Inquilab Logo Happiest Places to Work

جنگ کی آڑمیں دیش بھکتی کا ہندوتوا ساختہ معیار

Updated: May 18, 2025, 2:28 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

اس معیار پرہمانشی نروال اوروکرم مسری کو بھی پورا اترنا ہوگا، اگر وہ پورا نہیں اترتے توحکومت بھی ان کیلئے کچھ نہیں کرسکتی، یہ قابل افسوس ہے۔

Himanshi Narwal and Vikram Masri. Photo: INN.
ہمانشی نروال اور وکرم مسری۔ تصویر: آئی این این۔

نیتی تال میں گزشتہ مہینے ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں ایک مسلم شخص کو گرفتارکیاگیاتھا۔ اس کی گرفتاری قانونی تھی لیکن اس کے بعدجو کچھ ہوا قانونی نہیں، بلکہ مخصوص ذہنیت رکھنے والوں کی شرپسندی تھی۔ اس کی گرفتاری کے بعدشرپسند باہرنکلے۔ مسلم علاقے میں دندناتے پھرے ۔ مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی، ا نہیں مارا پیٹا، مسجدوں پر پتھراؤ کیا، مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی جس کے ویڈیوز منظر عام پر آئے ہیں اوریہ بتانے کی کوشش کی کہ تمہاری جماعت کاایک فردبھی اگر ملزم ہےتو اس کی سزا پوری کمیونٹی کو بھگتنی ہوگی۔ اس شخص پر عائد الزام پر نہ تو کسی کو اعتراض ہے، نہ ہی اس کی گرفتاری پر۔ اعتراض اس کے بعدہونے والی شر پسندی پر ہے، اعترا ض اس کے بعدشرپسندوں کو ملنے والی کھلی چھوٹ پر ہے۔ اگرپہلاواقعہ قانون کے خلاف اور ناقابل قبول ہے تو اسے بنیاد بناکر جس لا قانونیت کامظاہرہ کیاگیاوہ بھی ناقابل قبول ہے۔ ایسی شرپسندی پر اتراکھنڈ حکومت سے تو کوئی توقع نہیں تھی لیکن شیلا نیگی جیسے انسانیت کے علمبردار ابھی زندہ ہیں۔ اس ہندو خاتون نے ایسی لاقانونیت کے خلاف نہ صرف پُر زور طریقے سے آواز اٹھائی بلکہ ایسے انسانیت کے دشمن عناصر کے درمیان رہتے ہوئے ہندومسلم اتحاد کا پیغام دیا۔ اب اس پیغام پر بھی جو عین ملک کے سیکولر آئین کاتقاضا ہے، شیلا نیگی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بیٹھے شرپسندوں کی زد میں آگئیں اور انہیں آبرو ریزی تک کی دھمکیاں دی گئیں۔ نینی تال میں مسلمانوں کےخلاف شرپسند جب یہ ہنگامہ کر رہے تھےتب انہوں نے مسلم خواتین کے خلاف نا زیبا نعرے لگائے تھے۔ شیلانیگی نے اپنے ایک بیان میں اس کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم ایسے ماحول میں کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں جب ایک بچی کے جنسی استحصال کے خلاف احتجاج کرنے والے دوسرے فرقے کی خواتین کے خلا ف ایسی غیر مناسب نعرے بازی کریں۔ ‘‘ 
پہلگام حملے میں شہید ہونے والے نیوی افسر ونئے نروال کی اہلیہ ہمانشی نروال عزم و استقامت کی مثال ثابت ہوئیں ۔ انہوں نے وہ منظر دیکھا جسے دیکھنے کی تاب رکھنا ہرایک کے بس کی بات نہیں۔ ان کے شوہر کی لاش ان کے پاس پڑی تھی اوروہ سرہانے بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ تصویر پہلگام کے سفاکانہ حملے کی ایک علامت بن گئی۔ اس تصویر کا استعمال دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلئے کیاگیا۔ یہاں تک تو ٹھیک ہےلیکن اس کے بعد جو ہوااس میں وہی عناصر اور وہی ذہنیت منظر عام پر آگئی جو ملک کیلئے اس وقت سب سے زیادہ خطرہ بنی ہوئی ہے۔ ہمانشی نروال اپنےشوہر کی آخری رسوم کے کچھ دنوں بعد پریس کانفرنس میں سامنے آئیں اورپہلگام حملے کے نام پر مسلمانوں اور کشمیریوں کو نشانہ بنانے والے عناصر کویہ کہتے ہوئے یکلخت خاموش کردیا کہ مسلمان اورکشمیری ہمارے اپنے ہیں ، کوئی کارروائی کی جانی چاہئے تو حملہ آوروں کے خلاف کی جانی چاہئے۔ 
ہمانشی نروال کا یہ پیغام بھی ہندوتوا بریگیڈ کو ہضم نہیں ہوا اورشہید کی بیوہ کو نشانہ بنانے سے بھی وہ نہ چوکے۔ حالانکہ یہ وقت ان کے ساتھ ہر لحاظ سے اظہار یکجہتی کا تھا۔ ایک عورت اپنی کھلی آنکھوں کے سامنے سفاکیت دیکھنے اور اس کا شکار ہونے کے بعد اگر فرقہ وارانہ ا تحاد اور انسانیت کی بات کرتی ہےتواس سے بڑھ کر محب وطن اور انسانیت نواز  اور کون ہو سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے نشانہ بنانے والے ہی ملک و قوم اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ 
ایسا ہی کچھ خارجہ سیکریٹری وکرم مسری اور کرنل صوفیہ قریشی کے ساتھ بھی ہوا۔ ۱۰؍ مئی کو ہندوستان اورپاکستان کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کرنےکے بعد وکرم مسری ہندو توا عناصر اور نام نہاد دیش بھکتوں کی زد میں آگئے۔ یہ عناصر وکرم مسری کی بیٹی کو بھی نشانہ بنانے سے پیچھے نہیں ہٹےجووکیل ہیں اورروہنگیا کمیونٹی کے نمائندوں کی پیروی کرچکی ہیں۔ افسو س کی بات یہ ہے کہ وکرم مسری کو حکومتی سطح پر اس معاملے میں کوئی حمایت نہیں ملی۔ ان کے خلاف اس مہم کی سرکاری سطح پر کوئی مذمت نہیں کی گئی حالانکہ جنگ بندی کا اعلان انہوں نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے کیا تھا۔ یہاں ہندوتواعناصر کی سیاست کا معیار دیکھئے کہ انہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ حکومت کاکوئی نمائندہ کیا کہہ سکتا ہے اورکیا کرسکتا ہےاور یہ بھی کہ وہ حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے!!یہ کون سی ذہنیت ہے؟ 
کرنل صوفیہ قریشی کو نشانہ بناناپہلگام حملہ اور اس کے بعدحب الوطنی کا معیارطے کرنے کے شرپسندوں کے اپنے اقدام کی بدترین مثال تھی۔ مدھیہ پردیش کے قبائلی امور کے وزیر وجے شاہ نے انتہائی بدزبانی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ’دہشت گردوں کی بہن ‘ قراردیا۔ یہ تنازع ابھی جاری ہی تھا کہ مدھیہ پردیش کے نائب وزیراعلیٰ جگدیش دیوڑا کرنل صوفیہ قریشی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے وزیر اعظم مودی کے گن گان کرنے لگے۔ وجے شاہ اور جگدیش دیوڑا کے بیانات حقیقت میں فوج کی توہین کے مترادف ہیں ۔ 
پہلگام حملے اورآپریشن سیندور کے بعدیہ کہنا کہ فوج اور اس کے جوان مودی کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں، فوج کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔ یعنی یہ کیا یہ مان لیاجائے پہلگام حملے سے لےکراب تک جو کچھ ہوتا آیا ہے، اس کا مقصد مودی کو ’مسیحا‘ بناکر پیش کرنا ہے۔ آپریشن سیندور کی کامیابی پر جو اشتہارات شائع ہوئے ہیں ان میں مودی کو فوج کی وردی میں دکھایا گیاہے، گویا سرحد پر جا کر لڑائی بھی انہوں نے کی ہے! طیارے بھی انہوں نے اڑائے ہیں اور گولیاں بھی انہوں نے ہی چلائی ہیں۔ 
ہندوتوا عناصر کی یہ ذہنی بیماری ہےجس کا کوئی علاج نہیں لیکن اتنا تو آج ہر انصاف پسند جان گیا ہےکہ یہ عناصرملک اور معاشرے کوکسی جنگ سے زیادہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور یہ بھی پوری طرح واضح ہوچکا ہےکہ ان عناصر کے خلاف حکومت کوئی اقدام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ حکومت نےپہلے دوخواتین سے پریس کانفرنس کروادی، بعد میں فوج کے اعلیٰ حکام نے لگاتار دودن میڈیا سے خطاب کر لیا۔ بعد ازاں وزیراعظم مودی رات میں ۸؍ بجے اپنے پیغام کےساتھ ظاہر ہوگئے۔ بس اتنا کافی ہے۔ شرپسندوں کی مذمت میں کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوگی، ان سے سماج میں زہر پھیل رہا ہے، اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں ہوگی۔ مذکورہ سبھی معاملوں میں کسی مرکزی وزیر نےشر پسندوں کے  بیان واقدام کی کوئی مذمت نہیں کی ہے۔ وزیراعظم کوتو جانے دیں، وہ خود کو اوتار قرار دے چکے ہیں اور خوش ہیں کہ انہیں ’مسیحا ‘ بھی بنادیاگیا ہے۔ دیش بھکتی کی آڑ میں یہ جوانسانیت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ توجنگ کی آڑ میں حب الوطنی کا ہندوتوا ساختہ معیار ہے۔ اس معیار پر اگر ہمانشی نروال پوری نہیں اُترتیں توان کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK