Inquilab Logo Happiest Places to Work

وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَک

Updated: September 29, 2023, 11:41 AM IST | Muhammad Arshad Misbahi | Mumbai

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے ذکر پاک کو خود ہی بلند فرمایا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ ذکر سرکار ﷺ کا ہی ہو رہا ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے ذکر پاک کو خود ہی بلند فرمایا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ ذکر سرکار ﷺ کا ہی ہو رہا ہے۔ برطانیہ جیسے غیر مسلم ملک میں بھی سرِ فہرست ناموں میں نام ’’محمد‘‘ بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رفعت و عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپﷺ کی ولادتِ طیبہ سے صدیوں بلکہ ہزاروں سال پہلے بھی آپؐ کا ذکر مبارک ہوتا رہا ہے۔ اس حقیقت کی بہت سی مثالیں ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتی ہیں ۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ تین مثالیں پیش کرتے ہیں ۔
 (۱) حضور پاک ﷺ کی پیدائش سے تقریباً چھ سو سال پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: 
 ’’اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسٰی بن مریم (علیہما السلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔‘‘ (الصف:۶)
 (۲) اِسی طرح رسولؐ اللہ کی پیدائش سے تقریباً تین ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دُعا قرآن مجید میں موجود ہے:
 ’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘ (البقرہ:۱۲۹)
 (۳) یہود کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک عادتِ کریمہ بیان کی:
 ’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺاور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے۔‘‘ (البقرہ:۸۹)
  ان بیان کردہ آیات میں عالمِ اجسام کا ذکر ہے کہ انبیاء، مرسلین اور اہل الکتاب آپؐ کا ذکر آپؐ کی ولادت باسعادت سے پہلے بھی کثرت سے کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ نے عالمِ ارواح کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
 ’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں ) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔‘‘ (سورۃ آل عمران:۸۱)
  عام طور پر ہر انسان کا ذکر اس کی پیدائش اور موت کے بعد کیا جاتا ہے مگر اللہ کے رسول ﷺ کا ذکر ِ خیر آپؐ کی مبارک پیدائش اور آمد سے پیش تر بھی کثرت سے ہوتا رہا ہے۔
 آخر میں اس بات پر اپنا کلام ختم کرتا ہوں کہ:
 سیدالعالمین ﷺ کی تشریف آوری سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے یمن کے بادشاہ تبع حمیری رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے۔ مدینہ شریف میں آپ کےلئے دو منزلہ گھر تعمیر کروایا اور باقاعدہ خط میں آپ کو مخاطب کیا اور لکھا: کمترین مخلوق تبع اول حمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سیدالمرسلین محمد رسول اللہ ﷺ (کی طرف) امابعد! اے اللہ کے حبیب میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ پر نازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں ، اور میں آپ کے دین پر ہوں پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا اور غنیمت، اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا۔ میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں ۔ 
 اس خط کو سن کر سرکار ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: مَرحَبا بِالْاَخِ الصَّالح۔ 
 (میں اپنے نیک بھائی کو مرحبا کہتا ہوں ۔) 
(المُستَطْرَفْ: حُجَّۃ اللہ علی العالمین؛ تاریخ ابن عساکر)
  قرآن پاک کی سورۃ قٓ اور سورۃ دخان میں قوم تُبَّع کا ذکر موجود ہے۔
  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
  ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند فرما دیا۔‘‘ (الم نشرح:۷)n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK