Inquilab Logo

اور کتنا مذاق ِمہنگائی‘؟ 

Updated: May 26, 2022, 10:54 AM IST | Mumbai

اپریل میں مہنگائی ۸؍ سال کی سب سے اونچی سطح پر تھی۔ وجہ سامنے ہے۔ غذا مہنگی، ایندھن مہنگا۔افراط زر کی شرح میں اضافہ تو ہوگا ہی۔ جو حال اپریل کا تھا وہی مئی کا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اپریل میں مہنگائی ۸؍ سال کی سب سے اونچی سطح پر تھی۔ وجہ سامنے ہے۔ غذا مہنگی، ایندھن مہنگا۔افراط زر کی شرح میں اضافہ تو ہوگا ہی۔ جو حال اپریل کا تھا وہی مئی کا ہے۔ اب بھی اس میں کمی نہیں آئی ہے۔ کب آئیگی اس کا کسی کو اندازہ  نہیں ہے۔ مرکزنے ایندھن کے دام کم کرنے پر توجہ دی ہے مگر جو رعایت دی گئی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے جیسی ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ وصول کی جانے والی اکسائز ڈیوٹی اگر ختم نہیں کی جاسکتی تھی تو اُس کی شرح نصف کردی جاتی؟
  حال ہی میں کرائے گئے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ۹۲؍ فیصد شہریوں کے ماہانہ اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں ۷۰؍ فیصد لوگوں نے کہا کہ ۱۰؍ فیصد خرچ بڑھا ہے جبکہ ۵۵؍ فیصد کا کہنا تھا کہ آئندہ تین مہینوں میں ماہانہ خرچ میں مزید ۱۰؍ فیصد اضافہ کا خدشہ ہے۔ ’’لوکل سرکلس‘‘ نامی ایک کمیونٹی پلیٹ فارم نے یہ سروے آن لائن کیا ہے۔ اس سے عوام کی پریشانی کا اندازہ تو کیا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پریشانی جتنی بتائی گئی ہے، اُس سے زیادہ ہے۔ عوام کے گھریلو اخراجات میں ۱۰؍ فیصد نہیں بلکہ کم از کم ۳۵؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر سروے میں یہ بات نہیں آئی ہے تو ممکن ہے کہ اس کا سبب سروے کا سیمپل (جتنے افراد سے معلومات حاصل کی گئی) مختصر ہو۔  اطلاعات کے مطابق ۲۳؍ ہزار ۵؍ سو لوگوں سے چند سوالات کئے گئے اور مذکورہ نتائج اخذ کئے گئے۔ اگر زیادہ لوگوں سے رابطہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ حقیقی صورت حال سامنے آتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سروے میں حصہ لینے والے لوگ وہ ہوں جنہوں نے مہنگائی کے سبب اپنے گھریلو بجٹ کو خود ہی کم کردیا ہو اور اب وہ کم مقدار میں غذائی و دیگر اشیاء کا استعمال کرتے ہوں۔ ایسا کرنے کے بعد اُنہیں ۱۰؍ فیصد زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہوگا اس لئے انہوں نے یہ فیصد بتایا۔ ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شرح (۱۰؍ فیصد) بتائی گئی ہے وہ اوسط ہو۔ بہرکیف سروے کی رپورٹ میں درج ہے کہ ۲۶؍فیصد خاندان ایسے ہیں جن کے اخراجات میں ۲۰؍ تا ۳۰؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ ۱۰؍ فیصد خاندانوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں ۳۰؍ تا ۴۰؍ فیصد زیادہ رقم خرچ کرنی پڑرہی ہے۔ ۳؍ فیصد خاندانوں کا کہنا ہے کہ اُن کا بجٹ ۵۰؍ فیصد بڑھ گیا ہے۔  ستم بالائے ستم وزارت مالیات کا بیان ہے۔ جس دن خردہ اشیاء کی مہنگائی (برائے اپریل) کے اعدادوشمار منظر عام پر آئے اُسی دن وزارت مالیات نے کہا کہ قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس سے امیروں کو زیادہ فرق پڑتا ہے، غریبوں کو کم۔ یہ عجیب منطق ہے۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ مہنگائی کے سبب غریب اور متوسط طبقے کے لوگ نہایت ضروری اشیاء ہی خریدتے ہیں جبکہ امیر طبقہ کے افراد اپنی دیگر یعنی غیر غذائی ضرورتوںپر بھی خرچ کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اس لئے تمام اشیاء کی مہنگائی سے اُن پر افراط زر کی مار زیادہ پڑتی ہے۔ یہ منطق اس لئے درست نہیں ہے کہ مہنگائی کی پیمائش اشیائے خوردونوش ہی کے حوالے سے کی جاتی ہےاور دیکھا یہ جاتا ہے کہ اناج کی قیمتیں کتنی بڑھیں اور سبزیوں کے دام پر کتنا اثر پڑا۔  انگریزی کے ایک محاورے کا ترجمہ ہے : کسی کو دیوار تک دھکیلنے کے بعد کیا؟ اس سے آگے تو دھکیلا نہیں جاسکتا! یہی اِس وقت کی صورت حال ہے۔ مہنگائی کو  جتنا سہا جاسکتا تھا، سہہ لیا گیا، اب مزید برداشت کی قوت عوام میں نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK