کے مصروف دور میں جہاں تفریح کے بے شمار ذرائع موجود ہیں، میں نے خود کو بار بار یہ یاد دلایا کہ کیوں نہ دوبارہ کتابوں کا مطالعہ شروع کیا جائے۔ ایک سال قبل میں نے دوبارہ پڑھنے کا عہد کیا۔ اب میں روزانہ بس سے آفس جاتے وقت فلسفے کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ساتھ ہی انقلاب میں شائع ہونے والی کہانیوں اور افسانوں سے بھی لطف اندوز ہوتا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ میں اردو ادب پر توجہ مرکوز کروں تاکہ نہ صرف میرے علم میں اضافہ ہو بلکہ میری زندگی پر بھی کتابوں کے مثبت اثرات نمایاں ہوں۔
جواد عبدالرحیم قاضی(ساگویں، راجاپور، رتناگیری)
ہمیں ’بوکے‘ نہیں ’بُک‘ دو، کا رُجحان پیدا کرنا ہوگا
مہاراشٹر کے ایجوکیشن منسٹر دادا جی بھوسے نے اپنی وزارت سنبھالتے ہوئے ایک بات کہی تھی کہ ’’مجھ سے ملنے کیلئے جو بھی آئے وہ اپنے ساتھ ’بوکے‘نہیں ’بُک‘ لائے۔ اس روایت کو ہمیں بھی اپنانے کی ضرورت ہےکیونکہ کتابیں پڑھنے کا رُجحان کم ہوتا جارہا ہے۔ دراصل ہماری دُنیا سمٹ کر موبائل میں آگئی ہے۔ ہماری نئی نسل بہت جلد باز واقع ہوئی ہے۔ ایک کتاب پڑھنے میں کبھی ہفتوں تو کبھی مہینوں لگ جاتے ہیں، اتنا صبر و ضبط نئی نسل میں نہیں ہے۔ وہ گلیمر کی دُنیا میں مست ہے۔ ایسے میں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں میں کتابیں پڑھنے کا رُجحان پیدا ہو تو ہمیں سوشل میڈیا کاسہارا لینا ہوگا۔ ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ کتابوں کے تبصرے و تذکرے سوشل میڈیا کے ایسے پلیٹ فارم سے اُٹھیں جہاں ملین کی تعداد میں ’ویورس‘ ہوں۔ مثلاًبگ باس شو میں اگر سلمان خان کسی کتاب کا تذکرہ کردیں اور کتابیں پڑھنے کے فائدے بتادیں تو ہمارے نوجوان یقیناً کتابیں پڑھنے میں دلچسپی دکھائیں گے۔ اسی طرح ہم بھی کسی تقریب میں جائیں تو تحفے میں کتابیں دینے کی رواج قائم کریں۔
امسال میں نے تین کتابیں ( بشریٰ رحمان کی لگن کے علاوہ ابومسعود عبدالجبار کی کتاب ’اسلامی تاریخ کے دلچسپ اور ایمان آفریں واقعات‘ اور انعام الحق قاسمی کی کتاب’اہل دل کو تڑپانے والے واقعات‘) میرے زیرمطالعہ رہیں۔ ان میں ’لگن‘ ایک دلچسپ ناول ہے جس میں ناول نگار نے اُن نوجوان لڑکیوں کو اچھا سبق دیا ہے جو اپنے حُسن ہی کو سب کچھ مانتی ہیں اور یہ سوچتی ہیں کہ تمام مرد صرف حُسن کے دیوانے ہوتے ہیں۔ اس سوچ کی حامل لڑکیاں جب ازدواجی زندگی میں داخل ہوتی ہیں تو شوہر کو اپنے قابومیں رکھنا چاہتی ہوں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔
عمران عمر (شیدا اُردو ہائی اسکول مالیگاؤں )
’ غبار خاطر‘اور ’چلتے ہو تو چین کو چلئے‘ جیسی کتابو ں کا مطالعہ کیا ہے
اچھی کتابوں کے مطالعے سے ہم خود کو اور دنیا کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ کتاب پڑھے بغیر وہ صلاحیت نشونما نہیں پا سکتی جو مسائل کے حل کیلئے ناگزیر ہے۔ سیانےکہتے ہیں کہ کتابیں پڑھنے سے آپ وہ زندگی بھی جی لیتے ہیں جو آپ کی نہیں تھی اور آپ اسے بھی محسوس کر لیتے ہیں جو آپ پر نہیں گزرا، مگر کیا کہیے حالات کی ستم ظریفی کو کہ آج کتابوں کا مطالعہ بھی قصۂ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کی یوں تو کئی وجوہات ہیں مگر ان میں سر فہرست ’اسکرینوں ‘کی غلامی ہے....اور کیوں نہ ہو جب یہ ورچول دنیا اتنی سحر انگیز اور ہوشربا ہو تو ہوش کیسے سلامت رہیں ؟یہی وجہ ہے کہ کتب بینی جیسی روایت اب فرسودہ سمجھی جانے لگی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہمیں بطور معاشرہ کتاب کلچر کو رائج کرنا ہوگا، گھروں میں مطالعے کا خاص ماحول تیار کرنا ہوگا۔ جب گھر کے بڑے بزرگوں کے ہاتھوں میں موبائل کی جگہ کتابیں اپنا مقام بنا لیں گی تب ہی یہ نئی نسل کیلئے ایک قابل تقلید عمل بن سکے گا۔
رہا سوال یہ کہ میں نے اس سال کتنی کتابیں پڑھیں اور کون سی تو میں بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں تعداد میں نہیں، مواد میں یقین رکھتی ہوں ، اسلئے بہت زیادہ پڑھنے کے بجائے کم کتابیں پڑھتی ہوں لیکن رُک رُک کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھتی ہوں تاکہ جو کچھ پڑھوں، انہیں اپنے اندر جذب کرسکوں۔ امسال میں نے کئی اہم کتابیں پڑھیں اور بیک وقت مختلف موضوعات پر پڑھیں۔ ان میں غبار خاطر سے لے کر ابن انشاء کی چلتے ہو تو چین کو چلئے بھی شامل ہے۔ اسی کے ساتھ پاکستانی رائٹر سمیرا حمید کی سودا، راہ نور اور طواف عشق جیسے بہترین ناولز بھی شامل ہیں۔ فی الوقت رسول حمزہ توف کی ’میرا داغستان‘ زیر مطالعہ ہے جو میں نے دو ہفتہ پہلے ہی دوات پبلی کیشن کے ذریعے آن لائن منگائی ہے۔
حنا فرحین مومن(معاون معلمہ رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج)
کتابوں کو انعام اور لائبریری وزٹ کو تفریح بنائیں
کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہونے کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں جیسے: موبائل فون، ٹیبلٹ اور سوشل میڈیا نے لوگوں کی توجہ مختصر اور فوری مواد کی طرف مبذول کر لی ہے۔ آج کے دور میں لوگ مصروف ہو گئے ہیں، انہیں کتابوں کیلئے وقت نکالنا مشکل لگتا ہے۔ لوگ تفریح کیلئے فلمیں، ڈرامے اور گیمز کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ نصابی کتابوں کی بوجھل اور غیر دلچسپ تدریس نے طلبہ میں مطالعہ کا رجحان کم کر دیا ہے۔
لیکن دنیا میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کا کوئی حل نہ ہو، چنانچہ اس مسئلے کا بھی حل ہے جیسے: کتاب میلوں لائبریریوں اور آن لائن پلیٹ فارمز کو فروغ دینا۔ بچوں کو دلچسپ انداز میں کہانیاں سنانا اور آواز بدل کر کردار کی نقل کر کے کہانی سنانا انہیں کتابوں میں دلچسپی لینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایسی کتابیں منتخب کریں جن کی زبان آسان ہو۔ رنگین تصویروں والی اوردلچسپ کہانیاں بچوں کو بہت لبھاتی ہے۔ کسی اچھی کارکردگی پر تحفے میں کتاب دینا، کتابوں سے محبت میں اضافے کا سبب بن سکتاہے۔ بچے اگر ٹیکنالوجی پسند کرتے ہیں تو انہیں ای بکس یا آڈیو بکس سنوانے سے بھی مطالعہ کا ذوق پیدا ہو سکتا ہے۔
پچھلے ایک سال میں، میں نے اردو اور مراٹھی کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے جن کے نام کچھ اس طرح ہیں۔ الطاف حسین حالی کی علمی اور ادبی خدمات، شبلی نعمانی سوانح، شخصیت اور عہد، اردو میں کلاسکی ادب، اردو کے اہم کلاسکی متن، ترجمہ نگاری، ذرائع ابلاغ تعارف اور روایت، کاوڑ سا، سکھاچا شود۔
مومن ناظمہ محمد حسن (لیکچرر ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے)
میں نے م ناگ کی کتاب ’چوتھی سیٹ کا مسافر‘ پڑھی ہے
مجھے شروع ہی سے کتابیں پڑھنے کا شوق بہت ہے۔ دراصل میرے کریئر کا آغازممبئی کارپوریشن کے محکمہ لائبریری میں ہوا تھا۔ اُس وقت شہر میں میونسپل کارپوریشن کے تحت چلنے والی تین لائبریریاں تھیں۔ ایک باپو کھوٹے اسٹریٹ میں حاجی اسماعیل کھتری لائبریری تھی۔ اسے مع سازوسامان حاجی اسماعیل کھتری نے ممبئی کارپوریشن کو دیا تھا۔ اس کے علاوہ دوسری لائبریری ہلائی میمن جماعت کی تھی جومینارہ مسجد میں تھی۔ میری پہلی تقرری اسی لائبریری میں ہوئی تھی جبکہ تیسری لائبریری کماٹی پورہ اصطبل اسٹریٹ میں تھی جو ثوبانی مرحوم سے منسوب تھی۔ ان تینوں لائبریریوں میں اردو کی و نایاب کتابیں تھی۔ مجھے سبکدوش ہوئے کئی سال ہوگئے مگر وہاں رہ کر پڑھی گئی کتابیں آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔ حالیہ دنوں میں، میں نے جن کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، ان میں معروف اردوصحافی خلیل زاہد صاحب کی کتاب اور میرے دوست فرحان حنیف کی کتاب کے علاوہ معروف افسانہ نگار مرحوم م ناگ کی کتاب ’چوتھی سیٹ کا مسافر‘ پڑھی ہے۔
محمد زبیر فطرت (پنویل)
امسال میں نے انگریزی کی کتاب ’مائنڈ سیٹ‘ پڑھی ہے
وہ بھی کیا دور تھا جب اپنی پسند کی کتاب حاصل کرنے کیلئے ہم اسکول میں قطار لگایاکرتے تھے۔ میری ابتدائی تعلیم محمدیہ اسکول اورہاشمیہ ہائی اسکول میں ہوئی ہےجہاں کتابیں پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ پہلے جیسے حالات بھلے ہی نہ ہوں لیکن کتابیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اس کی بہترین مثال کتاب میلوں کی شاندار کامیابی ہے۔ ان میلوں میں ہم نے محسوس کیا ہے کہ نئی نسل بھی اپنے ’عارضی دوست‘ ( سوشل میڈیا) کو کنارے کرکے اپنے ’حقیقی دوست‘ ( کتابیں ) کی طرف واپس ہونے کیلئے تیار ہے۔ اس کیلئے شرط یہ ہے کہ گھر کے بڑے ویسا ماحول بنائیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم گھر میں `دوستوں کی محفل میں، رشتےداروں کی جماعت میں ، غرض یہ کہ جہاں موقع ملے، کتابوں کے موضوع پر بات چیت کریں اورایک دوسرے کو کتاب تحفے میں دیں۔ پچھلے سال میں نے علامہ اقبالؒ کی کتاب ’پیام مشرق‘ اور امسال Carol S. Dweck کی کتاب mindset پڑھی ہے۔
محمد فوزان تنگیکر( پنویل)
بڑے پڑھیں گے تو بچے بھی پڑھیں گے
جب سے موبائل آیا ہے، ہم نے سارے کام چھوڑ دیئے اور اپنی پوری توجہ اسی پر مرکوز کردی۔ روز مرہ کی زندگی میں ہمارے نوجوان سب سے زیادہ موبائل کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ موبائل میں میسیج ٹائپ کرتے ہیں، گیمز کھیلتے اور ریل وغیرہ دیکھتے ہیں۔ اسلئے ان کے پاس وقت کی بہت زیادہ کمی ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ روزمرہ کی زندگی میں کتابیں پڑھنے کیلئے بھی تھوڑا وقت نکالیں۔ آج کی تاریخ میں ناول، جنرل نالج کی کتابیں، دینی معلومات، دینی قصے اور ادبی مضامین پر مشتمل بہت ساری کتابیں ہیں جو آسانی سے مل جاتی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ تھوڑا سا وقت نکال کر ہم اسے پڑھنے کی کوشش کریں۔ میرے پاس بہت ساری کتابیں ہیں اور میں وقت نکال کر ان کتابوں کوپڑھتا بھی ہوں۔ مجھے وکیل نجیب صاحب کی کتابیں بہت پسند ہیں۔ ان کی بہت ساری کتابیں میرے پاس ہیں جنہیں میں وقت نکال کرپڑھتا ہوں۔ اگر گھر کے بڑے افراد کتابیں پڑھیں گے تو ان کے بچوں کو بھی پڑھنے کی عادت ہوگی۔ بچوں کے ساتھ صرف ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں چلے گا، آج کل کے بچے بھی بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں۔ اسلئے گھر کے بڑوں کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔
عاطف عدنان شیخ صادق(شاہو نگر جلگاؤں )
بچوں کو کتابوں سے قریب کرنے کی ضرورت
پہلے انسان اخبار اورکتابیں خرید کر پڑھتا تھا تو اسکی اہمیت بھی ہوا کرتی تھی، آج پی ڈی ایف کی شکل میں اسے دونوں چیزیں میسر ہیں۔ موبائل سے آنکھوں کا نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ انسان سرسری علم حاصل کررہا ہے جو زیادہ دن انسان کے ذہن میں محفوظ نہیں رہتا۔ جب انسان پیسے دے کر اخبار یا کتاب حاصل کرتا ہے تو اس سے مکمل استفادہ کرتا ہے اور یہ مطالعہ اس کے لئے کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
آج ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کو موبائل سے دور اور کتابوں کے نزدیک کریں ۔ انہیں ہر وہ کتاب جو ان کے لئے کارآمد ہے، ان کے ہاتھوں میں تھمانے کی کوشش کریں تاکہ یہ ذوق وشوق باقی رہے اور ان کا رجحان کتابوں کی طرف تاحیات قائم رہے۔
محمد اقبال( جلگاؤں )
سنا ہے کہ اکثر جگہ کتابوں کی دکانیں بند ہوگئی ہیں
سب پہلے کتابیں پڑھنے کا رجحان کم اس لئےہو رہا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا میں مشغول ہوگئے ہیں اور کتابوں کو بھول گئےہیں۔ بہت پہلے کتابوں کے دام زیادہ ہونے کے سبب لوگ دل مسوس کر رہ جاتے تھے، خرید نہیں پاتے تھے۔ اس وقت کمائی کم ہوتی تھی۔ اردو زبان کے ادبی حلقے آپسی چپقلش کے سبب عام قاری کو متاثر نہیں کر پائے۔ عام لوگوں نے انگریزی زبان کو اپنا لیا تھا اور انگریزی کی طرف راغب ہوتے گئے۔ جب ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگے، نئے مکان میں جگہ کی کمی کی وجہ سے ہمیں بہت ساری کتابیں ردی میں دینی پڑیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی کتابیں لینے والا ہی نہیں ملا۔
اب اس کا حل یہی ہے کہ اسکول اور کالج ہی سے طلبہ کو کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کیا جائے۔ کتابوں کے دام کم رکھے جائیں، اس کے لئے کتابوں میں دلچسپی رکھنے والے اہل خیر حضرات مدد کریں۔ کتابوں کے موضوع دلچسپ و معلوماتی اور موجودہ مسائل پر ہوں۔ سائنس اور بزنس جیسے موضوع پر بھی ہوں۔ جیسے کہ انگریزی کی کتابیں ہر موضوع پر ہوتی ہیں۔ پچھلے ایک سال میں نے اردو اور ہندی کی کئی کتابیں پڑھی ہیں ۔ اردو اور ہندی میں کئی دینی کتابیں پڑھی ہیں۔ موجودہ وقت میں ہمارے مطالعہ میں ہندی میں ’ باتینی بیماریوں کی معلومات‘، اردو میں اسلامی معلومات، سیرت مصطفیٰ، اے ایمان والو تو ہندی میں ’بھارت وبھاجن کی انت: کتھا، بھارت کا سنودھان‘، ہیں ۔ افسوس کہ ہمیں ادبی کتابیں میسر نہیں آئیں، وجہ یہ ہے کہ یہاں ادب کی کتابیں نہیں ملتی ہیں۔ ممبئی بھنڈی بازار، نل بازار اورجے جے ناکہ کئی سالوں سے جانا نہیں ہوا۔ سنا ہے کہ اکثر جگہ کتابوں کی دکانیں بند ہوگئی ہیں۔
مرتضیٰ خان (نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
وقت کو گویا پر لگ گئے ہوں
ذمہ داریوں کا بڑھتا بوجھ بھی کتابوں سے دوری کی وجہ بن رہا ہے، ڈیجیٹل لوازمات نے بھی کتابوں کی مانگ کو کسی حد تک محدود کردیا ہے۔ فرصت کے لمحات میں موبائل اور ڈیجیٹل نوٹ بک کے ذریعے مطلوبہ معلومات حاصل ہو نے کی وجہ سے بھی کتابوں تک رسائی نہیں ہو پار ہی ہے ۔ اخبارات کے مطالعے نے بھی کتب بینی سے دوری کا ماحول بنا دیا ہے۔ پچھلے برس دینی کتب کا مطالعہ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ قصص الانبیاء اور واقعات صحابہ سے مستفیض ہونے کا موقع نصیب ہوا۔ گاہے بگاہے چھوٹے کتابچوں کا مطالعہ بھی کیا۔ شہر کے مشاہیر حضرات کی سوانح عمری کا بھی مطالعہ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آنے والی نسل میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کیلئے ان کے ہاتھوں سے ڈیجیٹل سسٹمز کو دور کرنا نہایت ضروری ہے اور کتابوں کی رسائی کو آسان بنا کر ان میں کتب بینی کا شوق پیدا کیا جا سکتا ہے۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
پابندی سے مطالعہ کریں
مصروف نظام الاوقات اور اسکرین ٹائم میں اضافہ پڑھنے کے لئے کم وقت چھوڑتا ہے۔ ایسے میں ای کتابوں، آڈیو بکس اور لائبریریوں کو فروغ دیں۔ پڑھنے کی عادات کی حوصلہ افزائی کریں۔ دوسروں کے ساتھ کتابوں پر تبادلہ خیال کریں۔ روزمرہ کے معمولات میں پڑھنے کو شامل کریں۔ کتاب کی تشہیر کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کریں ۔ پچھلے ایک سال میں میں نے صرف دو کتابیں پڑھی ہیں ... ’پیر کامل‘ عمیرہ احمد کی اردو زبان میں اور دوسری ’دی بائبل‘انگریزی زبان میں۔
جاوید رحمان خان(سوراج کمپلیکس، گوریگاؤں ویسٹ ممبئی)
گلی محلےمیں لائبریری قائم کی جائے
کتابیں انسان کی بہترین دوست اور تنہائی کی مخلص ساتھی رہی ہیں ۔ اس نے دکھ کو سکھ میں اور غم کو خوشی میں بدلا ہے۔ اسی نے دنیا میں بڑے بڑے انقلاب برپا کئے ہیں ۔ اسی نے انسان کو جینا اور زندگی کے آداب سکھائے ہیں اور انسان کو بہترین تہذیب سے آراستہ کیا ہے۔ ماضی میں تاریخی، مذہبی اور خصوصی طور سے جاسوسی ناولوں میں ابن صفی وغیرہ کے ناولوں کا’ چسکا ‘ہر خاص و عام میں تھا۔ وقت اور حالات میں کروٹ بدلی اور موبائل، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے کتب بینی اور اخبار بینی کے شوق کو کافی متاثر کیا اور قارئین اور شائقین کی تعداد میں کافی کمی آئی۔ ایسے میں گلی محلے میں لائبریری کا قیام کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس طرح نوجوانوں کی آوارہ گردی میں کمی آئے گی۔ اس طرح ان میں کتب بینی اور اخبار بینی کا شوق پیدا ہوگا۔ نوجوانوں کے ساتھ طلبہ اور خصوصی طور سے بڑے بوڑھوں اور وظیفہ یاب افراد بھی لائبریری سے کافی مستفیض ہوں گے۔ لائبریری کے قیام میں سیاسی، سماجی اور فلاحی اداروں کے علاوہ حکومتِ وقت کی سرپرستی اور اسکی نظر التفات مددگار ثابت ہو گی۔ ۔ پچھلے ایک سال میں جن کتابوں کا مطالعہ کیا وہ حسب ذیل ہیں ۔ چراغ رہ گزر (محمد حسن فاروقی)، کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ، کلیاتِ اقبال، کلیات نظیر اکبر آبادی، مسدس حالی، گئودان، ماہنامہ اردو دنیا جولائی۲۰۲۴ء اور ممبئی اردو نیوز اور روزنامہ انقلاب ممبئی وغیرہ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔
انصاری محمد صادق(حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج کلیان)
انٹرنیٹ کی وجہ سے کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہورہا ہے
کتب بینی کی جگہ انٹرنیٹ نےلے لی ہے۔ لوگ اب کتب خانوں کے بجائے انٹرنیٹ پر کتابیں، ناول اور رسائل پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں لیکن دن رات چیٹنگ، ریل، یو ٹیوب، فیس بک اور فضول عشقیہ ایس ایم ایس کرنے میں وقت ضائع کرتے ہیں جس کی وجہ سے مطالعہ کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے۔ کتابیں پڑھنے کے رحجان میں کمی کی وجہ صرف انٹرنیٹ نہیں بلکہ کمپیوٹر اور موبائل فون بھی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کے گمراہ ہونے میں انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور موبائل فون کا کافی کردار ہے۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی بدولت ای لرننگ یا ای ایجوکیشن کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کتاب کلچر کو فروغ دیا جائے۔ کتاب سے دور ہونے میں بچے کا کوئی قصور نہیں۔ جب وہ بڑوں کے ہاتھ میں کتاب دیکھتے تھے، گھر میں اخبار اور رسالے آتے تھے تو وہ خود بھی کتاب میں دلچسپی لیتے تھے۔ اب والدین کے پاس ہمہ وقت موبائل ہے۔ کتابوں کی قیمتوں میں کمی کی جائے، تاکہ عام آدمی کیلئے سستی ومعیاری کتابوں کا حصول آسان ہو اور غریب عوام اورخاص طور نوجوان نسل میں مطالعہ کی اہمیت اور عادت کو پختہ کیا جاسکے۔ پچھلے ایک سال میں ہم نے ۲؍ کتابیں پڑھیں ۔ ماہنامہ اُمنگ، ایوان اُردو اور روزانہ ’انقلاب‘ اخبار پڑھتا ہوں اور ہفتہ وار’ تعلیمی انقلاب‘ کا مسلسل مطالعہ کرتارہا ہوں۔
ایم پرویز عالم نور محمد( رفیع گنج، بہار)
جدید اور پرکشش لائبریریاں بنائی جائیں
موبائل فون، سوشل میڈیا، ویڈیوز اور مختصر پیغامات دور میں لوگ جلدی جلدی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، گہرائی میں جانے کا حوصلہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ آج کے انسان کی زندگی اتنی تیزرفتار اور مصروف ہو چکی ہے کہ کتاب کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ بچپن سے کتابوں کی محبت سکھانے پر توجہ نہیں دی جاتی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے ہو کر بھی ان کی کتابوں میں دلچسپی نہیں رہتی۔ نہ گھروں میں مطالعے کا ماحول ہے، نہ اسکولوں میں لائبریری کا مؤثر استعمال ہو رہا ہے۔ ایسےمیں گھروں میں والدین خود کتاب پڑھیں اور بچوں کو بھی مطالعے کی طرف راغب کریں۔ جدید اور پرکشش لائبریریاں بنائی جائیں جہاں صرف نصابی نہیں بلکہ دلچسپ غیر نصابی کتابیں بھی میسر ہوں۔ کتب میلوں، پڑھنے کے مقابلوں اور مصنفین سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ لوگوں کی دلچسپی بڑھے۔ چونکہ موبائل اور انٹرنیٹ اب ہماری زندگی کا حصہ ہیں لہٰذا ای-بکس اور آڈیو بکس کے ذریعے مطالعے کی عادت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ سونے سے پہلے کہانیاں سنانے کی روایت کو زندہ کیا جائےاور بچوں کو عمر کے مطابق کتابیں تحفے میں دی جائیں۔ معاشرے میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ کتاب پڑھنا نہ صرف ایک ذاتی ضرورت ہے بلکہ قومی ترقی کا راز بھی ہے۔ پچھلے برس میں نے راہ علم، بارہ تقریریں اور مختصر منہاج العابدین کامطالعہ کیا۔ احیاءالعلوم کا خلاصہ اور ایجوکیشنل اینڈ ووکیشنل گائڈئنس ان سیکنڈری اسکول (انگلش ) کا مطالعہ جاری ہے۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(ایجوکیشنل و کرئیر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول و جو نیئر کالج)
اس ہفتے کا عنوان
اسکولوں میں چھٹیاں شروع ہوگئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ طلبہ اپنے طور پر تو کچھ والدین ان کیلئے منصوبہ بندی کرنے لگے ہیں کہ ان چھٹیوں کااستعمال کیسے کریں۔ ایسے میں کچھ جگہوں پرسمر کیمپس کے انعقاد بھی ہورہے ہیں۔ اسی حوالے سے سوال ہے کہ:
سمر کیمپس کا انعقاد کیوں ضروری ہے؟ اوراس سے کیا فائدے ہیں ؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۱۱؍ مئی) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی۔
نوٹ: قلمکار اپنی تحریر کے ساتھ ہی اپنا نام لکھیں۔ (ادارہ)