Inquilab Logo Happiest Places to Work

اللہ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے!

Updated: November 03, 2023, 12:37 PM IST | Abdul Sattar Munhajin | Mumbai

قرآنِ مجید میں لفظ ’الرحمٰن‘۴۸؍ مرتبہ اور ’الرحیم‘ ۳۴؍ مرتبہ آیا ہے، جبکہ لفظ ’جبار‘ صرف ایک بار اور لفظ ’قہار‘ کل ۶؍ مرتبہ آیا ہے۔

In the matter of preaching the religion, we should keep this principle in mind that Allah Ta`ala has ordered to create ease. Photo: INN
دین کی تبلیغ کے معاملے میں ہمیں یہی اُصول مدنظر رکھنا چاہئےکہ اللہ تعالیٰ نے آسانیاں پیدا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔تصویر:آئی این این

اللہ اور بندے کے درمیان رشتہ اور تعلق رحمت و محبت پر اُستوار ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ ربّ العزت نے ہمیشہ ہمیں اپنے رحمٰن و رحیم کے صفاتی ناموں کے ساتھ پکارنے کو کہا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے خود اپنے کلام مجید میں فرمایا ہے کہ اُس کی رحمت ہر شے پر غالب ہے اور ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔ قرآن مجید میں رب العالمین کا ارشاد ہے، فرمایا: ’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔‘‘ (الاعراف:۱۵۶)
اِس لئے ہمیں یہ پختہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ وہ دن سب سے بہتر دن ہوگا جب ہم اپنے ربّ سے ملیں گے۔ کیونکہ جب ہم اِس دُنیا سےکوچ کریں گے تو اَرحم الراحمین کے ہاتھوں میں ہوں گے، وہ ربِ رحمٰن جو ہم پر ہماری ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی کوئی ماں اپنے بچے پر مہربان ہوسکتی ہے۔‘‘ 
(صحيح البخاري)
جیسے تمام اِنسانوں کی شکل و صورت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتیں الگ الگ ہوتی ہیں ، اِسی طرح اُن کے جذبات و اِحساسات اور کیفیات بھی ایک دُوسرے سے الگ ہوتی ہیں ۔ آخرت میں اللہ ربّ العزت ہر شخص کے ساتھ رحمت کا برتاؤ کرے گا اور اُس کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں ، احساسات و جذبات اور کیفیات کے تناظر میں ہی اُس سے حساب لے گا اور کسی کو ایسے کسی معاملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا جس کی وہ زمینی زندگی کے دوران صلاحیت نہیں رکھتا 

تھا۔ ہر شخص اپنے زمانے اور خطے کی اِیجادات اور سہولیات کے تناظر میں اپنے اَعمال کا جوابدہ ہوگا تاہم اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا مؤمنین کا وطیرہ نہیں ہے اور اللہ ربّ العزت نے اپنے گناہگار بندوں کو اپنی رحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا ہے:
’’آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقیناً بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘(الزمر:۵۳)
موت کا منظر: مرنے کے بعد کیا ہوگا؟
موت کے متعلق بیسویں صدی میں لکھی گئی کچھ کتابوں نے لوگوں کے سامنے خالقِ کائنات کا ایسا خوفناک چہرہ رکھا جس سے وہ شعوری و لاشعوری طور پر اُس کی رحمت سے مایوس ہوتے چلے گئے اور اُسے صرف عذاب دینے والا خدا سمجھنے لگے۔ جبکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے عام معاملات میں بھی لوگوں کو ڈرانے، خوفزدہ کرنے اور اُن کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے منع فرمایا اور لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے اور اُنہیں خوش کرنے کو کارِ ثواب قرار دیا۔ ارشاد فرمایا: ’’آسانياں پیدا کرو اور تنگیاں پیدا نہ کرو، لوگوں کو خوشخبری دو اور نفرت کرنے والا بیزار نہ بناؤ۔‘‘ (صحیح بخاری)
چنانچہ دین کی تبلیغ کے معاملے میں بھی ہمیں یہی اُصول مدنظر رکھنا چاہئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اِس حکم کے باوجود اگر ہم دین میں سختی اور جبر والا معاملہ کریں تو لامحالہ لوگ دین سے دُور بھاگیں گے۔ جب ہم اللہ پر اِیمان رکھنے والے اور اُس کے اَحکامات پر حتی الامکان عمل کرنے والے بندے ہیں تو یقیناً ہم اُس کے ساتھ دوستی کے خواہاں ہیں اور اُس کے دُشمنوں سے نالاں ہیں ۔ ایسے بندوں کو ڈرانے کیلئے اُن کے سامنے خدا کو قہر برسانے والا بناکر پیش کرنا دراصل ایک زبردستی کے اور بے اصل خوف میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔
ایک حدیثِ قدسی میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے :
’’ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں ۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکر خفی) کرے تو میں بھی (شایانِ شان طریقے سے) اپنے دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں ، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (یعنی ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت (یعنی فرشتوں ) میں اس کا ذکر کرتا ہوں ۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں ۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں ۔‘‘ (صحیح بخاری)
ایسا ربّ جس کی رحمت اپنے بندوں کو بخشنے کیلئے بے قرار ہو اُسے صرف عذاب دینے والے کے رُوپ میں پیش کرنا دین کی خدمت نہیں بلکہ لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے مترادف ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
’’یارسول اللہ! روزِ قیامت مخلوق سے کون حساب لے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ۔ وہ کہنے لگا: کیا واقعی اللہ (خود حساب لے گا)؟ فرمایا: ہاں ! خود اللہ حساب لے گا۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا: رب کعبہ کی قسم! پھر تو ہم نجات پا گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اعرابی! وہ کیسے؟ اس نے کہا: وہ اس طرح کہ (اللہ سب سے کریم ہے اور) جب کوئی کریم (شخص) کسی پر غالب آتا ہے تو وہ اُسے معاف کر دیتا ہے۔‘‘ 
(البيهقي في شعب الايمان)
ہمیں یہ اِیمان رکھنا چاہئے کہ جو خدا ہر اچھے کام کا آغاز بسم اللہ کے طور پر رحمٰن و رحیم کی صفات سے یاد کرکے شروع کرنے کا حکم دے، ایسا کیونکر ممکن ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اپنی رحمت کی بجائے غضب سے پیش آئے!یاد رہے اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اُس کی رحمت اُس کے غضب پر حاوِی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے پاس عرش کے اوپر لکھ دیا: بے شک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
 قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والے اللہ ربّ العزت کے صفاتی ناموں کو سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اللہ ربّ العزت کی کون سی صفت کس مفہوم میں وارِد ہوئی ہے۔ سیاق و سباق ہمیں واضح کرتا ہے کہ خدا صرف اپنے دُشمنوں پر قہر برسانے والا ہے، جبکہ مؤمنین کیلئے سراپا رحمٰن و رحیم ہے۔ قرآنِ مجید میں ہر سورہ سے قبل بسم اللہ پڑھتے وقت اللہ ربّ العزت کو ’’الرحمٰن الرحیم‘‘ کی صفات کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآنِ مجید میں لفظ ’’الرحمٰن‘‘ ۴۸؍ مرتبہ اور ’’الرحیم‘‘ ۳۴؍ مرتبہ آیا ہے، جبکہ لفظ ’’جبار‘‘ صرف ایک بار اور لفظ ’’قہار‘‘ کل ۶؍ مرتبہ آیا ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ خدا نے خود کو کہیں بھی ظالم نہیں کہا۔ اللہ ربّ العزت کا ایک صفاتی نام ’’جبار‘‘ ہے، جس کا معنی مجبور کر دینے والا ہے، نہ کہ ظلم کرنے والا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK