• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ کا فیصلہ ہندوستانی جمہوریت کیلئے فالِ بد

Updated: November 23, 2025, 5:51 PM IST | Harish Khare | Mumbai

جب سیاسی قیادت دانشمند نہ ہوتو یہ ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عدم توازن کو کم سے کم کرے، اس محاذ پر عدالتی فیصلہ مایوس کن ہے۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
۲۰؍ نومبر ہندوستانی جمہوریہ کیلئے بُرا دن  رہا۔ اس لئےنہیں کہ ایک علاقائی لیڈر نے انتخابی نظام میں جوڑ توڑ کرکےبہار کے وزیراعلیٰ کے طور پر ۱۰؍ ویں مرتبہ  حلف لے  لیا بلکہ اس  لئے کہ  ملک کے سپریم کورٹ نے ہمارے وفاقی  نظام میں ایک غیر صحت عدم توازن پراپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے  اپنے ہی ۲؍ججوں کے۱۱؍  اپریل کے فیصلے (  تمل ناڈو سرکار  بنام گورنر ،تمل ناڈو) کو اُلٹ دیا ہے۔ جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون نے فیصلہ سنایا تھا کہ گورنر یاصدر ریاستی اسمبلی یا پارلیمنٹ سے منظور شدہ کسی بھی مسودہ ٔ قانون  پر (دستخط یا واپس بھیجنے) کا فیصلہ نہ کرکے اسے غیر معینہ مدت کیلئے التوا میں نہیں رکھ سکتے۔
 
 
یہ معاملہ تمل ناڈو کی جمہوری طورپرمنتخب حکومت اور مرکز  کے نامزد کردہ گورنر کے درمیان شدید  اور ناقابل حل ٹکراؤکی وجہ سے سپریم کورٹ تک پہنچا تھا۔ یہ ٹکراؤ(مرکزی اور ریاستی حکومت کی) سیاسی  رسہ کشی کا نتیجہ تھا۔۲۰۱۴ءسے  مرکزی حکومت نےہیڈ ماسٹر جیسا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔اس کا رویہ ریاستوں کے ساتھ اور بطور خاص ان ریاستوں کے ساتھ جو اپوزیشن کے زیر اقتدار ہیں،ایسا ہے جیسے کسی ہیڈ ماسٹر کا  شرارتی بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ  اپوزیشن کی ریاستی حکومتوں کے ساتھ آئینی طور پر قائم اکائیوں  کے طور پر برتاؤ کرنے کے بجائے، ان کو روکنا ٹوکنا ضروری سمجھتا ہے۔ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے صدارتی ریفرنس   پر اسلئے   زور دیا کیونکہ جسٹس پاردی والا اور مہادیون کے فیصلے نے ریاستوں  پر مرکز کے کنٹرول  اور کمانڈ کو کمزور کر دیا تھا۔ (انہوں  نے  فیصلہ سنایاتھا کہ گورنر یا صدر اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس کردہ کسی بھی قانون پر دستخط  کرنے یا لوٹانے کے بجائے انہیں غیر معینہ مدت کیلئے زیر التواء نہیں رکھ سکتے۔ ۲؍ رکنی بنچ نے یہ بھی طے کردیا تھا کہ  ایک مخصوص مدت تک گورنر اسمبلی کے پاس کردہ بل کو منظوری نہیں دیتے تو انہیں منظور سمجھا جائےگا۔) 
گزشتہ چند برسوں  سے مرکزی حکومت  نے غیر بی جےپی حکومت والی  ریاستوں  میں  راج بھون کومنتخب حکومت سے ٹکراؤ اور تنازع کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ معمولی سے ابہام کو بھی گورنر پوری طرح مرکز کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح  غیر  بی جےپی حکومتوں  میں  گورنر وں کا استعمال ’’ویٹو‘‘ کی طرح کیا جانے لگا ہے۔
 
 
آئینی بنچ  نے جو فیصلہ سنایا ہے ،اس کا مرکزی نکتہ آئین کی روح تک پہنچے بغیر صرف متن کی تشریح تک محدود  ہے۔ بنچ نے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ عدالت متحرک  رول ادا کر سکتی  ہے اوریہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ  وہ مقننہ(اسمبلی یا پارلیمنٹ) یا انتظامیہ(حکومت)  کی سیاسی زیادتیوں کو درست کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔فیصلے میں پانچوں ججوں کا ایک ہی رائے کا حامل ہونا  (یعنی اتفاق رائے سے فیصلہ دینا) بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ عدالت مرکز اور ریاستوں  کے سیاسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتی۔ ہوسکتاہے کہ اس طرح خود کو روک لینے سے عدالت کسی تنازع  میں  پڑنے  سے بچ جائے مگر  اس طرح وہ بطور آئینی ادارہ  ملک کے جمہوری  نظام  اور اس کے سیاسی ڈھانچے میں آئینی توازن کو قائم رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری سے بھاگتی نظر آرہی ہے۔ 
اس میں اے ڈی ایم جبل پور کیس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ حالانکہ اس عرصہ میں ملک کی سیاست میں  بڑی تبدیلی آچکی ہے اور عدلیہ بھی اس   ایمرجنسی دور کے  اس بدنام ِ زمانہ  دور کے اثرات سے باہر نکل چکی ہے۔ فی الحقیقت  دنیا بھر میں عدلیہ کو آج بھی انتظامی آمریت کی موثر کاٹ کے طورپر دیکھا جاتا ہے چاہے وہ دستور کے لفظی تقاضوں تک ہی کیوں نہ محدود ہو۔
ہمارے پڑوسی ملک  پاکستان میں بھی سپریم کورٹ کے ایک جج، جسٹس سید منصور علی شاہ نے  حال ہی میں  اپنے استعفیٰ  میں واضح طور پر لکھا تھا کہ’’  ترقی و ہی قومیں کرتی ہیں جو قانون کی حکمرانی کو مرکزی حیثیت دیتی   ہیں  اور عدلیہ کی آزادی کو مقدس امانت کی طرح محفوظ  رکھتی ہیں۔ جب انصاف کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے تو قومیں لڑکھڑاتی  ہی نہیں  ہیں بلکہ اپنا اخلاقی  محوربھی کھو دیتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب عدالتیں خاموش ہو جاتی ہیں تو  معاشرہ تاریکی میں ڈوب جاتاہے۔‘‘
 
 
جسٹس منصور علی  شاہ خود کو پاکستانی عدالت کے اُس  اکثریتی فیصلے کی تائید کیلئےآمادہ نہ کرسکے   جس نے پاکستانی فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر خان کی ہدایت پر کی گئی  آئینی ترمیم کو قبول کر لیا  ہے۔ صدارتی ریفرنس پر اپنے رائے نما فیصلے کے ذریعہ ہندوستانی  سپریم کورٹ نے ایک  بار پھر وہی  آئینی  حربہ فعال کر دیا ہے جسے مرکزی حکومت برسوں سے استعمال کرتی آئی ہے اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ راج بھون غیر بی جے پی ریاستوں میں  اقتدار کے متوازی مراکز ، حتیٰ کہ ساز باز کے ٹھکانے بن گئے۔ حالانکہ آئینی بنچ نے یہ کہا ہےکہ گورنر ’’سُپر چیف منسٹر‘‘ کے طور پر کام نہیں کر سکتے اور ریاست میں  طاقت کے دو محور  نہیں ہوسکتےمگر  وہ اپنے فیصلے کے ذریعہ یہ اعتماد پیدا کرنے  سے قاصر ہے کہ  وہ  مرکز میں بدنیتی  کے ساتھ  کام کرنے پر بضد حکومت کو ’’دستور کی روح ‘‘ کی پیروی کا پابند بنائے گا۔ گورنرکسی بل  پر دستخط کرنے کے بجائے اسے اپنے پاس یوں ہی زیر التوا رکھتا ہے تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ یہ ’’غیر معمولی تاخیر‘‘  ہے؟ اور کب گورنر کا یہ   رویہ سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس کیس کے فیصلے کے مطابق’’ ناقابلِ توضیح تاخیر‘‘تصور کیا جائے گا؟ جب سیاسی دھوکہ دہی عام ہو تو بہترین آئینی ادارے بھی جمہوری توازن کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے دور  میںامریکہ  اس کی تکلیف دہ مثال ہے  جہاں  عدلیہ کی خاموش تائید یا عدم تائید  کے دوران  انتظامیہ  نے صدارتی  اختیارات کی  بڑھا چڑھا کر تشریح کی  اورانہیں استعمال کیا۔
 
 
آئین ِہند تکثیریت پر مبنی  ہندوستان میں منصفانہ اور مستحکم نظام قائم کرنے کیلئے بنایاگیا ہے۔ یہ تمام فریقوں کو اصولوں کے مطابق عمل کا پابند کرتا ہے۔ ہمارا سیاسی نظام تب بہترین ہوتا ہے جب ادارہ جاتی توازن قائم ہو، جب حکومت اور  شہریوں کے درمیان صحت مند  اور اکثریت اور اقلیت کے درمیان منصفانہ توازن ہو۔جب  نجی صنعتوں  کیلئے منصفانہ مواقع تو ہوں  مگر عام شہریوں  کے مفادات  کے ساتھ کسی سمجھوتے کے بغیر۔ اور جب   مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں میں مل جل کر کام کرنے کا بہترین نظم ہو۔ یہ فعال جمہوریت کی  بنیادی شرائط ہیں۔
گزشتہ ۷؍دہائیوں میں ہم نے بار بار یہی سبق سیکھا ہے کہ ادارہ جاتی عدم توازن   سے صرف اور صرف  غلط فیصلے اور مہنگے نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ سیاسی محاذ پر دانشمندانہ قیادت کے  فقدان کی صورت میں  عدلیہ پر لازم ہے کہ وہ عدم توازن کو کم سے کم کرے مگر صدارتی ریفرنس  کا فیصلہ اس ضمن میں  اعتماد پیدا کرنے میں ناکام  ہے۔
(بشکریہ: دی وائرڈاٹ اِن، مضمون نگار ’دی ٹربیون‘ کے ایڈیٹر ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK