• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

انتخابی نتائج پر اپوزیشن لعن طعن سے زیادہ حوصلہ افزائی کامستحق

Updated: November 23, 2025, 6:02 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

ایک ایسے کھیل میں جہاں فریقین کو یکساں مواقع حاصل نہ ہوں، شکست خوردہ کی سرزنش کس حدتک درست ہے، البتہ کچھ عوامل ہیں جن پر اپوزیشن کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

On the one hand, the opposition`s acceptance of the opposition for remaining steadfast despite all the adverse circumstances is essential. Photo: INN
ایک طرف جہاں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ڈٹے رہنے پر اپوزیشن کی پزیرائی ضروری ہے۔ تصویر:آئی این این
بہارجہاں بے روزگاری کا اوسط   ۹ء۶؍فیصد  یعنی قومی اوسط (۶ء۹؍فیصد )سے کہیں زیادہ ہے، جہاں ۳۳؍ فیصد آبادی خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جہاں  سے ایک  محتاط  اندازہ کے مطابق ۵۷؍لاکھ افراد اپنے اور اپنے بچوں کی  ۲؍ وقت کی  روٹی کا انتظام کرنے کیلئے بیرون ِ ریاست ملازمت   پر مجبور ہیں ،  جہاں نتیش کمار ۲۰؍سال سے برسراقتدار ہیں مگر صورتحال  کو بہتر نہیں  بنا سکے اور جن کی حکومت اپنی اسی ناکامی کی وجہ سے۲۰۲۰ء کےاسمبلی  الیکشن میں   شکست سے بال بال بچی تھی،  وہ موجودہ الیکشن میں  اپنے اتحادیوں کے ساتھ  ۲۰۲؍ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ نتائج  تبدیلی کی آس ہی نہیں بلکہ یقین  کے ساتھ الیکشن لڑنےوالے اپوزیشن کیلئے جتنا حیرت انگیز  رہے،اس سے کہیں زیادہ ناقابل یقین خود حکمراں محاذ کے لیڈران کیلئے  ہیں۔  
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار میں این ڈی اے کے دوبارہ برسراقتدار آنے کی امیدتو نہیں تھی مگر اندیشہ ضرور موجود تھا۔ امید اس لئے نہیں تھی کہ ۲۰؍ سال کی طویل حکمرانی کے بعد ’’حکومت مخالف  لہر‘‘عین فطری ہے اورسابقہ الیکشن  میں چونکہ یہ پوری شدت کے ساتھ نظر بھی آئی تھی اس لئے  موجودہ الیکشن میں اس  میں اضافہ  اس کے پہلے سے زیادہ شدید تر ہو جانے کی امید غیر فطری نہیں تھی۔ انتخابی مہم  ہی نہیں اس سے پہلے ہی سے    زمینی سطح پر اس کا اظہار بھی ہورہاتھا۔ راہل گاندھی کی یاترا کو ملنے والی حمایت اوراس کے بعد تیجسوی کی یاترا میں امڈنے والی بھیڑ   پھر  انتخابی  مہم  میں این ڈی اے  کےلیڈران کو عوام کی جیسی برہمی کا سامنا کرنا پڑا وہ اس خیال کی توثیق کررہی تھی کہ عوام حکمراں محاذ سے خوش نہیں ہیں۔ ’انڈیا‘اتحاد کی ریلیوں میں امڈنےوالی بھیڑ اور ’’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘‘ جیسےعوامی نعروں  میں شدت کے بعد بہار میں  خود حکمراں محاذ کے  لیڈرعوام کی  اس  ناراضگی کو محسوس کر رہے تھے اورممکنہ نتائج کے  تعلق  سے فکرمند بھی تھے۔’’ووٹ چوری‘‘ کے خلاف  آر جے ڈی اور کانگریس  کی مہم کے بعد  عوام  میں جیسی بیداری  نظر آرہی تھی  اس سے امید تھی کہ  نہ صرف عوام  الرٹ ہیں  بلکہ انتظامیہ بھی  دھاندلی کی ہمت نہیں  جٹا سکےگا۔
  یہ تمام عوامل  بہار میں اقتدار میں تبدیلی کا یقین دلا رہے تھے پھر بھی اگر   این ڈی اے کی کامیابی کا  اندیشہ موجود تھا  تو اس کی وجہ الیکشن کمیشن  پر عائد ہونےوالے سنگین الزامات اور  اس کا خود بھی غیر جانبدارنظر آنے کی کوشش بھی  نہ کرنا تھا۔  پہلے  اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر  دھاندلی آمیز طریقے سے آناً فاناً  ایس آئی آر اور ۶۵؍ لاکھ ووٹوں کا حذف کیا جانا پھر عین انتخابی مہم کے دوران نتیش سرکار کو خواتین کے  بینک کھاتوں  میں  ۱۰؍ ہزار روپے منتقل کرنے پر نہ روکنا  اور پھر اُن ہی خواتین کو جنہیں ’جیویکا  دیدی‘ کا نام دیاگیا تھا، الیکشن بوتھ میں تعینات کیا جانا، ایسے عوامل تھے جو بہت کچھ اشارے دے رہے تھے۔  مہاراشٹر اور ہریانہ   کے نتائج بھی ابھی لوگوں کے ذہنوں  سے محو نہیں ہوئے تھے اس لئے ایک بڑا طبقہ اگر اس اندیشے میں  مبتلا تھا کہ نتائج بالکل اسی طرح زمینی حقیقت کے برخلاف بھی ہوسکتے ہیں جس طرح مہاراشٹر میں آئے یا ہریانہ میں رہے، تو وہ غلط نہیں تھا۔ البتہ یہ اندیشہ جس شدت کے ساتھ صحیح  ثابت ہو ا وہ حیران کن تھا۔ کچھ ایسا حیران کن کہ جن کے حق میں فیصلے آئے وہ بھی ہکا بکا رہ گئے۔  
ا ب سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اپوزیشن کی ناکامی کہلائے گی مگر سوال یہ ہے کہ  ایک ایسے کھیل میں جہاں فریقین کو یکساں مواقع حاصل نہ ہوں، شکست خوردہ کی سرزنش کس حدتک درست ہے۔ ہاں اسے اس بات کے لئے ضرور ڈانٹا جاسکتاہے کہ جب وہ جانتا ہےکہ مدمقابل ایمانداری کے ساتھ نہیں کھیل رہا تو کھیل میں اترا ہی کیوں؟ تو کیا اپوزیشن کے پاس الیکشن کےبائیکاٹ کا متبادل موجود ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ جس  الیکشن کمیشن  پر اپوزیشن حکومت کے اشاروں پر کام کرنے کا الزام عائد کرتاہے،اسی کے ذریعہ اوراسی کی نگرانی میںمنعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لے کر   وہ اسے اعتبار بھی بخش رہا ہے۔ لیکن موجودہ محدود وسائل میں اس کے پاس متبادل بھی محدود ہیں؟ جذبات اور جھنجھلاہٹ  میں مبتلا ہوکر  الیکشن کے   ہی بائیکاٹ کی  بات کرنےوالوں کو یہ  نہیں بھولنا چاہئے  کہ کسانوں کے احتجاج کے دوران کس طرح راتوں رات  سیاہ قوانین کی حمایت   میں بھاری بھرکم ناموں  والی   بے شمار کسان تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں، کس طرح ایک طرف سڑکوں پر کسان سیاہ قوانین کی واپسی کیلئے جان ہتھیلی پر لئے کھڑے تھے اور کس طرح دوسری طرف وہ تنظیمیں مذکورہ قوانین کے فائدے گنواتے ہوئے اور انہیں عین کسانوں کے حق میں  قرار دیکر ان کی حمایت میں وزیروں سے ملاقاتیں کر رہی تھیں۔ اس پس منظر میں  غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر موجودہ سیاسی جماعتیں الیکشن  کےبائیکاٹ کا فیصلہ کرتی ہیں تو کیا’’ نئی اپوزیشن پارٹیوں‘‘کومعرض وجود میں نہیں لے آیا جائے گا؟ یا وہ پارٹیاں  جو قصہ پارینہ بن چکی  ہیں یا جو حاشیے پر ہیں، اٹھ نہیں کھڑی ہوںگی؟ اس طرح  وہ اپوزیشن کی خالی جگہ کو پُر کرنے کی کوشش کریں گی اور بعید نہیں کہ انہیں اس کیلئے تیار حکمراں محاذ ہی کرے۔ اس صورت میں الیکشن جیسا الیکشن بھلے نہ ہو مگرالیکشن ہوتے رہیں گے  اور نتائج بھی آتے رہیں گے اور جو برسراقتدار آئیں گے وہ یہ باور بھی کراتے رہیں گے کہ جمہوری طریقے سے جیت کر آئے ہیں۔
  اس لئے یکے بعد دیگرے ناکامیوں  اور الیکشن کمیشن پر کھلی جانبداری کے الزامات کے  باوجود  اپوزیشن پارٹیاں اگر الیکشن لڑ رہی ہیں تو ان کی  اس لحاظ سے حوصلہ افزائی ضرور کی جانی چاہئے کہ ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔‘‘البتہ کچھ عوامل ہیں، جن پر اپوزیشن کو توجہ دینے کی ضرورت تھی  جو اس نے نہیں  دیا۔ مثال کے طور پر الیکشن کمیشن کی جانبداری کا معاملہ ہے۔ وہ الیکشن کمیشن جس کے تینوں کمشنروں کا انتخاب ایک ایسی سہ رکنی کمیٹی کرتی ہے جس میں ۲؍ فریق حکومت  کے ہیں، کیونکر غیر جانبدار ہوسکتاہے۔ ٹھیک ہے کہ پارلیمنٹ کے ایوانوں  میں  خاطر خواہ تعداد نہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن الیکشن کمشنر کی تقرری کے  اس قانون کو بننے سے نہیں روک سکا مگر جس بے بسی کے ساتھ اس نے اسے  قبول کرلیا وہ بھی درست نہیں ؟محض شکایت سے تو بات نہیں بنے گی۔ اگر الیکشن کمیشن کی تقرری ہی اس کی  جانبداری کی وجہ  ہے تو تقرری کے اس عمل  کی مخالفت اس وقت  تک جاری رہنی چاہئے تھی جب تک کہ اصلاح نہ ہوجائے۔  الیکشن کمشنر کی تقرری کا مسئلہ ہی کم نہ تھا کہ حکومت نےالیکشن کمشنروں کو ہر طرح کے مقدمات سے استثنیٰ بھی عطا کردیا ہے۔ افسوس کہ اس کا حوالہ اپوزیشن کی ریلیوں  میں  ہونےوالی تقاریر  میں بھی  بہت کم نظر آتاہے، حالانکہ اس سلسلے میں عوام کو بیدار کرنے اور اس کے خلاف عوامی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف جہاں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ڈٹے رہنے پر اپوزیشن کی پزیرائی ضروری ہے وہیں   اپوزیشن کیلئے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ الیکشن منصفانہ نہیں ہے تو وہ جمہوریت کو لاحق خطرات  سے نمٹنے  کیلئے عوامی کو بیدار کرے اور عوامی تحریک کا سہارا لے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK