• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شیخ حسینہ کی سزائے موت کے فیصلہ، بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کی جیت اخبارات نے موضوع بنایا ہے

Updated: November 23, 2025, 5:18 PM IST | Ejaz Abdul Ghani | Mumbai

شیخ حسینہ کی سزائے موت کے فیصلے کے ساتھ ہی اس ہفتے بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کی جیت کو غیر اُردو اخبارات نے موضوع بنایا ہے۔

This photo is from August 5, 2024, when protesters stormed the official residence of then-Prime Minister of Bangladesh Sheikh Hasina, forcing her to flee the country. Photo: INN
یہ تصویر ۵؍ اگست ۲۰۲۴ءکی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی اُس وقت کی وزیراعظم شیخ حسینہ کی سرکاری رہائش گاہ پر مظاہرین نے دھاوا بول دیا تھا اور انہیں ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔ تصویر:آئی این این
بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو سنائی گئی سزائے موت پر  غیر اُردو اخبارات نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عدالتی شفافیت اور سیاسی پس منظر پر سوال اُٹھائے ہیں۔اسی طرح بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کی غیر متوقع جیت کو مراٹھی اخبارات نےمختلف سیاسی زاویوں سے پرکھا ہے جبکہ مہاراشٹر میں مہایوتی اتحاد کی دو بڑی پارٹیوں کے درمیان پیدا ہونے والی دراڑ  اور لفظی جنگ پر لوک مت اور سکال نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سماجی محاذ پر نوبھارت نے وسئی میں ایک کم سن طالب علم پر تشدد کو مثال بنا کر تعلیمی نظام کی بگڑتی صورتحال پر سخت تنقید کی ہے۔
بہار کے نتائج اپوزیشن کیلئے بھی کم حوصلہ افزا نہیں
لوک ستہ ( مراٹھی، ۱۸؍ نومبر)
’’بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ایک ایسی سیاسی تصویر پیش کی ہے جو بظاہر حکومتی اتحاد کے حق میں ہے لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ نتائج اپوزیشن کیلئے بھی کم حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ایک طرف حکمراں اتحاد نے کامیابی کے ساتھ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ فتح ترقیاتی ایجنڈے اور عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر مہر ہے۔ دوسری جانب شکست خوردہ اپوزیشن نے اس نتیجے کو طاقت کے ناجائز استعمال اور انتخابی مشینری کے غلط استعمال کا شاخسانہ قراردیا ہے۔جیتنے والے اور ہارنے والے اتحاد کے درمیان ووٹوں کا فرق محض ۳؍ فیصد کے قریب ہے۔ یہ کم فاصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کی رائے میں سیاسی تقسیم گہری ہے اور حکومتی اتحاد کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کامیابی کے باوجود رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد ان کے خلاف کھڑی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نتیش کمار کی جماعت کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی اور ان کا ووٹ شیئر کم ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن کی قیادت کرنے والی  آر جے ڈی بھلے ہی حکومت نہ بنا سکی لیکن سب سے بڑی جماعت کے طور پر اُبھر کر اپنی طاقت کا لوہا منوایا اور زیادہ تر روایتی ووٹروں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا۔نتیش کی جماعت کی کمزوری دراصل بی جے پی کی کامیابی کا سبب بنی جسے ووٹوں میں معمولی اضافے کے باوجود نشستوں میں خاطر خواہ فائدہ ہوا۔  اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی نے نہایت حکمت عملی سے ان سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جہاں مقابلہ سخت تھا۔ دوسری طرف کانگریس کی خراب کارکردگی اپوزیشن اتحاد کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی اور اس کی شکست کا ایک بڑا سبب بنی۔ اس کے برعکس بائیں بازو کی جماعتوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کیا کہ اگر حکمت عملی درست ہو تو وہ بھی اپنے نظریاتی ووٹ بینک کو متحرک کر سکتے ہیں۔‘‘
سیاسی اخلاقیات محض رسمی نعرے بن کر رہ گئے ہیں
لوک مت( مراٹھی، ۲۰؍نومبر)
’’مہاراشٹر کی موجودہ سیاست ایک ایسے نازک دوراہے پر آ کھڑی ہے جہاں سیاسی اخلاقیات اور جماعتی اصول محض رسمی نعرے بن کر رہ گئے ہیں۔ طرز سیاست میں یہ بنیادی تبدیلی گہری تشویش کا باعث ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پارٹی میں شمولیت کا دار و مدار اہلیت اور طویل جدوجہد پر ہوتا تھا لیکن آج اس کی جگہ ایک  رجحان نے لے لی ہے۔ بی جے پی کا ریاستی دفتر جو کبھی عوامی رابطے کا ایک اہم مرکز تھا اب اپنی حیثیت بدل کر ’داخلہ دفتر‘ کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں نظریئے سے زیادہ تعداد اور خدمات سے زیادہ وفاداری کی تبدیلی کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اب سیاسی کامیابی کا پیمانہ مخالف جماعتوں کے چھوٹے بڑے لیڈروں کو کھینچ کر لانا ہی بن گیا ہے۔سیاسی نقل مکانی کا یہ رجحان کوئی اچانک پیدا نہیں ہوا۔ اس کا آغاز گجرات کی سیاست میں ہوا تھا مگر مہاراشٹر میں اس نے غیر معمولی شدت اختیار کر لی ہے۔ چونکہ یہاں سیاسی میدان کا اصل دار و مدار کارکنوں اور نچلے درجے کے لیڈروں پر ہوتا ہے اسلئے پارٹی بدلنے کی رفتار بھی کہیں زیادہ تیز ہے۔اس صورتحال کا سب سے تشویشناک اور عجیب پہلو یہ ہے کہ وہ افراد جو کل تک متنازع سمجھے جاتے تھے یا مختلف قانونی معاملات کے باعث میڈیا کے نشانے پر تھے آج نہ صرف پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں بلکہ باضابطہ ٹکٹ کے دعوے دار ہیں اور انہیں ترجیح بھی دی جا رہی ہے۔ اس سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوتا ہے کہ اصولوں اور کردار سے زیادہ اپنے مفاد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جو دراصل اقتدار کیلئے اصولوں کی قربانی دینے کے مترادف ہے۔‘‘
بیشتر اسکولوں میں آج بھی  پرانی سوچ زندہ ہے
نوبھارت( ہندی،۱۸؍نومبر)
’’ہمارے تعلیمی اداروں میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے واقعات نے یہ خدشہ ایک بار پھر گہرا کر دیا ہے کہ ہم آج بھی اپنے بچوں کو وہ محفوظ اور احترام پر مبنی ماحول فراہم نہیں کر پا رہے جس کی انہیں شدید ضرورت ہے۔ ایک ۹؍ سالہ بچی کو معمولی غلطی پر ۱۰۰؍ بار اُٹھک بیٹھک کی سزا دینا،اس سزا کے بعد اس کا بےدم ہو کر اسپتال پہنچ جانا اور پھر شکایت کے باوجود متعلقہ معلمہ پر ہلکی پھلکی کارروائی کر کے بات کو ٹال دینا۔یہ سب کچھ ہمارے نظام تعلیم کے کمزور پہلوؤں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ کسی ایک اسکول یا ایک استاد کا سوال نہیں بلکہ یہ اس ذہنی رویے کا مسئلہ ہے جو آج بھی نظم و ضبط کے نام پر بچوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کو درست سمجھتا ہے۔دنیا تیزی سے بدل رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے کچھ تعلیمی ادارے ابھی بھی ماضی کے روایتی طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔ جدید دور کا تصور تعلیم محض نصاب، رٹنے یا امتحان سے آگے بڑھ کر تخلیقی صلاحیت ،جذباتی توازن، اعتماد اور مکالمے کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ استاد کا کردار اب ایک سخت مزاج نگراں کا نہیں بلکہ ایک ایسے رہنما کا ہے جو بچے کی ذہنی کیفیت، جذبات اور ضروریات کو سمجھنے اور سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ایک مؤثر استاد وہ ہے جو بچے کی غلطی کو سزا کا سبب نہیں بلکہ تربیت کا موقع سمجھے۔ وہ بچوں کے مسائل کو مثبت انداز سے حل کرے اور انہیں سیکھنے کیلئے حوصلہ دے مگر افسوس کہ ہمارے ملک کے بیشتر اسکولوں میں آج بھی وہی پرانی سوچ زندہ ہے جس میں استاد کا رعب اور سختی ہی تعلیم کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش کی عدالت کا غیرجانب دارانہ فیصلہ
دی انڈین ایکسپریس( انگریزی، ۱۸؍ نومبر)
’’بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ صرف ایک عدالتی کارروائی نہیں بلکہ انصاف اور غیر جانبداری کے معیار پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔ پیر کو سہ رکنی بنچ کے ذریعہ پچھلے سال احتجاج کے دوران دو قتل کے الزامات میں حسینہ کو سزائے موت سنائی گئی۔ ایک ایسا فیصلہ جو ابتدا ہی سے انتقامی کارروائی کی جھلک لئے ہوئے تھا۔ یہ مقدمہ اپنی بنیاد ہی سے جانبدارانہ نظر آتا ہے۔ ماضی میں ایسی عدالتوں میں غیر ملکی جج شامل ہوتے تھے تاکہ شفافیت اور غیرجانب داری برقرار رہےمگر اس بار پوری بنچ مقامی ججوں پر مشتمل تھی جن کی غیر جانب داری پر پہلے سے سوال اٹھتے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سے منسلک ایک جج کی شمولیت جس نے فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا، عدالت کی غیر جانب داری پر گہرے شکوک پیدا کرتی ہے۔مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ حسینہ کو مؤثر دفاعی وکیل میسر نہ آیا۔ ریاست کی جانب سے مقرر کردہ وکیل نہ اضافی وقت مانگا نہ گواہ پیش کئے اور نہ دفاع میں کوئی بامعنی کوشش دکھائی۔ تین ماہ کے اندر اندر دباؤ میں چلایا گیا یہ مقدمہ زیادہ تر نگراں حکومت کے سیاسی عزائم کی توسیع ظاہر کرتا ہے۔  خیال رہے کہ شیخ حسینہ اس وقت ہندوستان میں کسی نامعلوم مقام پر موجود ہیں اور ان پر الزام ہے کہ وہ گزشتہ سال کے احتجاج میں سخت گیر رویہ اختیار کرنے کی ذمہ دار تھیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK