• Sun, 19 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں الیکشن کمیشن کے جھوٹ کا پردہ فاش

Updated: October 19, 2025, 12:20 PM IST | Yogendra Yadav | Mumbai

جب سے بہار میں ایس آئی آر کا حکم جاری ہوا ہے، تب سے الیکشن کمیشن ایک ہی جملہ بار بار دہرا رہا ہے کہ’’ہم تو وہی کر رہے ہیں جو اس سے قبل۲۰۰۳ء میں کیا گیا تھا‘‘ لیکن معروف قانون داں پرشانت بھوشن میں عدالت میں اس کی غلط بیانی کو بے نقاب کردیا۔

Chief Election Commissioner Gianish Kumar has been defending his `SIR` from the beginning but is getting rebuffed again and again. Photo: INN
چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار شروع ہی سے اپنے ’ایس آئی آر‘ کا دفاع کررہے ہیں لیکن بار بار منہ کی کھا رہے ہیں۔ تصویر: آئی این این

ووٹر لسٹ کے ’’اسپیشل انٹینسیو ریویژن‘‘ (ایس آئی آر) سے متعلق الیکشن کمیشن کا بنیادی جھوٹ بے نقاب ہو چکا ہے۔ اس جھوٹ کا بھانڈا اُس دستاویز سے پھوٹا ہے جسے الیکشن کمیشن گزشتہ تین ماہ سے چھپا رہا تھا۔ یہ دستاویز ۲۰۰۳ء میں بہار کی ووٹر لسٹ کے گہرے جائزے (ایس آئی آر) کے سلسلے میں جاری کردہ حتمی رہنما اصول (فائنل گائیڈ لائن) ہے۔ 
کہانی کچھ یوں ہے کہ جب سے بہار میں ایس آئی آر کا حکم جاری ہوا ہے، تب سے الیکشن کمیشن ایک ہی جملہ دہرا رہا ہے کہ’’ہم تو وہی کر رہے ہیں جو ۲۰۰۳ءمیں کیا گیا تھا۔ اس میں نیا کیا ہے؟آپ اعتراض کیوں کررہے ہیں ؟‘‘ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ۲۰۰۳ءکی فائل کبھی بھی عوام کے سامنے پیش نہیں کی حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے ۷۸۹؍ صفحات پر مشتمل حلف نامے کے ساتھ بھی یہ دستاویز شامل نہیں کی گئی۔ جب عدالت میں دورانِ سماعت یہ سوال اٹھا کہ ’’اچھا یہ بتائیے کہ ۲۰۰۳ میں کیا اقدامات کئے گئے تھے؟‘‘ تو کمیشن خاموش ہو گیا۔ جب شفافیت کی علمبردار انجلی بھارد واج نے آر ٹی آئی کے ذریعے اس حکمنامے کی کاپی مانگی، تو الیکشن کمیشن نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور جب صحافیوں نے استفسار کیا، تو کمیشن کے ذرائع نے کہا کہ فائل گم ہو گئی ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ الیکشن کمیشن کچھ چھپا رہا تھا، لیکن درست معلومات کسی کے پاس نہیں تھیں۔ 
بالآخر آنکھ مچولی کا یہ کھیل ختم ہوا اور گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن نے یہ دستاویز عدالت میں پیش کر دی۔ ۶۲؍ صفحات پر مشتمل یہ رہنما اصول یکم جون ۲۰۰۲ء کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے تھےجواب عام ہوچکےہیں۔ ان کو پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آخر کمیشن اس دستاویز کو کیوں دبا کر بیٹھا تھا کیونکہ اس میں جو کچھ لکھا ہے، وہ ایس آئی آر سے متعلق کمیشن کے تینوں بنیادی دعوؤں کی تردید کرتا ہے۔ 
الیکشن کمیشن کا پہلا جھوٹ یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء میں تمام ووٹروں نے ’’گنتی فارم‘‘ اینومریشن فارم بھرے تھے۔ یہی نہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ اس وقت پوری کارروائی ۲۱؍ دن میں مکمل کر لی گئی تھی اور اسی طرز پر اب بھی فارم بھروائے گئے اور مکمل ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے لیکن ۲۰۰۳ءکے رہنما اصول کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اس دستاویز سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ۲۰۰۳ء میں کسی بھی ووٹر سے کوئی فارم نہیں بھروایا گیا تھا۔ اُن دنوں الیکشن کمیشن کے مقامی نمائندہ بی ایل او (بُوتھ لیول آفیسر) کی جگہ ’’اینومریٹر‘‘ ہوا کرتا تھا، جسے یہ ہدایت تھی کہ وہ گھر گھر جا کر پُرانی ووٹر لسٹ میں ترمیم کرے۔ ترمیم شدہ لسٹ کو ازسرِ نو تیار کیا جاتا تھا اور اس پر گھر کے سربراہ کے دستخط لیے جاتے تھے۔ عام ووٹر کے لیے نہ کوئی فارم تھا، نہ کوئی وقت کی حد، اور نہ ہی فارم نہ بھرنے کی صورت میں لسٹ سے نام کٹنے کا کوئی خدشہ۔ یعنی اس بار ایس آئی آر میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ 
دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ ۲۰۰۳ءمیں شناختی دستاویزات کی شرط بہت سخت تھی اس وقت رائے دہندگان کو صرف چار دستاویزات دکھانے کی لازمیت تھی، جبکہ اب ۱۱ /دستاویزات کی اجازت دی جا رہی ہے۔ مگر گائیڈ لائنز یہ بتاتی ہیں کہ ۲۰۰۳ءمیں عام طور پر کسی سے کوئی دستاویز مانگی ہی نہیں گئی تھی۔ صرف ان افراد سے کاغذات طلب کیے گئے تھے جو کسی دوسرے صوبے سے آکر پہلی بار اپنے خاندان کا ووٹ بنوانا چاہتے تھے، یا اُن سے جن پر شبہ تھا کہ وہ اپنی عمر یا رہائش کے بارے میں غلط بیانی کر رہے ہیں۔ یعنی عمومی طور پر کسی سے بھی کاغذ نہیں مانگا نہیں گیا تھا، اور نہ ہی کوئی کثیرستاویزات کی تصدیق ہوئی تھی۔ اس کے برعکس موجودہ ایس آئی آر میں ہر ووٹر سے کچھ نہ کچھ ثبوت مانگا گیا، یا تو ۲۰۰۳ءکی ووٹر لسٹ میں نام کا ثبوت، یا پھر ۱۱؍میں سے کوئی ایک دستاویز۔ بعد میں سپریم کورٹ کی مداخلت سے آدھار کارڈ کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔ 
تیسرا اور سب سے سنگین جھوٹ یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ووٹروں کی شہریت کی جانچ کی گئی تھی۔ کمیشن کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۰۳ءکی ووٹر لسٹ میں شامل افراد کی شہریت پہلے ہی تصدیق شدہ تھی، لہٰذا اب باقی افراد سے دستاویزات طلب کیے جا رہے ہیں مگر پرانی رہنما اصول اس جھوٹ کو پوری طرح بے نقاب کرتے ہیں۔ ان ہدایات میں کہیں بھی تمام ووٹروں کی شہریت کی تصدیق کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ پیراگراف ۳۲؍ میں صاف لکھا ہے کہ اینومریٹر کا کام شہریت کی چھان بین کرنا نہیں ہے۔ اُس وقت کے قانون کے مطابق شہریت کا ثبوت صرف دو صورتوں میں طلب کیا جا سکتا تھایا تو وہ علاقہ جسےحکومت کی طرف سے ’غیر ملکیوں کی اکثریت والا خطہ‘ قرار دیا گیا ہو۔ اگر ایسے علاقے سے کوئی نیا شخص ووٹ بنوانے کے لئے، جس کے خاندان میں کسی کا ووٹ نہ، ہو تو اس کی شہریت کی جانچ ہوسکتی ہےیا جب کسی فرد کے بارے میں تحریری شکایت موصول ہو کہ وہ شخص ہندوستان کاشہری نہیں ہے۔ ایسی صورت میں الزام لگانے والے کو اس فرد کے غیر ملکی ہونے کا ثبوت دینا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ نہ کسی کی جانچ ہوتی تھی، نہ ہی کسی کا نام اس بنیاد پر ووٹر لسٹ سے حذف کیا جا سکتا تھا۔ پرانی ہدایات میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر کسی کا نام پرانی ووٹر لسٹ میں شامل ہے تو اُسے اہمیت دی جائے گی مگر اس بار الیکشن کمیشن نے خود ہی غیر ملکیوں کی شناخت کا کام سنبھال لیا جو کہ اس وقت حکومت کےدائرہ اختیار میں تھا، نہ کہ الیکشن کمیشن کا۔ 
یہ بات اب پوری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ دعویٰ کہ وہ ایس آئی آر کے ذریعے ۲۰۰۳ءکی گہری نظرثانی کی نقل کر رہا ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ یہی نہیں، کمیشن کا یہ مؤقف بھی بے بنیاد ہے کہ ۲۰۰۳ءکی ووٹر لسٹ میں درج افراد کو دستاویزات سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ بہار کے بعد کمیشن دوسرے صوبوں میں ایس آئی آر کی وکالت کیلئے کیا دلیل گھڑتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK