• Sun, 19 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’استاد جالب مظاہری کہتے تھے تعلیم راستہ دکھاتی ہے، تربیت منزل تک پہنچاتی ہے‘‘

Updated: October 19, 2025, 1:13 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ممبراکوسہ کے ۷۵؍سالہ محمد جاوید عبدالغنی مرشدکر ۱۰؍سال تک مرکزی حکومت کےمحکمہ مزدور بیمہ یوجنا سے وابستہ رہے، اس کے بعد ۱۰؍سال تک سعودی عرب اور مسقط میں ملازمت کی، شعروادب میں دلچسپی کی وجہ سے ان دنوں مطالعے میں وقت گزارتے ہیں۔

Muhammad Javed Abdul Ghani Murshidkar. Photo: INN.
محمدجاویدعبدالغنی مرشدکر۔ تصویر: آئی این این۔

ممبرا کوسہ کے الماس کالونی میں مقیم بھنڈی بازار، نواب ایا ز مسجد اسٹریٹ کے۷۵؍ سالہ محمدجاویدعبدالغنی مرشدکر، ۳؍نومبر۱۹۵۰ءکوپیدا ہوئے تھے۔ محمد علی روڈ کے بیگ محمد ہائی اسکول سے میٹرک اورولسن کالج سے فرسٹ ایئرکاامتحان پاس کرکے مرکزی حکومت کے مزدور بیمہ یوجنا محکمہ میں بحیثیت کلرک ملازمت جوائن کی۔ اسی محکمہ کیلئے لوورپریل اور قلابہ میں ۱۰؍ سال کام کیا۔ اس زمانے میں لوگوں کےدماغ میں روزگار کیلئے خلیجی ممالک جانے کا رجحان تھا۔ پیسہ زیادہ کمانے کے شوق میں سرکاری ملازمت چھوڑکر۱۹۸۱ءمیں پہلے سعودی عرب بعدازیں مسقط میں نوکری کی۔ ۱۹۹۲ءمیں ہندوستان لوٹ آئے۔ اس کےبعد ممبئی میں ہی کئی اداروں میں اپنی خدمات پیش کیں۔ شعروادب میں دلچسپی نےانہیں مطالعے میں مصروف رکھا ہے۔ 
جاوید مرشدکر نے مسقط کے ملٹری کیمپ کے سول محکمہ میں ۷؍سال ملازمت کی تھی۔ اس دورا ن ایک مرتبہ ۱۹۸۶ء میں انہیں مسیرہ سے مسقط ملٹری کیمپ کسی کام سے بھیجاگیاتھا۔ ان کے ساتھ ملٹری کے دیگر تین چار ساتھی بھی تھے۔ انہیں ایک ایسے ملٹری ہیلی کاپٹر سے سفر کرناتھاجس میں صرف ۵۔ ۶؍افراد کی گنجائش تھی۔ سادہ ہیلی کاپٹر، جس میں کھڑکی کے بجائے سلائیڈنگ لگی تھی۔ بیٹھنے کیلئے چیئر کے بجائے لکڑی کا تختہ نصب تھا۔ پائلٹ بھی تختہ پر بیٹھ کر ہیلی کاپٹر چلارہاتھا۔ مسیرہ سے پرواز کے وقت، موسم بہت سہانا تھا۔ میسرہ سے مسقط کا سفر ایک گھنٹہ کاتھا۔ آدھا گھنٹہ بعد اچانک موسم بگڑ گیا، تیز ہوا کےساتھ ہونےوالی طوفانی بارش سےہیلی کاپٹر کا توازن بگڑنے لگا، سلائیڈنگ سے بارش کا پانی ہیلی کاپٹر میں بھی داخل ہونے سے خوف اور بڑھنے لگا، نیچے پانی ہی پانی تھا۔ ہوا میں جھولتے ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہاتھاکہ جان کابچنا مشکل ہے۔ ایسےمیں جاوید مرشدکر دعا پڑھنے لگے جبکہ پائلٹ پر کوئی اثر نہیں پڑرہاتھا۔ وہ بے خوف ہیلی کاپٹر اُڑانےمیں مصروف تھا۔ ۱۵۔ ۲۰؍منٹ تک یہ کیفیت رہی، بعدازیں موسم ٹھیک ہوا۔ سب کی جان میں جان آئی۔ ہیلی کاپٹر سے اُتر کرجاوید مرشدکر نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ انہوں نے موت کو اس سے زیادہ قریب اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ 
نواب ایاز مسجد اسٹریٹ(بھنڈی بازار)، میں ایک درزی ہوا کرتےتھے۔ ایک دن انہوں نے جاویدکو، جس وقت ان کی عمر ۱۲۔ ۱۳؍ سال تھی، بلاکر کہا کہ میرا کچھ لکھنے پڑھنے کا کام ہے تم کردوگے؟ میں اس کی اُجرت دوں گا۔ کام کیاہے یہ دریافت کرنےپر انہوں نے کہا، اس کیلئے میرے ساتھ تمہیں گھر چلناہوگا۔ جاوید نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں آپ کے گھر چلوں گا۔ وہ، جاوید کو اپنے گھر جے جے اسپتال کے قریب لے گیا، گھر کے نام پر ایک چھوٹاساگوشہ تھا، جس پرسے عمارت کی سیڑھیاں بھی گزررہی تھیں۔ گھر کیاتھا ایک قفس نما، تاریکی سے بھری معمولی سی جگہ تھی۔ سیڑھیوں کے نیچے کی جگہ پر، بوسیدہ پلنگ پرایک ۱۰۔ ۱۲؍ سالہ بیمار لڑکی تھی۔ وہ گلاب کی طرح سرخ دکھائی دے رہی تھی۔ وہ بڑی خوبصورت تھی لیکن بیمار ہونےکی وجہ سے تڑپ رہی تھی۔ اس نے جاوید سے کہا کہ یہ میری بیٹی ہے لیکن گزشتہ کئی مہینوں سے بیمار ہے۔ دراصل اسکول جاتے وقت راستےمیں گر جانے سے اس کےپیر اور کمر میں چوٹ آئی تھی۔ پیرکازخم ٹھیک ہونےکےبجائے بڑھتاگیا۔ متعدد طبی تشخیص کےبعد کینسر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کا زخمی پیر کاٹنا پڑا۔ کینسر کے علاج کیلئےمالی مدد درکارتھی۔ اس وجہ سے میں نےاس کی بیساکھی والی تصویر کےساتھ ہفت روزہ بلٹز اخبار میں اشتہا ر دیاتھا۔ اشتہار کی وجہ سے ملک کےکونے کونے سے لوگوں نے میری مدد کی تھی۔ میں مکتوب کےذریعے ان کا شکریہ اداکرناچاہتاہوں۔ تم ان سب کو خط لکھ دو۔ پوری روداد سن کر نوعمری میں بھی جاوید مرشدکر رونے لگے تھے۔ انہوں نے ۲۔ ۳؍ دنوں میں تقریباً ۳۰؍ خیرخواہوں کو شکریہ کا خط روانہ کیا۔ اس نے جب انہیں اُجرت دینی چاہی تو جاوید مرشدکر نے کچھ لینے سے منع کردیا۔ ۲؍ماہ بعد پتہ چلا کہ لڑکی کا انتقال ہوگیا۔ 
 ۱۹۸۳ءمیں پہلی مرتبہ سعودی عرب سےلوٹ کر ممبئی آنےپر جاوید مرشدکراپنے استاذ سلیم الدین جالب مظاہری جوسبکدوش ہو گئے تھے، سے ملاقات کیلئے ان کی رہائش گاہ واقع ڈنکن روڈ پہنچے۔ وہ سعودی عرب سے ایک انک پین لائے تھے۔ جالب صاحب سے رسمی گفتگو کےبعد ان کی خدمت میں پین کا تحفہ پیش کیا۔ جالب صاحب نے تحفہ قبول کرنےکےبعد پین کو ہاتھ سے اُٹھاکر جاوید مرشدکر کی جانب دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ آپ پین کا تحفہ لائے ہیں ، ٹھیک ہے لیکن یہ نہیں بھی لاتے توکوئی ہرج نہیں تھا۔ آپ لوگ پڑھ لکھ کر روزگار پر لگ گئے ہیں ، یہ ہمارے لئے سب سے بڑی خوشی ہے، اب اپنے اہل خانہ کا خیال رکھیں، ان کی ضروریات پوری کریں ، یہی آپ کا فرض ہے۔ ایک پین ہماری حیات کیلئے کافی ہے، اب آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا۔ اس نصیحت کے ساتھ انہوں نے پین کاتحفہ قبول کرلیا۔ اُس دور کے ایسے استاذ ہواکرتےتھے۔ جو تعلیم کےساتھ تربیت دینے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ تعلیم آپ کو راستہ دکھاتی ہے جبکہ تربیت آپ کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ 
مرحوم ضیاءالدین بخاری سے جاوید مرشدکر کے قریبی مراسم تھے۔ ۱۹۷۳ءمیں بھنڈی بازار سے جب بخاری صاحب نے اسمبلی الیکشن لڑا تھا، اس دورمیں مقامی نوجوانوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیاتھا۔ الیکشن مہم کیلئے ایک دن انہوں نے جاوید مرشدکر اور ان کے دیگر ساتھیوں سے کہاکہ میرے پاس الیکشن لڑنےکیلئے درکار رقم نہیں ہے۔ صرف تم لوگوں کے حوصلہ اور ہمت کی بنیادپر الیکشن میں قسمت آزما رہاہوں۔ یہ کہہ کرانہوں نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ گھاٹی گلی، ( گھوگھاری محلہ ) میں ایک غیر ہموار جگہ ہے، اگر اس جگہ کو صاف ستھرا کرلیاجائے تو وہیں پر الیکشن میٹنگ وغیرہ منعقد کرلیں گے۔ بخاری صاحب کے کہنے پر جاوید مرشدکر اور ان کے ساتھیوں نے دن رات محنت کر کے پہلے اس جگہ کی صفائی کی بعدازیں اپنے کاندھوں پر پتھر لاکراسٹیج بنایا۔ اس جگہ سے بخاری صاحب نے الیکشن مہم کی سرگرمیاں انجام دیں۔ 
۱۹۶۵ءسے ۱۹۷۰ء تک ممبئی میں کبڈی کھیلنے کا چلن عام تھا۔ ہر گلی کی اپنی ٹیم ہوتی تھی۔ نواب ایاز مسجد اسٹریٹ کی ٹیم میں جاوید مرشدکر بھی شامل تھے۔ نل بازار کی ٹیم سے ان کی ٹیم کا اکثر مقابلہ ہوتا تھا۔ کبڈی کا مقابلہ عموماً رات کےوقت سڑکوں پر ہی ہوتاتھا۔ اس دورمیں گاڑیاں کم تھیں، اسلئے سڑکیں صاف ستھری ہوتی تھیں۔ مانڈوی پوسٹ آفس سے پائیدھونی تک سیکڑوں لوگ رات کو فٹ پاتھ پر سوتےتھے۔ رات ۸؍ بجے کےبعد ان کے بستر فٹ پاتھ پر لگ جاتےتھے۔ 
مانڈوی پوسٹ آفس کے سامنے واقع کریمی ہوٹل کےمالکان نے ایک مرتبہ چائے کی قیمت میں چارآنے کااضافہ کردیاتھاجبکہ دیگر ہوٹلوں میں قیمت حسب معمول تھی۔ ایسے میں لوگوں نے جن میں جاوید بھی پیش پیش تھے، قیمت میں اضافےکےخلاف احتجاج کیا تھا۔ احتجاج اتنا شدید تھا کہ ہوٹل کےمالکان کو چائے کی قیمت کم کرنی پڑی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK