Inquilab Logo Happiest Places to Work

اللہ چاہتا ہےکہ ضرورتمندوں پر مال خرچ کیا جائے

Updated: March 06, 2020, 4:37 PM IST | Dr. Hasanuddin Ahmed

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اس ضمن میں آیت البـرّ کے حوالے سے انفاق کے موضوع پر تفصیلی مضمون کا تیسرا اَور آخری حصہ

Money Spend on Needy. Picture INN
ضرورتمندوں پر خرچ کرنا۔ تصویر: آئی این این

مساکین پر خرچ
 یتامیٰ کی طرف توجہ دلانے کے بعد اللہ مساکین پر مال خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اکثرو بیشتر اللہ نے جہاں یتیموں کا تذکرہ کیا ہے وہیں مساکین کی طرف بھی توجہ دلائی ہے ۔ مساکین جمع ہے مسکین کی۔ ایک حدیث کے مطابق مسکین وہ شخص ہے جو مال تو رکھتا ہے مگر اتنا نہیں کہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے اور غیرت اس کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی ہے۔ 
 ایسے لوگ ہمارے اردگرد کافی تعداد میں ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلاسکتے یا اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کا علاج نہیں کراسکتے یا اگر مقروض ہوں تو غربت کی وجہ سے قرض ادا نہیں کرپاتے۔ یہ ہماری ذمےد اری ہے کہ ہم ایسے غیرت مند غریبوں کو پہچانیں اور حسبِ موقع اور استطاعت ان پر مال خرچ کریں۔ صاحبِ استطاعت لوگوں کا مسکینوں پر مال نہ خرچ کرنا بھی ان کے لئے عذاب ِ جہنم کی ایک وجہ بن سکتا ہے، جیسا کہ ہم اس سوال و جواب میں دیکھتے ہیں:تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ۔ (المدثر: ۴۲؍۴۴)اگر ہم خود ان پر مال خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو  بھی ہمیں کم از کم جو لوگ صاحب ِ استطاعت ہیں ان کی توجہ ایسے مساکین کی طرف دلانی چاہئے کہ وہ ان کی مدد کریں۔ اگر ہم یہ بھی نہیں کرتے تو گویا ہم اپنے دین و ایمان کی خود ہی نفی کرتے ہیں اور ہماری یہ بے عملی یا لاپروائی بھی خود ہمارے لئے عذاب ِ جہنم کی ایک وجہ بن سکتی ہے:’’(حکم ہو گا) پکڑو اِسے اور اِس کی گردن میں طوق ڈال دو ،پھر اِسے جہنم میں جھونک دو ،پھر اِس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو ۔یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔‘‘ (الحاقہ:  ۳۰؍تا۳۴
مسافروں پر خرچ
 اقرباء، یتامیٰ اور مساکین کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ مال خرچ کرنے کے لئے وابن السبیل کا ذکر کرتا ہے۔ وابن  السبیل کا معنی ’راستے کا بیٹا‘ ہے۔ عربی زبان میں مسافر کے لئے محاورتاً ’راستے کا بیٹا‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تلقین کررہا ہے کہ ہم اپنا مال مسافروں پر بھی خرچ کریں۔ مسافر وہ بھی ہے جو اپنے کسی کام سے اپنے گھر سے دور کسی جگہ آیا ہوا ہو۔ مسافر وہ بھی ہے جو اپنی منزل کی جانب جاتا ہوا راستے میں رک کر آرام کرتا ہے اور مسافر وہ بھی ہے جو کسی سے ملنے کی خاطر اس کے گھر آکر ٹھہرتا ہے۔ ایسے سب مسافر دراصل مہمان ہوتے ہیں اور یہ سارے ہی مہمان باوجود اس کے کہ وہ خود صاحب ِاستطاعت یا صاحب ِ حیثیت ہوں، ہماری خاطر تواضع کے حقدار ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو مہمانوں کی خاطر تواضع کے چند بنیادی آداب سکھائے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہو تو وہ مہمان کا اکرام کرے۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق میزبان کو چاہئے کہ وہ پہلے دن مہمان کو اس سے اچھا کھلائے جیسا وہ خود کھاتا ہے اور  اگر مہمان مزید ٹھہرتا ہے تو میزبان جو کچھ بھی مہمان کو کھلاتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہے۔ اگر کوئی شخص اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کسی مسافر کی میزبانی کرسکے تو اسے چاہئے کہ کسی اور کو مسافر کی میزبانی کے لئے کہے۔  ایک دفعہ ایک مسافر رسولؐ اللہ کے پاس آیا اور کھانے کے لئے کچھ طلب کیا ، مگر اس وقت اُمہات المومنینؓ میں سے کسی کے بھی گھر میں سوائے پانی کے اور کچھ نہ تھا۔ آپؐ نے یہ نہیں کیا کہ معذرت کرلی بلکہ آپؐ کے پاس جو لوگ موجود تھے، ان سے پوچھا کہ کوئی اس مسافر کو ایک رات کے لئے مہمان بنا سکتا ہے؟ مختصر یہ کہ ایک صحابیؓ اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ گھر پہنچنے پر بیوی نے بتایا کہ صرف اتنا کھانا ہے کہ بچوں کو کھلایا جاسکے۔ اس صحابیؓ نے بیوی کو مشورہ دیا کہ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلادو ۔ چراغ بجھا دو ، اندھیرے میں مہمان کے سامنے کھانا رکھو، مسافر کھانا کھائے گا، جبکہ ہم صرف اپنا ہاتھ اور منہ چلائیں گے تاکہ مسافر یہ سمجھے کہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اگرچہ کھانا خود ان کی اپنی ضرورت سے بھی کم تھا مگر ان دونوں میاں بیوی نے مہمان کو اپنے اوپر فضیلت دی اور اس طرح اس کا اکرام کیا۔ ان کا یہ عمل اللہ کو اتنا پسند آیا کہ اللہ نے قرآن میں اس کا تذکرہ کرکے مسلمانوں کے لئے مہمان داری کاایک عظیم نمونہ رکھ دیا، فرمایا: ’’اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے، وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ الحشر:۹
مددکے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر خرچ
 وابن السبیل کے بعد فرمایا: والسائلین۔ سائلین جمع ہے سائل کی۔ سائل کے معنی ہیں پوچھنے والا یا سوال کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو سوال کرے یا مدد طلب کرے اس کی بھی ضرورت کو پورا کیا جائے: ’’اور سائل کو نہ جھڑکو۔‘‘ (الضحیٰ:۱۰)اسی طرح ایک جگہ اللہ نے جن لوگوں کی تباہی کی بات کی ہے ان میں وہ بھی شامل ہیں جو  عاریتاً مانگی گئی چیز دینے سے بھی انکار کردیتے ہیں:’’پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لئے،جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ،جو ریا کاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں ۔‘‘ (الماعون: ۴؍تا۷)اگر کوئی کسی مانگنے والے کو کچھ نہیں دینا چاہتا یا اگر دیتا بھی ہے تو ساتھ ہی سوال کرنے والے کو برابھلا بھی کہہ دیتا ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ مانگنے والے کی عزت نفس یا اس کے دل کو مجروح کئے بغیر خوش اسلوبی سے معذرت کرلے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے:’’ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو ۔‘‘ (البقرہ:۲۶۳)’’اگر اُن سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اُس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۸
غلاموں کی رہائی پر خرچ
 والسائلین کے بعد فرمایا: وفی الرقاب۔ رقاب جمع ہے رقبہ کی۔ رقبہ کے معنی گردن ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فرما  رہا ہے:کہ لوگوںکی گردنیں چھڑانے میں مال خرچ کیا جائے۔ دوسرے معنوں میں جو غلام ہوں یا غلام بنالئے گئے ہوں ان کی طرف سے فدیہ دے کر ان کو آزاد کرایا جائے۔  اسلام بنیادی طور پر آزاد لوگوں کو پکڑ کر غلام بنانے کا سخت مخالف ہے۔ ایک حدیث کے مطابق جو لوگ آزاد انسانوں کو زبردستی پکڑ کر غلام بنالیتے ہیں، سرکارؐ دوعالم  روزِ قیامت ایسے لوگوں کے خلاف غلاموں کے ولی و وکیل ہونے کا فریضہ انجام دیں گے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف انداز سے غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین کی ہے، مثلاً  اللہ  نے سورہ بلد میں گردن کے طوق کو کھولنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ 
مال کتنا اور کیسے خرچ کیا جائے؟
 یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے ضرورتمندوں پر مال خرچ کیا جائے، یہ فطری سوال اٹھتا ہے کہ ان پر کتنا اور کس طرح خرچ کیا جائے؟ اگرچہ اللہ نے یہاں اس کا جواب نہیں دیا ہے لیکن قرآن میں دوسری مختلف جگہوں پر ان کے جوابات ہمیں ملتے ہیں۔ ایک جگہ اسی سوال کا کہ کتنا مال خرچ کیا جائے، یہ فرماتے ہوئے جواب دیا گیا: ’’اور پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ  ہو۔‘‘  (البقرہ:۲۱۹)یعنی جو مال کسی کی اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ کس کی کیا ضروریات ہیں؟ اس کا صحیح علم تو خرچ کرنے والا ہی جانتا ہے لیکن اللہ جو عالم الغیب ہے، جانتا ہے کہ  انسان فطرتاً بخیل ہے:’’اے محمدؐ، اِن سے کہئے، اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے ،واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے ۔‘‘ 
(بنی اسرائیل:۱۰۰)اسی لئے وہ کہتا ہے کہ انسان نہ تو بالکل ہی مال روک کر بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی بے تحاشا خرچ کرکے ضرورت سے زیادہ فیاضی دکھائے، کہیں  ایسا نہ ہو کہ خرچ کرنے والا انسان بعد میں خود ہی اپنی حالت پر ملامت و حسرت کا اظہار کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ ۔‘‘ (بنی اسرائیل:۲۹)’’جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔‘‘ (الفرقان: ۶۷) دوسرے معنوں میں ان ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے میں میانہ روی کا طریقہ اپنایا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بخیلی کا مظاہرہ ہو یا اسراف کا مظاہرہ، دونوں ہی ناپسندیدہ کام ہیں۔
 مختصراً یہ کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان کو سمجھنا چاہئے کہ مال و اولاد تو آرام و آسائش کے وقتی سامان ہیں اور اللہ کی راہ میں انفاق جیسے اعمالِ صالحہ ہی آخرت کا سامان ہیں:’’یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنہی سے اچھی اُمیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ۔‘‘ (الکہف: ۴۶) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی راہ میں زیادہ سے زیادہ انفاق کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو انفاق ہم نے کیا ہے اس کو قبول فرمائے، آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK