Inquilab Logo

اور کتنی عائشہ جہیز کی بھینٹ چڑھیں گی؟

Updated: March 18, 2021, 11:50 AM IST | Khalid Shaikh

احمد آباد کی ۲۳؍ سالہ عائشہ نامی خاتون کی خودکشی کے بعدملی تنظیموں اور ممتاز شخصیتوں کی طرف سے مشورے دیئے جارہے ہیں، سماج میں پھیلی برائیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ کیا ان سے کچھ حاصل ہوگا؟ یا معاملہ ٹھنڈا پڑنے کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا ۔

Campaign against Dowry - Pic : INN
جہیز کیخلاف مہم ۔ تصویر : آئی این این

مذہب کو جتنا نقصان اس کے جاننے والوں سے پہنچا، اتنا غیروں سے نہیں … مذہب سے محبت کا دعویٰ   ہر کوئی کرتا ہے لیکن عملی زندگی اس کی تعلیمات کے اثر سے خالی نظر آتی ہے۔ قول وعمل کا یہ تضاد ہرشکست خوردہ اور زوال آمادہ قوم کا وتیرہ رہا ہے۔ جس قوم میں بے حسی اور بے عملی کے جراثیم سرایت کرجائیں،بھلے بُرے، حلال وحرام اور جائز وناجائز کی تمیز اٹھ جائے وہ برائیوں اور گناہوں کے دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ مذہب کے تعلق سے ہر قوم کی زندگی کے  دو دَور ہوتے ہیں۔ پہلا دور: جب وہ مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتی ہے جس کا اظہار زندگی کےہر شعبے اور قول وفعل سے ہوتا ہے۔ دوسرا دور:  جب وہ مذہبی تعلیمات سے رو گردانی کرکے خواہشات کی غلام بن جاتی ہے لیکن مذہب سے اپنے اعتقادی اور جذباتی تعلقات کے اظہار کے لئے خاص خاص موقعوں پر جلسے  جلوس اور نعرے بازی جیسے سستے اور بھونڈے طریقے اپنا کر خود کو مطمئن پاتی ہے۔ اسلام اس طرح کی نمائشوں کا محتاج نہیں ، نہ ہی وہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ 
  کسی بھی قوم کی شناخت اس کے طرز معاشرت اور نوجوان نسل سے ہوتی ہے جو  سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پیمانے پر اگر ہم امت مرحومہ (اس اصطلاح کے لئے ہمیں معاف کیاجائے ) کا جائزہ لیں تو مایوسی ہاتھ آئے گی۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں لیکن ہمارے کردار وعمل کے کسی بھی گوشے سے مسلمان ہونے کا اظہار نہیں ہوتا۔ غیر مسلموں میں ہمارا تعارف بہت گھناؤنا اور بھیانک ہے۔ ہم اُن برائیوں کا چلتا پھرتا اشتہار ہیں جن کی اسلام توکیا ،کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ حد یہ ہے کہ دہشت گردی کے ہر معاملے میں شک کی سوئی ہماری طرف گھوم جاتی ہے جس سے تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کو ہمیں جھوٹے الزامات میں پھنسانے کا موقع ملتاہے ۔ عدلیہ کے اپنے مسائل ہیں جسے مذکورہ ایجنسیوں پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کیسیز معرض التوا میں رہتے ہیں۔ نتیجتاً جب زندگی کے کئی قیمتی سال قید وبند کی صعوبتوں میں گزارنے کے بعد  ناکافی ثبوت کی بناء پر ملزم کو رہائی نصیب ہوتی ہے تو نئے سرے سے زندگی گزارنے میں اسے جو دقتیں پیش آتی ہیں وہ اس کا اورا ہل خانہ کا دل جانتا ہے۔ حیرت اس پربھی ہوتی ہے کہ عدالتوں میں حادثے میں زخمی  اور  فوت ہونے والوں کے لئے اور ڈاکٹروں کی لاپروائی اور ہتک عزت جیسے معاملات میں ہرجانے کا نظم ہے لیکن غلط طورپر پھنسائے گئے ملزمین اور خاندان کی بدنامی، انہیں ہونے والی  تکالیف اور نقصانات کی بھرپائی اور خاطی افسروں کو سبق سکھانے کا کوئی نظم نہیں ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ آزادی کے بعد برسوں کٹتے، پٹتے، لٹتے رہنے اور ذلیل وخوار ہونے کے باوجود ہمارے اندر بیداری کی کوئی رمق نہیں پائی جاتی۔ یہ المیہ اکیلے ہندوستانی مسلمانوں کا   نہیں، سارا عالم اسلام دَورِ ابتلا میں ہے۔ اس کے لئے دوسروں کو الزام دینا  خود کو جھوٹی تسلّی دینے کے مترادف ہے۔ سچ یہ ہے کہ جس طرح جڑ سے اکھڑ کر درخت اوراس کے برگ وبار سوکھنے لگتے ہیں اسی طرح قومیں اپنی تہذیبی و ثقافتی اور اخلاقی اقدار سے کٹ کر اپنی شناخت کھوبیٹھتی ہیں۔ 
 کہنے کو تو ہم دنیا کی دوسری سب سے بڑی قوم ہیں لیکن بے وزنی اور بے وقعتی میں سب  سے  آگے   اور نفرت وملامت کا ہدف ہیں۔ ہم نے اپنی بداعمالیوں سے اُس دین پر بھی اغیار کو انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کیا جو سارے عالم کیلئے ہدایت ورحمت بن کرآیا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب دنیا، دلوں میں گَھرکر جاتی ہے  اورآخرت کا خوف  نکل جاتا ہے۔ 
 ہر مذہب کی بنیاد ، عقائد ، عبادات اور معاملات پر ہوتی ہے ۔ عقائد وعبادات  لازمی ہونے کے باوجود دوسروں کے لئے وہ وسیع وعمیق اثرات نہیں رکھتے جو اسلام کی اخلاقی تعلیمات یعنی معاملات میں پوشیدہ ہیں ۔ اُن پر عمل کرکے ہم آج بھی  دنیا کو گرویدہ بناسکتے ہیں لیکن تن آسانی کی خاطر ہم نے یہ فریضہ اوردینی رہنمائی کی ذمہ داری علمائے کرام اور ائمۂ مساجد پر  ڈال  دی ہے ۔ جنہیں  سماج میں عزت واحترام اور عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ اپنا  یہ فریضہ انجام بھی دے رہے ہیں لیکن برائیوں کا غلبہ اتنا شدیدہے کہ صدیوں  سے جاری اصلاحِ معاشرہ کی مہم کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اس کی دو وجہیں ہوسکتی  ہیں۔ معاشرے میں انقلابی تبدیلی کے لئے جس لگن، محنت، صبر وضبط اور عزم واخلاص کی ضرورت ہوتی ہے وہ مصلحین  میں مفقود ہے یا امت مرحومہ نے   نیک اور اچھی باتیں قبول کرنے کی صلاحیت کھودی ہے۔ وعظ ومجالس میں یوں تو  آپ کو بڑی بھیڑ نظرآئے گی لیکن وہاں سے اٹھنے کے بعد یہ بھیڑ پھر دنیا داری میں کھو جاتی ہے۔ ہماری دانست میں معاشرے میں پھیلی برائیوں کے سد باب کے لئے صرف وعظ وموعظت سے کام نہیں چلے گا، مصلحین کو  محراب ومنبر  کے ساتھ ملّت کا درد رکھنے والوں کو لے کر ایک ایکشن پلان بناکر میدان عمل میں اترنا ہوگا کیونکہ آنے والے دن مزید خراب ہوسکتے ہیں۔
 اس لمبی تمہید کا بنیادی سبب احمد آباد کی ۲۳؍ سالہ عائشہ نامی خاتون کی خودکشی ہے جسے اس کے حریص اور لالچی شوہر  اور سسرال والوں نے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔ یہ پہلا اور آخری سانحہ نہیں۔ ہزاروں خواتین جہیز کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ عائشہ کی خودکشی کو اس کے ویڈیو کی وجہ سے شہرت ملی۔ اس نے  چیٹنگ کے ذریعے والدین کو اپنے ارادے سے مطلع کیا اوران کے منع کرنے کے باوجود سابرمتی ندی میں چھلانگ لگادی۔ بحث کا موضوع بننے کے بعد ایک بار  پھر اصلاحِ معاشرہ کی مہم میں اُبال آیا۔  ملی تنظیموں اور ممتاز شخصیتوں کی طرف سے مشورے دیئے جارہے  ہیں، سماج میں پھیلی برائیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ کیا ان سے کچھ حاصل ہوگا؟ یا معاملہ ٹھنڈا پڑتے ہیسب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا؟ ہم زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اصلاح معاشرہ کا بیڑا اٹھانے کے ساتھ  پہلے اپنے گھروں کی خبر لی جائے۔ آج شادی ، بیاہ اورجہیز کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ مسلم سماج کا حصہ کبھی نہیں تھا یہ ساری برائیاں ہم نے دوسروں سے لی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK