محض ۱۸۳؍ دنوں کی اپنی میعاد میں جسٹس سنجیو کھنہ نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون، وقف قانون اور آئین کے دیباچے سےمتعلق کئی ایسے فیصلے سنائے جن کے اثرات دور رَس ثابت ہوسکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 18, 2025, 2:28 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
محض ۱۸۳؍ دنوں کی اپنی میعاد میں جسٹس سنجیو کھنہ نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون، وقف قانون اور آئین کے دیباچے سےمتعلق کئی ایسے فیصلے سنائے جن کے اثرات دور رَس ثابت ہوسکتے ہیں۔
منٹو ہوں یا مجاز، صابو صدیق ہوں یا وی پی سنگھ، ٹی این سیشن ہوں یا پھر جسٹس سنجیو کھنہ....اس قسم کی شخصیات کیلئے’عرصہ‘کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انہیں کام کرنے کیلئے جتنابھی وقت ملا، اس میں اتناکچھ کیا کہ دنیا ان کے کارناموں کو یاد رکھنے پر مجبور ہے۔
۱۱؍ نومبر۲۰۲۴ء کو جب جسٹس سنجیو کھنہ کی چیف جسٹس آف انڈیا کے طور پر حلف برداری ہوئی تو ملک کے موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے بہت کم لوگوں کو ان سے کسی انقلابی قدم کی توقع رہی ہوگی۔ ان کا ماضی بھی اس بات کا تقاضاکرتا تھا کہ ان سے زیادہ امیدیں نہ رکھی جائیں کیونکہ جسٹس سنجیو کھنہ اپنے آپ میں رہنےوالی ایک پُرسکون شخصیت کے مالک تھے۔ عوامی مجالس میں بھی ان کی شرکت بہت محدود تھی اور اپنے پیش رو جسٹس چندر چڈ کے مقابلے بیانات دینے سے بھی حتی الامکان گریز کرتے تھے۔ ایسے میں ان سے اس بات کی توقع کیوں کر کی جاسکتی تھی کہ حکومتِ وقت سے ٹکرانے کا کوئی جوکھم اٹھائیں گے... لیکن ان کی یہی عادت ان کی طاقت ثابت ہوئی۔ اس کا ثبوت انہوں نے جاتے جاتے یہ اعلان کر کے بھی دیا کہ سبکدوشی کے بعد وہ کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ شخصیت اگر صاف ستھری ہو اور آگے کوئی لالچ بھی نہ ہو تو اسے کون مجبور کرسکتا ہے۔
جسٹس سنجیو کھنہ کو سی جی آئی کے عہدے پر بیٹھے ابھی ٹھیک سے ۲؍ ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے کہ۱۹؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو سنبھل کی جامع مسجد کے حوالے سے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون(پلیسس آف ورشپ ایکٹ) پر بلڈوزر چلانے کی کوشش کی گئی۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی یقین دہانیوں کے باوجو د بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ سمیت ملک بھر کی کم از کم ایک درجن مساجد پر مقدمہ دائر کرکے مذکورہ قانون کو نشانہ بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس دوران کئی چیف جسٹس آئے اور اپنی مدت پوری کرکے رخصت بھی ہو گئے مگر کسی نے اس روش کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ سنبھل کی جامع مسجد پر مقدمہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کی وجہ سے گزشتہ سال۲۴؍ نومبر کو فرقہ وارانہ فساد بھی برپا ہوا۔ اس کے ایک ہفتے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا۔
جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت والی تین ججوں کی بنچ نے دسمبر میں اس پر ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے اس قانون کے تحت تمام معاملات پر تا حکم ثانی روک لگا دی۔ ان میں سے کئی مقدمات برسوں سے زیر التوا تھے۔ جسٹس سنجیو کھنہ کے بنچ نے حکومت کی مرضی کے خلاف اپنے حکم میں کہا کہ جب تک سپریم کورٹ میں ان مقدمات کی سماعت مکمل نہیں ہو جاتی، کوئی بھی عدالت ان معاملات پر کوئی کارروائی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس تعلق سے کوئی نیا مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد مساجد پر دعوؤں کا جو ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا تھا، روک لگ گئی۔ حالانکہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے، اس کے باوجود مسلمانوں کو اس فیصلے سے کافی راحت ملی۔
جسٹس سنجیو کھنہ جس وقت یہ فیصلہ لکھوا رہے تھے، سالیسٹر جنرل تشار مہتاسمیت حکومت کے حامی وکلاء نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ اس پر جسٹس سنجیو کھنہ نے قدرے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ہم اس طرح سے کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتے، اگر آپ ہمیں عدالت میں اپنا حکم لکھوانے کی اجازت نہیں دیں گے تو ہم اپنے چیمبر میں بیٹھ کر فیصلہ دیں گے۔ ‘‘ عدالت کے اس فیصلے نے مندر مسجد تنازع کے معاملات پر عبوری روک تو لگا دی ہے تاہم اس تعلق سے حتمی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
جسٹس سنجیو کھنہ کے سامنے دوسرا بڑا معاملہ وقف ترمیمی قانون کا آیا۔ اکثریت کے زعم میں مودی حکومت نے وقف قانون میں کئی تبدیلیاں کر کے اسے قانونی شکل عطا کردی تھی۔ اس کے بعد اس تعلق سے کئی عرضیاں سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں۔ سال رواں میں ۱۶؍اپریل کو جسٹس کھنہ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی۔ دوران سماعت سنجیو کھنہ نے اشارہ کیا کہ وہ اس قانون کے۲؍ دفعات ( بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت اور’وقف بائی یوزر‘ یعنی وہ جائیداد جو طویل عرصے سے مذہبی استعمال میں ہے، بھلے ہی اس کے دستاویز نہ ہوں ) پر عبوری روک لگانے پر غور کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے اس کی مخالفت کی البتہ عدالت عظمیٰ کے روبرو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ فی الحال وہ ان دونوں دفعات پر عمل درآمد نہیں کرے گی۔ عدالت نے حکومت کی اس یقین دہانی کو ’آن ریکارڈ‘ لے لیا اور ملک کے مسلمانوں کو بڑی راحت فراہم کی۔
وقف معاملے پرعدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے حکمراں جماعت بوکھلا سی گئی تھی۔ اسی بوکھلاہٹ میں بی جے پی کے رکن پارلیمان نشی کانت دوبے نے نہایت سخت تبصرہ کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’اس ملک میں ہونے والی تمام خانہ جنگیوں کیلئے چیف جسٹس سنجیو کھنہ ذمہ دار ہیں۔ ‘‘
جسٹس کھنہ کے سامنے آئین کے دیباچے میں شامل الفاظ ’سوشلسٹ‘ اور ’سیکولر‘ کو ہٹانے سے متعلق بھی کچھ عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ عرضی گزاروں کا کہنا تھا آئین کی تمہید میں یہ دونوں الفاظ بعد میں شامل کئے گئے تھے۔ جسٹس کھنہ نے ا ن اپیلوں کو یہ کہہ کر خارج کردیا تھا کہ بھلے ہی یہ الفاظ بعد میں شامل کئے گئے ہیں لیکن اس میں نیت اچھی اور مقصد نیک ہے۔ جسٹس سنجیو کھنہ کے اُس فیصلے کی بھی خوب چرچاہوئی جس میں انہوں نے اترپردیش پولیس کی بہترین انداز میں گوشمالی کی تھی۔ ایک کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے اترپردیش پولیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں عام سول معاملات کو بھی فوجداری کیس بنادینے کی ایک روش اختیار کرلی گئی ہے۔ اس تعلق سے انہوں نے حکومت پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
ان کا ایک تازہ معاملہ ابھی حال ہی میں سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما (جن کے گھر سے نقدی کا ذخیرہ ملا تھا)کو استعفیٰ دے دینے یا پھر مواخذہ کی تحریک کا سامناکرنے کا انتباہ دیا تھا۔ حالانکہ یشونت ورما نے ان کے مشورے کو قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد ان کے تعلق سے قائم کی گئی کمیٹی کی رپورٹ کو جسٹس سنجیو کھنہ نے صدر جمہوریہ اور وزیراعظم کے حوالے کردیا۔ فی الحال یہ معاملہ التوا میں ہے لیکن ایک سٹنگ جج کے تعلق سے اتنا بڑا فیصلہ سنانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
بطور ایک جج ۱۹۸۳ء میں اپنا کریئر شروع کرنے جسٹس کھنہ کے پہلے کے بھی کچھ فیصلے بہت اہم رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جس بنچ نے الیکٹورل بانڈ سے متعلق تاریخ ساز فیصلہ سنایا تھا، جسٹس کھنہ بھی اس کے ایک رکن تھے۔ اس اہم فیصلے نے مرکزی حکومت کی نیند حرام کردی تھی۔ اسی طرح سپریم کورٹ نےمودی حکومت کے اہم پروجیکٹ سینٹرل وِسٹا کو جنوری۲۰۲۱ء میں منظوری دی تھی۔ اس کے تحت باقی تعمیرات کے علاوہ دہلی میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت بھی بنائی گئی ہے۔ تین ججوں کی بنچ نے یہ فیصلہ۲۔ ۱؍ کی اکثریت سے دیا تھا۔ جسٹس کھنہ نے اس معاملے میں اکثریتی فیصلے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
علاوہ ازیں وی وی پیٹ اور دفعہ ۳۷۰؍ کوختم والی بنچ میں جسٹس کھنہ شامل تھے جس میں فیصلہ حکومت کے حق میں آیا تھا۔