اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے جلال و جمال کا مظہر بنایا ہے ۔ دونوں صفات اعتدال پر ہوں تو انسان اشرف المخلوقات ورنہ جلال یعنی غصہ حد سے بڑھ جائے تو باعث ندامت بن جاتا ہے ۔ غصہ کے ہمیشہ انسان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ندامت و شرمندگی کا اس کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالات خواہ کیسے بھی ہوں، غصے سے بہرحال بچنا چاہئے۔ تصویر: پی ٹی آئی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے جلال و جمال کا مظہر بنایا ہے ۔ دونوں صفات اعتدال پر ہوں تو انسان اشرف المخلوقات ورنہ جلال یعنی غصہ حد سے بڑھ جائے تو باعث ندامت بن جاتا ہے ۔ غصہ کے ہمیشہ انسان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ندامت و شرمندگی کا اس کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور معاشرہ میں نفر ت جنم لیتی ہے جبکہ صبر و حلم اور غصہ کو پی جانا عزت ،اچھی شہرت اور نیک نامی کا باعث بنتا ہے ۔
لیکن دیکھا گیا ہے کہ آج کل معمولی معمولی باتوں پر ہر شخص کو غصہ آجاتا ہے۔ معاف کرنا ،درگزر کرنا اور غصہ پی جانا جیسے ہمارے معاشرے سے اٹھالیا گیا ہو ۔انہی سخت حالت کے پیش نظر فقہیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز تصنیف تنبیہ الغافلین سے اکتباس فیض کر کے نظر قارئین یہ مضمون کیا جاتا ہے ۔
lغصہ کا علاج اور اس کی رو سے بہترین اور بدترین لوگ:ابو للیث سمر قندیؒ اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’غصہ آگ کی چنگاری ہے ۔تم میں سے جو شخص اسے محسوس کرے اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے ۔‘‘
حضرت ابو سعید خدریؓ آپؐ کا یہ ارشاد مبارک بھی نقل کرتے ہیں کہ :’’غصہ سے بہت بچتے رہو کہ وہ ابن آدم کے دل میں آگ پیدا کرتا ہے ۔‘‘
کبھی دیکھا ہے کہ جب کسی کو غصہ آتا ہے تو اس کی آنکھیں کیسی سرخ ہو جاتی ہیں اور رگیں کیسے پھولنے لگتی ہیں؟ جب تم میں سے کسی کو یہ صورت پیش آئے تو اسے لیٹ جانا چاہئے اور مناسب ہے کہ زمین کے ساتھ چمٹ جائے ۔ نیز ارشاد فرمایا کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو جلدی غضب ناک ہو جاتے ہیں اور جلدی ان کا غصہ فرو ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کا بدل بن جاتی ہیں اور کچھ لوگ ہیں جنہیں غصہ دیر سے آتا ہے مگر زائل بھی دیر ہی سے ہوتا ہے ۔یہاں بھی ایک بات دوسری کا بدل بن گئی۔ اور تم میں سے بہتر لوگ وہ ہیں جنہیں غصہ دیر سے آتا ہے مگر جلدی زائل ہو جاتا ہے اور بد ترین وہ لوگ ہیں جنہیں غصہ بہت جلد آتا ہے اور بہت دیر سے جاتا ہے۔
lغصہ کو پی لینے کی فضیلت اور اس کے واقعات : حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص غصہ کو پی جائے حالانکہ وہ اس کے تقاضے کو پورا کر سکتا تھا مگر پھر بھی دبا گیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رضا سے بھر دے گا۔
کہتے ہیں کہ میمون بن مہران رحمۃ اللہ علیہ کی باندی شور بالئے جا رہی تھی ۔پائوں اکھڑ گیا اور شوربا میمون پر گرا۔ میمون نے اسے مارنا چاہا ۔ باندی نے عرض کیا آقا ! والکاظمین الغیظ پر عمل کیجئے ۔کہنے لگے بہت اچھا ۔ باندی نے عرض کیا اور اس کے بعد والے کلمہ والعافین عن الناس پر بھی غور کیجئے ۔کہنے لگے بہت اچھا !میں نے معاف کر دیا ۔باندی پھر عرض کرنے لگی کہ حضور ! اس سے آگے واللہ یحب المحسنین بھی تو ہے ۔ میمون نے کہا میں احسان بھی کرتا ہوں۔جا! تو اللہ کیلئے آزاد ہے ۔ (آیت: یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ آل عمران:۱۳۴)
lتین خصلتوں کے بغیر ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوتی:رسول اللہ ﷺ کا ارشاد عالی ہے جس میں تین خصلتیں نہیں وہ ایمان کی حلاوت نہیں پاسکتا:
(۱)ایسی بردباری جس سے کسی کا علاج ہو سکے (۲)ایسا تقویٰ جو اسے حرام سے روک سکے اور (۳) ایسا خلق جس سے لوگوں کو گرویدہ کر سکے۔
lصبر اور حلم کا ثمرہ:فقیہ ابو للیث سمرقندیؒ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو حلم اور صبر والا ہونا چاہئے کہ یہ متقی لوگوں کی عادات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلم والوں کی تعریف فرمائی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جسے اپنانے والوں کو ثواب دیا جاتا ہے اور وہ اجر عظیم پاتے ہیں۔یہ صفت اختیار کرنے سے تیرا دشمن بھی قریبی دوست بن جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مدح میں صفت حلم کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے : ’’واقعی ابراہیم بڑے حلیم الطبع، رحیم المزاج اور رقیق القلب تھے۔‘‘ (القرآن) حلیم درگزر کرنے والے کو کہتے ہیں اور منیب وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر لگا رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کو بھی صبر اور حلم کی تلقین فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ انبیاء سابقین بھی اسی صفت پر قائم تھے آپ بھی اسی پر چلیں:’’کفار کی ایذا اور تکذیب پر اسی طرح سے صبر اختیار کیجئے جیسا کہ ان انبیاء کرام نے صبر کیا جنہیں کفار کے ساتھ جہاد کا حکم دیا گیا تھا۔‘‘(القرآن)
lموسیٰ علیہ السلام سے ابلیس کی درخواست: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں ابلیس آکر کہنے لگا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کیلئے منتخب فرمایا ہے اور ہم کلامی کا شرف بخشا ہے اور میں بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا ایک فرد ہوں، توبہ کا ارادہ رکھتا ہوں۔آپ اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں کہ وہ میری توبہ قبول فرمالے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت ہی خوش ہوئے ۔پانی منگوا کر وضو کیا ۔حسب توفیق کچھ نماز پڑھی پھر دعا کرنے لگے کہ یا اللہ ! ابلیس بھی تو تیری ہی مخلوق میں سے ہے ۔وہ توبہ کی درخواست کرتا ہے ،قبول فرما لے۔
جواب ملا :اے موسیٰ! وہ تو بہ کرنے والا نہیں ۔
عرض کیا: یا اللہ ! وہ تو درخواست کرتا ہے ۔
وحی آئی، اے موسیٰ ! اسے کہو کہ آدم(علیہ السلام ) کی قبر کی طرف سجدہ کر دے۔ اس کی توبہ قبول ہو جائے گی ۔ موسیٰ علیہ السلام خوش خوش واپس ہوئے اور ابلیس کو ماجرا سنایا۔ لعین سنتے ہی غضب ناک ہو گیا ۔ اکڑ کر کہنے لگا وہ زندہ تھا تو میں نے سجدہ نہ کیا ،اب جب کہ مرچکا ہے تو اس کی قبر کو سجدہ کیسے کروں؟ پھر کہنے لگا اے موسیٰ !چونکہ آپ نے اپنے رب کے ہاں میری سفارش کی ہے، اس کی حق ادائیگی کیلئے میں آپ کو تین باتوں کی تاکید کرتا ہوں،مجھے تین موقعوں پر یاد کر لیا کریں:
۱۔جب کبھی غصہ آئے تو مجھے یاد کریں۔ میں آدمی کے قلب میں یوں گردش کرتا ہوں جیسے خون گردش کرتا ہے ۔
۲۔کبھی دشمن کی اکثریت سے سامنا ہو جائے تو مجھے یاد کریں۔میں ایسے وقت میں انسان کے پاس آکر بیوی ، بچے اور مال و دولت کی یاد دلاتا ہوں حتیٰ کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے ، اور
۳۔ایسی عورت کے ساتھ علیحدگی کرنے سے بچو جو تمہاری محرم نہیں کیونکہ اس وقت میں دونوں کے درمیان قاصد بن جاتا ہوں۔(تنبیہ الغافلین)
lجلد بازی اور صبر کا نتیجہ:فقیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ غضب کے وقت حتیٰ الوسع صبر سے کام لو اور جلد بازی سے بہت بچو۔ جلد بازی اور صبر کا نتیجہ تین چیزوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔جلد بازی کی صورت میں انجام پر ندامت ہوتی ہے ۔ لوگوں میں ملامت ہونے لگتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں سزا ہوتی ہے ،اور صبر کی صورت میں طبیعت از خود مسرت محسوس کرتی ہے ۔لوگوں میں تعریف ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب ملتاہے ۔ یقیناً حلم او ربردباری ابتداء میں کڑوی ہے مگر انجام میٹھا ہے جیسا کہ ایک شخص نے بھی کہا ہے کہ حلم کا ذائقہ گو شروع میں کڑوا ہے مگر آخر میں شہد سے بھی میٹھا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں غصہ پینے اور صبر کرنے کی توفیق دے ۔آمین۔