• Sun, 19 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اس ہفتےغزہ۔ اسرائیل معاہدہ اور ہریانہ میں آئی پی ایس افسر کی خودکشی نمایاں رہے

Updated: October 19, 2025, 1:20 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

سب سے زیادہ توجہ لالو یادو کے خلاف دہائیوں پرانے الزامات کی بنیاد پر شروع ہونے والی عدالتی کارروائی نے حاصل کی، جبکہ پورن کمار کی خودکشی نے ایک بار پھر ذات پات کے دیرینہ زہر کو اجاگر کیا ہے۔

Lalu has already served his sentence in the case but still enjoys immense popularity among the backward classes and minorities. Photo: INN
لالو پہلے ہی مقدمے میں سزا کاٹ چکے ہیں لیکن آج بھی پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے درمیان غیر معمولی مقبولیت رکھتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

رواں ہفتہ غیر اردو اخبارات میں جن موضوعات نے نمایاں مقام حاصل کیا ان میں اسرائیل، حماس جنگ بندی، لالو پرساد یادو کے خلاف عدالتی کارروائی، مایاوتی کی جانب سے یوگی حکومت کی تعریف، ہریانہ کے افسر پورن کمار کی مبینہ خودکشی اور ہندوستان و کابل کے درمیان بڑھتی دوستی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ توجہ لالو یادو کے خلاف دہائیوں پرانے الزامات کی بنیاد پر شروع ہونے والی عدالتی کارروائی نے حاصل کی، جبکہ پورن کمار کی خودکشی نے ایک بار پھر ذات پات کے دیرینہ زہر کو اجاگر کیا ہے۔ ادھر اسرائیل۔ حماس جنگ بندی پر شکوک و خدشات ظاہر کرتے ہوئے اخبارات نے اسرائیل کی وعدہ خلافیوں پر تنقید کی۔ اسی دوران پی۔ چدمبرم کی جانب سے سابق وزرائے اعظم اندرا گاندھی اور من موہن سنگھ پر تنقید کو غیر مناسب اور سیاسی طور پر محرک قرار دیا گیا۔ 
انصاف کا دُہرا معیار عوام کے اعتماد کو متزلزل کرتا ہے
دی فری پریس جنرل( انگریزی، ۱۵؍اکتوبر)
’’بہار کی سیاست ایک بار پھر غیر معمولی ہلچل سے دوچار ہے۔ ایک طرف آر جے ڈی، کانگریس اور ان کے اتحادیوں نے اسمبلی انتخابات کیلئے سیٹوں کی تقسیم کا باضابطہ اعلان کر کے انتخابی مہم کا بگل بجا دیا ہےتو دوسری جانب دہلی کی ایک عدالت نے آر جے ڈی کے بانی اور سابق وزیر ریل لالو پرساد یادو، ان کی اہلیہ رابڑی دیوی اور بیٹے تیجسوی یادو پر بدعنوانی اور مجرمانہ سازش کے الزامات میں فردِ جرم عائد کر دی ہے۔ یہ مقدمہ تقریباً ۲۰؍ سال پرانے الزامات پر مبنی ہے جن کے مطابق ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۹ء کے دوران جب لالو یادو ریلوے کے وزیر تھے اُس وقت انڈین ریلوے کیٹرنگ اینڈ ٹورزم کارپوریشن کے دو ہوٹلوں کے ٹھیکے مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر دیئے گئے۔ سی بی آئی کا دعویٰ ہے کہ ان ٹھیکوں کے بدلے لالو خاندان نے ایک بے نامی کمپنی کے ذریعے قیمتی زمین حاصل کی تھی۔ اگرچہ الزامات سنگین ہیں مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سی بی آئی کی کارروائیاں اکثر سیاسی حالات کے زیراثر نظر آتی ہیں۔ ماضی میں بھی یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ ایجنسیوں کی سرگرمیاں محض قانونی عمل نہیں بلکہ سیاسی اشاروں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ لالو یادو جو پہلے ہی چارہ گھوٹالہ جیسے تاریخی مقدمے میں سزا کاٹ چکے ہیں، آج بھی پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے درمیان غیر معمولی مقبولیت رکھتے ہیں۔ یہی مقبولیت شاید ان کے مخالفین کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ اس نئے مقدمے نے آر جے ڈی کیلئے ایک سخت سیاسی امتحان کھڑا کر دیا ہے۔ دوسری طرف عوام میں یہ سوال زور پکڑ رہا ہے کہ وہ سیاست داں جو خود بدعنوانی کے الزامات میں گھرے رہے لیکن بی جے پی میں شمولیت کے بعد اچانک ’صاف ستھرے‘ قرار پائے ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ انصاف کا یہ دُہرا معیار عوام کے اعتماد کو متزلزل کرتا ہے اور سیاسی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آر جے ڈی نے اس بار احتجاجی سیاست یا اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرتے ہوئے قانونی راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی کا مؤقف ہے کہ عدالت میں دفاع پیش کریں گے اور سچ سامنے لائیں گے۔ ‘‘
امن کےپائیدار ہونے پر شکوک و شبہات ہیں 
جن ستہ( ہندی، ۱۵؍اکتوبر)
’’دو برس کی مسلسل جنگ تباہی اور خونریزی کے بعد بالاخر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق تاریخی معاہدے پر اتفاق رائے سامنے آیا ہے۔ یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ کے افق پر امن کی ایک نازک مگر روشن کرن کے طور پر ابھری ہے۔ اس معاہدے کے مطابق حماس اپنے زیر حراست تمام زندہ یرغمالیوں کو آزاد کرے گی جبکہ اس کے بدلے اسرائیل فلسطینی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو رہا کرے گا۔ ساتھ ہی اسرائیلی فوجیں غزہ کی پٹی سے متعین حدود تک واپس چلی جائیں گی۔ امریکہ نے اسے اپنے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کا ابتدائی مرحلہ قرار دیتے ہوئے ’پائیدار اور حقیقی امن‘ کی جانب پہلا قدم کہا ہے۔ ہندوستان، برطانیہ اور متعدد عالمی قوتوں نے اس معاہدہ کا خیرمقدم کیا ہے لیکن بین الاقوامی حلقوں میں اب بھی اس کےپائیدار ہونے پر شکوک و شبہات ہیں۔ یہ شکوک بےجا بھی نہیں کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اختلافات محض سرحدی یا سیاسی نوعیت کے نہیں بلکہ عقیدے، تاریخ اور باہمی عدم اعتماد کی گہری جڑوں سے جڑے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل حماس کو ایک جائز سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کرے گا؟ اور کیا حماس اسرائیل کے وجود کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگا؟ یہی وہ بنیادی نکات ہیں جو اس امن عمل کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ ‘‘
کوئی سنجیدہ اور گہری خود احتسابی دکھائی نہیں دیتی
نوشکتی( مراٹھی، ۱۶؍اکتوبر)
’’پورن کمار کی المناک خودکشی نے ایک بار پھر اس کڑوے سوال کو زندہ کر دیا ہے کہ کیاہندوستان واقعی ذات پات کے عفریت سے آزاد کوئی سماج بن سکا ہےیا پھر مساوات اور انصاف کے سنہرے خواب صرف آئینی کتابوں کے اوراق تک محدود ہیں ؟ ایک انڈین پولیس سروس افسر، جو بذات خود نظام انصاف اور قانون کا محافظ تھا اگر اسی نظام کی تنگ دامنی سے دلبرداشتہ ہو کر اپنی زندگی ختم کرنے پر مجبور ہو جائے تو یہ ایک جمہوری ڈھانچے کی صرف ناکامی نہیں بلکہ اس کے کھوکھلے پن کا باضابطہ اعلان ہے۔ پورن کمار کے پیچھے چھوڑے گئے خط میں درج الزامات کسی ذاتی رنجش کا اظہار نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے اداروں میں سرایت کر جانے والی ایک ادارہ جاتی بیماری کا دردناک بیان ہیں۔ انتہائی حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک اعلیٰ افسر کی خودکشی کے بعد بھی حکومت اور انتظامیہ کی غیر معمولی اور معنی خیز خاموشی اس’منوادی ذہنیت‘ کی گویا تائید کرتی نظر آتی ہے جو خود کو قانون اور انسانیت کی اقدار سے بھی برتر سمجھنے کی جسارت کرتی ہے۔ ملک میں اعداد و شمار چیخ چیخ کر ہمیں اپنی اجتماعی ناکامی کا احساس دلا رہے ہیں۔ ۲۰۱۸ء سے ۲۰۲۲ء کے دوران دلتوں پر ہونے والے مظالم میں ۶۶؍ فیصد کا ہوش ربا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے باوجودہمارے سماج اور نظام میں کوئی سنجیدہ اور گہری خود احتسابی دکھائی نہیں دیتی۔ ‘‘
یہ پی چدمبرم کو کیا ہوگیا ہے؟
نوراشٹر( مراٹھی، ۱۵؍اکتوبر)
’’اقتدار کا لطف اٹھاتے وقت بعض رہنما خاموش رہتے ہیں، مگر جیسے ہی اقتدار چھن جاتا ہےوہ اسی نظام پر تنقید کرنے لگتے ہیں جس نے انہیں مقام دیا تھا۔ پی چدمبرم بھی انہی میں شامل ہیں۔ یو پی اے حکومت میں وزیر داخلہ رہنے والے چدمبرم آج اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ جیسے سابق وزرائے اعظم کو نشانے پر لے رہے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۴ء کے آپریشن بلیو اسٹار کو اندرا گاندھی کی’بڑی غلطی‘قرار دیا اور کہا کہ اس فیصلے کی قیمت انہیں جان دے کر چکانی پڑی۔ حالانکہ خود تسلیم کیا کہ یہ کارروائی فوج، انٹیلی جنس اور شہری تحفظ اداروں کی مشاورت سے ہوئی تھی۔ اسی طرح انہوں نے ۲۶/۱۱ کے ممبئی حملوں پر منموہن سنگھ حکومت کی ’نرمی‘ پر بھی تنقید کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ امریکہ کے دباؤ پر پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ چدمبرم اب یہ باتیں کیوں کر رہے ہیں ؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بیانات ان کی سیاسی مایوسی اور ممکنہ قانونی دباؤ کا نتیجہ ہیں۔ ماضی میں بھی جی ۲۳؍ گروپ کے رہنماؤں نے پارٹی قیادت پر سوال کھڑے کئے تھے مگر اس سے کانگریس پارٹی کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK