Inquilab Logo

اورکتنی نربھیا جنسی تشددکی بھینٹ چڑھیں گی؟

Updated: October 15, 2020, 12:13 PM IST | Khalid Shaikh

ہاتھرس میں ۱۹؍ سالہ دلت دوشیزہ کے ساتھ جو ہوا ، اس کے چار اعلیٰ ذات کے پڑوسیوں نے جس درندگی کا مظاہرہ کیا ، وہ افسر شاہوں کی نااہلی کی بدترین مثال تھا۔

Hathras Case - Pic : PTI
ہاتھرس معاملہ ، عوام کا احتجاج جاری ہے ۔ تصویر : پی ٹی آئی

  خواتین    کی آبروریزی تاریخ کا کوئی نیا واقعہ یا حادثہ نہیں۔ اس طرح کے سانحات تسلسل کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں جس میں کسی علاقے کو کوئی تخصیص حاصل نہیں۔ وہ کہیں بھی ، کسی وقت بھی ہوسکتے ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے جب اس طرح کی کوئی واردات ملک کے پورے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو دہلی میں ۲۳؍ سالہ پیرامیڈیکل طالبہ نربھیا کے ساتھ ایسی ہی ایک واردات ہوئی جس نے پورے ملک کو دہلادیا۔ حادثہ جتنا بھیانک تھا اس کا ردعمل اتنا ہی شدید تھا۔ پورے ملک میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے ، کینڈل مارچ نکالا گیا اور ملزمین کو سرعام پھانسی دینے کی مانگ کی گئی۔ عوامی برہمی کو دیکھتے ہوئے منموہن سنگھ حکومت کو مجبوراً فاسٹ ٹریک کورٹ اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی جے ۔ ایس ۔ ورما کی سربراہی میں ایک سہ نفری کمیشن تشکیل دینا پڑا۔ مجبوراً کا لفظ ہم نے قصداً استعمال کیا کیونکہ ہماری حکومتیں صرف احتجاج اور مظاہروں کی زبان سمجھتی ہیں۔
  خواتین کے خلاف جرائم پر ورما کمیشن رپورٹ ایک جامع رپورٹ ہے جس میں جرائم کے ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا ہے اور جنسی نقطۂ نظر سے ہر قابل اعتراض رویّے پر گرفت کی گئی ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ جرائم میں کمی آنے کے بجائے بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نربھیا سانحہ کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب اس کی بازگشت نہ سنائی دی ہو۔ ہمیں  یہ مان کر چلنا چاہئے کہ بدعنوانی کی طرح بدکاری کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جاسکتا لیکن اگر حکومت اور پولیس اپنے فرائض اور قانون کے نفاذ کے تئیں سنجیدگی اور سختی اختیار کرے تو اس طرح کے جرائم پر بڑی حد تک قابو پایاجاسکتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ پولیس ملزم کی حیثیت  کو دیکھتے ہوئے معاملات درج کرنے میں ٹال مٹول کرتی ہے اور عدلیہ کی روایتی تاخیر اپنی قیمت الگ وصول کرتی ہے۔ دراصل تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس محکموں نے مودی کے دور میں اپنی آزادی اور خودمختاری کو مرکز اور بی جے پی ریاستوں کے پاس رہن رکھ دیا ہے۔ یوپی  میں گزشتہ ایک مہینے سے جو کچھ ہورہا ہے وہ حکومت ،   آئی اے ایس  اور آئی پی  ایس افسران کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے ۔ ۱۴؍ ستمبر کو جس لڑکی کا ریپ ہوا وہ دلت تھی اور ملزموں کا تعلق اعلیٰ ذات والوں سے ہے جنہیں حکومت اور اعلیٰ ذات والے بچانا چاہتے ہیں۔ تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود ہندو سماج آج بھی ذات پات کے حصار سے باہر نہیں نکل سکا ہے کیونکہ’’ ورن آشرم ‘‘ ہندومذہب کا جزولاینفک ہے۔
  قارئین کو یاد ہوگا کہ ۲۰۱۷ء میں حلف برداری کے موقع پر وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ایک بڑا دعویٰ کیا تھا کہ ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کا قیام ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ گزشتہ تین برسوں میں امن وامان کی بحالی تو دور نظم ونسق کی صورت حال ابترہوگئی ہے۔ کسی زمانے میں دہلی کرائم اور ریپ کیپیٹل کہلاتا تھا۔ مودی کے آنے کے بعد اب یہ اعزاز بی جے پی ریاستوں کو حاصل ہے اور یوپی ان میں سرفہرست ہے۔ دلتوں پر مظالم بڑھے ہیں۔ خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں شدت آئی ہے۔ قتل وغارتگری میں اضافہ ہوا ہے۔ انکاؤنٹر کے نام پر خود پولیس کے ہاتھوں اب تک ۱۱۵؍ افراد مارے جاچکے ہیں ان میں کتنے فرضی ہوں گے اس کا علم پویس کو ہوگا یا حکومت کو۔ یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ افسر شاہ اپنے فرائض منصبی تج کرکے حکومت کی خوشامد میں لگ گئے ہیں۔ ۱۴؍ ستمبر کو ہاتھرس میں ۱۹؍ سالہ دلت دوشیزہ کے ساتھ جو ہوا ، اس کے چار اعلیٰ ذات کے پڑوسیوں نے جس درندگی کا مظاہرہ  کیا ،  وہ افسر شاہوں کی نااہلی کی بدترین مثال تھا۔ لڑکی کو جس طرح کی جسمانی اذیت دی گئی اس سے ملک ایک بار پھر شرمسار ہوگیا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو وہ چوٹ پہنچائی گئی کہ وہ مفلوج ہوگئی۔ گلا اس زور سے دبایا گیا کہ زبان باہر نکل آئی اور آنکھیں ابل پڑیں۔ اس کے باوجود وہ غیر مغلوب قوت ارادی کی مالک ثابت ہوئی ۲۲؍ ستمبر کو ہوش میں آنے کے بعد مجسٹریٹ کی موجودگی میں اس نے بیان ریکارڈ کرایا ، ملزمین کی شناخت کی اور ۲۹؍ ستمبر کو موت کے آگے سپر ڈال دی۔ اس عرصے میں اسکے گھر والوں پر کیا بیتی ہوگی اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
  لڑکی کے انتقال کے بعد انسانیت اور قانون واخلاق کے ناطے اس کی نعش کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے متاثرہ خاندان کے حوالے کیاجانا چاہئے تھا ایسا نہیں کیا گیا بلکہ لاء اینڈ آرڈر کو بہانہ بناکر پولیس نے  ڈھائی سے تین بجے رات کے درمیان چتا کو آگ لگا دی ۔ اہل خانہ کو  لڑکی کے آخری دیدار اورآخری رسومات سے محروم رکھا گیا۔ معاملہ اسی پر ختم نہیں ہوا۔ میڈیا اور اپوزیشن لیڈروں کو گاؤں میں  داخلہ سے روکنے کیلئے گاؤں کو سیل کردیا گیا۔ ڈی ایم نے اہل خانہ پر بیان بدلنے کیلئے  لالچ دیا، دھمکی دی لیکن ناکام رہا ۔ اس درمیان اعلیٰ ذات والے بھی چپ نہیں بیٹھے۔ انہوںنے ملزمین کو بے گناہ بتایا اور لڑکی اور اس کے گھر والوں کی کردار کشی شروع کر دی۔ پولیس نے اعلان کیا کہ لڑکی کا ریپ نہیں ہوا۔ اس دوران ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ لڑکی کی نعش کی بے حرمتی اس کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک اور پولیس  دھاندلیوں کا نوٹس لیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے ہاتھرس کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس پی سمیت یوپی کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (لاء اینڈ آرڈر) کو سمن بھیجا ۔ ۱۲؍ اکتوبر کو ہوئی سماعت کی تفصیل میڈیا کو بتاتے ہوئے متاثرہ خاندان کے وکیل نے جو انکشاف کیا اسے سن کر کسی بھی باضمیر شخص کو شرم سے ڈوب مرنا چاہئے۔ وکیل نے انکشاف کیا کہ کورٹ  نے اے ڈی جی سے دو سوال کئے (۱)جو سلوک دلت لڑکی کی چتا کے ساتھ کیا گیا اگر اس کی جگہ آپ کی بیٹی ہوتی تو کیا آپ اس کی اجازت دیتے ؟ (۲) اگر متاثرہ کا تعلق کسی متمول خاندان سے ہوتا تو کیا اس ے ساتھ بھی پولیس دلت لڑکی جیسا سلوک کرتی؟ ظاہر ہے اے ڈی جی سے کوئی جواب نہ بن پڑا ہوگا لیکن اس وقت ان کی صورت ضرور دیکھنے لائق رہی ہوگی۔ بہرحال جنسی تشدد اور دلتوں پر مظالم کا یہ سلسلہ اس وقت تک ختم نہ ہوگا جب تک تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس محکموں کو سیاسی  آقاؤں کےچنگل سے نہیں نکالا جاتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK