پچھلے پانچ برسوں میں گھریلو قرض کی شرح تقریباً دوگنا ہو گئی ہے۔ شہری علاقوں میں ۴۰؍ فیصد افراد ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نہ کسی لون کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔
EPAPER
Updated: October 19, 2025, 1:17 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
پچھلے پانچ برسوں میں گھریلو قرض کی شرح تقریباً دوگنا ہو گئی ہے۔ شہری علاقوں میں ۴۰؍ فیصد افراد ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نہ کسی لون کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔
ریٹائرمنٹ کا مطلب ہمیشہ سے سکون، فراغت اور قرض سے آزادی سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج کے ہندوستان میں بڑھتے قرضے اور ای ایم آئی کا جال اس تصور کو بدل رہے ہیں۔ متوسط طبقے کے لاکھوں لوگ جب اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ ای ایم آئی کی پرچیاں بھی ریٹائرمنٹ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ یہ نیا منظرنامہ ہماری معیشت اور سماج دونوں پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ ہندوستان میں ’اپنا گھر‘ ہر شخص کا خواب ہے مگر جائیداد کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اس خواب کو صرف ہاؤسنگ لون کے ذریعے ممکن بناتا ہے۔ یہ لون اکثر ۱۵؍ سے ۲۵؍ سال تک چلتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے ۴۰؍ سال کی عمر میں مکان خریدا تو ریٹائرمنٹ تک اس کی قسطیں چلتی رہیں گی۔ اسی طرح بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے ایجوکیشن لون ایک لازمی سہارا بن گیا ہے۔ کئی والدین اپنی ملازمت کے آخری برسوں میں بھی بیٹے یا بیٹی کے پڑھائی کیلئے لئے گئے قرضے اتارتے ہیں۔ شادی بیاہ کے اخراجات، کار لون اور کریڈٹ کارڈ کی قسطیں بھی اس فہرست کو مزید طویل کرتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ای ایم آئی زندگی کے ہر موڑ پر متوسط طبقے کے ساتھ ’جڑ‘ گیا ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی ۲۰۲۴ء کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے پانچ برسوں میں گھریلو قرض کی شرح تقریباً دوگنا ہو گئی ہے۔ شہری علاقوں میں ۴۰؍ فیصد ایسے افراد ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نہ کسی لون کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ میٹرو شہروں میں صورتحال زیادہ سنگین ہے۔ ممبئی، دہلی اور بنگلور میں اوسط ہاؤسنگ لون کا بوجھ ۵۰؍ لاکھ روپے سے زائد ہے۔ اس کے مقابلے میں اوسط ماہانہ پنشن یا ریٹائرمنٹ کے فوائد، قرضوں کا صرف ایک حصہ ہی پورا کر پاتے ہیں۔ فنانشیل ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق: دہلی کے روی کمار، جو حال ہی میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے، بتاتے ہیں کہ ’’مَیں نے ۲۰۱۰ء میں مکان خریدا تھا، سوچا تھا کہ ریٹائرمنٹ تک قرض اتر جائے گا مگر آج بھی آٹھ سال کا ای ایم آئی باقی ہے۔ پنشن کا بڑا حصہ اسی میں چلا جاتا ہے۔ ‘‘ ممبئی کی شبنم علی جو ایک بینک کی سابق ملازمہ ہیں، کہتی ہیں کہ ’’بیٹے کے ایجوکیشن لون کی قسط ابھی تک چل رہی ہے۔ میری پنشن میں سے ہر ماہ کچھ حصہ کٹ جاتا ہے۔ بڑھاپے میں سکون کے بجائے یہ ذمہ داری اور دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ‘‘ایسی مثالیں اب عام چکی ہیں اور یہ مسئلہ صرف شہروں تک محدود نہیں رہا۔ نیم شہری علاقوں میں بھی یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد عام طور پر لوگوں کی آمدنی محدود ہو جاتی ہے۔ مگر جب ای ایم آئی جاری رہتا ہے تو پنشن اور بچت قرضوں میں ختم ہو جاتی ہے، صارفین کی قوتِ خرید گھٹتی ہے، جس سے مقامی کاروبار اور مارکیٹ متاثر ہوتے ہیں، اور ہیلتھ کیئر اخراجات مشکل ہو جاتے ہیں کیونکہ ریٹائر افراد کے پاس صحت کیلئے علاحدہ بجٹ نہیں بچتا۔ یہ تمام عوامل معیشت میں ایک نیا دباؤ پیدا کر رہے ہیں، خاص طور پر متوسط طبقے کے مالی ڈھانچے پر۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سکون اور فراغت کی توقع رکھنے والے افراد قرض کی وجہ سے مسلسل دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان میں ذہنی تناؤ، بے چینی اور صحت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ کئی بار نئی نسل کو بھی والدین کے قرض اتارنے میں ہاتھ بٹانا پڑتا ہے، جس سے ان پر اضافی بوجھ آتا ہے۔ ای ایم آئی ریٹائرمنٹ صرف ایک مالی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی حقیقت بھی بنتا جا رہا ہے۔
اس کا حل کیا ہے؟ ای ایم آئی ریٹائرمنٹ کے بڑھتے مسئلے کا حل فوری اور طویل المدتی دونوں سطحوں پر نکالنا ضروری ہے۔ ماہرین ان نکات پر توجہ دینے کی ترغیب دیتے ہیں :
(۱) مالی منصوبہ بندی: اس کیلئے نوجوانی ہی سے بچت اور سرمایہ کاری کی عادت ڈالنا لازمی ہے۔
(۲) وقت سے پہلے سرمایہ کاری: پنشن فنڈ، میوچوئل فنڈ اور انشورنس میں وقت پر سرمایہ کاری کر کے قرض کے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔
(۳) ری فنانسنگ اسکیمیں : حکومت اور بینکوں کو چاہئے کہ سینئر سٹیزن کیلئے کم سود پر ری فنانسنگ کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ بوجھ ہلکا کر سکیں۔
(۴) ڈجیٹل بجٹ مینجمنٹ: آج کل کئی ایپس موجود ہیں جو ای ایم آئی کیلکولیٹر اور اخراجات کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کا استعمال زیادہ عام ہونا چاہئے۔
ہندوستانی متوسط طبقہ ایک نئے دوراہے پر کھڑا ہے۔ جہاں ایک طرف بہتر لائف اسٹائل اور سہولتوں کیلئے قرض لینا مجبوری بن چکا ہے، وہیں دوسری طرف بڑھاپے تک اس کے اثرات سہنا ایک کڑوی حقیقت ہے۔ ریٹائرمنٹ کا مطلب قرض سے آزادی ہونا چاہئے نہ کہ ای ایم آئی کا غلام بن جانا۔ نئی نسل کیلئے یہ ایک بڑا سبق ہے کہ اگر وہ قرض لیں تو اس کی منصوبہ بندی اس طرح کریں کہ بڑھاپے میں سکون، صحت اور خوشی باقی رہے۔