• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا واقعی اب ہمارے ملک میں سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے؟

Updated: November 23, 2025, 5:55 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

کھلے عام ہارس ٹریڈنگ کرنے، لیڈروں پر تفتیشی ایجنسیوں کا شکنجہ کسنے کے بعد اُن سے اپنی حمایت کروانے اور اب انتخابات سے عین قبل اسکیموں کے نام پر ’رشوت‘ تقسیم کرکے الیکشن جیتنے کو ’ماسٹر اسٹروک‘ قرار دیا جارہا ہے، کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اب ملک میں سیاسی اخلاقیات نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔

The way tens of thousands of rupees were given to lakhs of women in the name of schemes just before the elections in Bihar, can it not be called bribery? Don`t such acts violate political ethics? If so, who will end it? Photo: INN
بہار میں جس طرح سے عین انتخابات سے قبل اسکیموں کے نام پر لاکھوں خواتین میں دس دس ہزار روپے دیئے گئے، کیا اسے رشوت نہیں قرار دیا جاسکتا؟ کیا اس طرح کی حرکتیں سیاسی اخلاقیات کو پامال نہیں کرتیں؟ اگر ہاں تواسے ختم کون کرے گا؟ تصویر:آئی این این
بہار کی سیاست کبھی ملک کی جمہوری تحریکوں کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ یہاں جے پرکاش نارائن کی للکارنے والی آواز گونجتی تھی، یہاں لالو پرساد یادو کی سیاست نے سماجی انصاف کو نئی زبان دی تھی، یہاں نتیش کمار نے کبھی ’’سوشاسن‘‘ کے نام پر گورننس کا ایک نیا ماڈل پیش کیا تھا۔ یعنی یہ وہ سرزمین تھی جہاں سیاسی تحریکیں جنم لیتی تھیں، اخلاقی اصولوں پر لڑائیاں لڑی جاتی تھیں  اور عوام کا شعور ملک کے بقیہ حصوں کے  لئے ایک مثال بنتا تھا۔ مگر آج یہی بہار ایک ایسے سیاسی زوال کا شکار نظر آتا ہے جس میں نہ نظریہ بچا ہے، نہ وفاداری،  نہ ذمہ داری۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ بہار کی سیاست میں اخلاقیات اتنی تیزی سے دفن ہو گئی کہ کسی کو اس قبر پر فاتحہ پڑھنے کی بھی توفیق نہ ہوئی؟بہار کے موجودہ سیاسی منظرنامے کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سیاست اب نظریات کی جنگ نہیں بلکہ بازار کی بولی بن چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب پارٹی بدلنا اخلاقی خودکشی سمجھا جاتا تھا۔ آج وہی کام فخر سے کیا جاتا ہے، اسے سیاسی مہارت کہا جاتا ہے اور ٹیلی ویژن پر مباحثوں میں اسے ’زمینی حقیقت‘کہہ کر جواز بھی دیا جاتا ہے۔ کل تک جو لیڈر مخالف جماعت کو ’بدعنوان‘ کہہ کر کوستے تھے، آج وہی اس جماعت کے وزیر بننے کی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ کوئی نئی پالیسی، کوئی نیا منشور، کوئی سیاسی نظریاتی تبدیلی؟ نہیں صرف دباؤ، دولت، مقدمات اور اقتدار کی چمک۔بہار میں ہارس ٹریڈنگ اب چھپ کر نہیں ہوتی، بلکہ کھلم کھلا ہوتی ہے۔ کسی زمانے میں خرید و فروخت کا الزام لگ جائے تو لیڈران منہ چھپاتے  پھرتے تھے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کو ریزورٹس میں لے جایا جاتا ہے ۔ پارٹی ترجمان صبح ٹی وی چینلوں پر مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہمیں تو خود نہیں معلوم، ہمارے ایم ایل اے تو بس چھٹی پر گئے ہیں۔‘‘ عوام ہنستے بھی ہیں اور کڑھتے بھی ہیںمگر سیاستدانوں کے چہروں پر کوئی ندامت نظر نہیں آتی۔اس سارے کھیل میں ایک نیا کردار ابھرا ہےجانچ ایجنسیاں۔ بہار کا لیڈر اگر آج مخالف کیمپ میں ہے اور کل کسی مقدمے میں پھنس جائے تو دوسرے دن ہی ایک نئی پریس کانفرنس میں حکومت کی تعریفیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بہار کے عوام یہ نظارہ بارہا دیکھ چکے ہیں۔ کل تک جو سیاسی لیڈر آمریت کے الزامات لگارہا تھا  ، وہ اگلے ہفتے اسی حکومت کے  لئے قربانی دینے کو تیار نظر آتا ہے۔ یہ وفاداری نہیں، یہ عقیدت نہیںیہ خوف کی سیاست ہے، جہاں ضمیر کی جگہ ایف آئی آر لے لیتی ہےاور اصولوں کی جگہ نوٹس موصول ہو جاتے ہیں۔
الیکشن قریب آتے ہی ایک اور کھیل شروع ہوتا ہےترقی کے نام پر ’’سرکاری خرچ‘‘کی ایسی بارش کہ لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ یہ فلاحی اسکیم ہے یا انتخابی رشوت۔ پانچ برسوں تک ترقیاتی منصوبے فائلوں میں دبے رہتے ہیں مگر الیکشن سے ڈیڑھ دو مہینہ پہلے سڑکیں بنتی ہیں، اسکیموں کی رقم تیزی سے تقسیم ہوتی ہے، راشن کارڈ تیز رفتاری میں جاری ہوتے ہیں  اور ہر طرف ایک سیاسی رونق لگ جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود سیاست داں اسے ’ماسٹر اسٹروک‘ کہہ کر عوامی ذہانت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حالانکہ بہار کی سیاست میں یہ رجحان نیا نہیں ہے کہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں انتخابی موسم آتے ہی عوامی بہبود کے منصوبوں کو اچانک تیز کر دیتی ہیں مگر حالیہ برسوں میں یہ رجحان اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بہت سے اقدامات اپنی اخلاقی بنیاد کھو بیٹھے ہیں۔ اب ترقیاتی اسکیموں یا براہِ راست نقد امداد کو عوامی ضرورت کے بجائے انتخابی حکمت عملی بلکہ صاف لفظوں میں رشو  ت کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس عمل کو  سیاسی بیانیے میں ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ بھی کہا جاتا ہے، گویا فلاح نہیں بلکہ خرید و فروخت کامیاب حکمرانی کی نشانی بن گئی ہو۔بہار اس رویےکا سب سے واضح نمونہ پیش کرتا ہے۔ یہاں برسوں سے بنیادی ڈھانچے، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں وہ مستقل مزاجی نہیں دکھائی دیتی جو پائیدار ترقی کے  لئے ضروری ہوتی ہے۔ مگر انتخاب قریب آتے ہی حکومت اچانک سرگرم ہو جاتی ہیں  اور کیش ٹرانسفر یا فائدہ پہنچانے والی اسکیمیں غیرمعمولی رفتار سے چلائی جاتی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ عوام کو مدد کیوں مل رہی ہے؟ سوال یہ ہے کہ مدد صرف الیکشن کے وقت ہی کیوں یاد آتی ہے؟جمہوریت میں ووٹ شہری حق ہے  اور اسے قلیل مدتی مراعات کے بدلے استعمال کرنا عوامی شعور کی توہین ہے۔ جب حکومتیں انتخاب سے چند ہفتے پہلے اربوں روپے خرچ کر کے ووٹر کے جذبات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو یہ ایک طرح سے سیاسی عدمِ اعتماد کا اعلان ہے ۔اسی عدمِ اعتماد کا کہ پانچ سال کی کارکردگی عوام کو قائل نہیں کر سکتی، اس لیے آخری لمحے میں تحائف ہی واحد راستہ بچتے ہیں۔بہار جیسے سیاسی طور پر بیدار صوبے میں اس طریقے کے نقصانات اور بھی گہرے ہیں۔ یہاں کے ووٹر ہمیشہ قومی و علاقائی سیاست کے بدلتے رجحانات پر گہری نظر رکھتے ہیں، مگر جب سیاست ہی مراعات کے گرد گھومنے لگے تو عوام کی قوتِ فیصلہ پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔ کمزور طبقات کے  لئے یہ عارضی سہولتیں وقتی ریلیف تو دیتی ہیں لیکن طویل مدتی مسائل جیسےبے روزگاری، شعبہ صحت کی ناکامی، تعلیمی بحران،  لیبر کی ہجرت پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتیں۔ یوں سیاسی فائدے کے  لئے دی گئی رقم آخرکار ریاست کی مجموعی ترقی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔یہاں اصل خطرہ یہ نہیں کہ سیاست داںالیکشن سے پہلے ’تحفے‘ بانٹ رہے ہیں،اصل خطرہ یہ ہے کہ اس عمل کو نارمل سمجھ لیا گیا ہے۔ جب الیکشن اخلاقیات کی قیمت پر جیتے جائیں ، جب رشوت کو فلاح کا نام دے دیا جائےاور جب سیاسی خریداری کو کامیابی سمجھا جانے لگے، تو جمہوریت کمزور ہوتی ہے،صرف اداروں میں نہیں، بلکہ عوام کے شعور میں بھی۔بہار کی سیاست اگر واقعی نئی سمت چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے اس ذہنیت سے نکلنا ہوگا کہ ووٹ صرف وقتی فائدے سے جیتا جا سکتا ہے۔ عوام کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کسی اسکیم  کےمحتاج ووٹر نہیں، بلکہ  بااختیار شہری  ہیں، جن کا ووٹ مستقبل طے کرتا ہےنہ کہ ایک وقتی مالی رعایت۔
بہار جیسے سیاسی طور پر باشعور صوبے میں یہ منظر ویسے بھی حیران کن ہے اور تکلیف دہ بھی۔اصل سوال یہ ہے کہ اس پوری سیاسی بدنظمی میں عوام کا کردار کیا ہے؟ کیا عوام واقعی بے بس ہیں یا وہ بھی اس کھیل کا حصہ بن چکے ہیں؟ بہار کے گاؤں دیہات میں آج بھی لوگ سیاست پر گھنٹوں بحث کرتے ہیں، ذات پات اور قیادت کا تجزیہ کرتے ہیں، مگر جب ووٹ کی گھڑی آتی ہے تو ان کا فیصلہ اکثر انہی پرانے جذبات، انہی وعدوں اور اسی روایتی کشش کا غلام بن جاتا ہے۔ شاید عوام نے بھی دل سے مان لیا ہے کہ سیاستداں ویسے ہی رہیں گے جیسے ہیںاور جب عوام کا یقین اصولوں پر سے اٹھ جائے تو پھر اخلاقیات کی موت یقینی ہے۔لیکن کیا واقعی سب کچھ ختم ہو چکا ہے؟ کیا بہار کا سیاسی شعور مردہ ہو چکا ہے؟  بہار کی تاریخ گواہ ہے کہ جب عوام چاہیں تو پورے ملک کی سیاست بدل کر رکھ دیں۔ وہ بہار ہی تھا جہاں سے لوک نائک کی تحریک اٹھی، وہ بہار ہی تھا جہاں سماجی انصاف کی لہروں نے سیاسی ڈھانچے کو بدل دیا۔ ضرورت بس اتنی ہے کہ عوام یہ طے کریں کہ وہ سیاست دانوں کے کھیل کے تماشائی رہیں گے یا اس اسٹیج سے انہیں نیچے اتار کر جمہوریت کے اصل مالک بن کر سامنے آئیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK