Inquilab Logo Happiest Places to Work

جرمنی: مسلم مخالف واقعات میں ۶۰؍ فیصد اضافہ، حکومت اسے روکنے میں ناکام

Updated: June 20, 2025, 7:08 PM IST | Berlin

رپورٹ کے مطابق، ۲۰۲۴ء میں زیادہ تر مسلم مخالف واقعات، زبانی حملوں پر مشتمل تھے۔ ان کی تعداد ۱۵۵۸؍تھی، جو کل واقعات کے نصف سے بھی زائد ہے۔ جبکہ ۲۵؍ فیصد واقعات امتیازی سلوک پر مبنی تھے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

جرمنی کی ایک غیر سرکاری تنظیم تنظیم "کلیم" CLAIM کی جانب سے جاری کردہ ایک سول سوسائٹی رپورٹ کے مطابق، ملک میں ۲۰۲۴ء میں ۳ ؍ہزار سے زائد مسلم مخالف واقعات ریکارڈ کئے گئے، جو اب تک کا سب سے زیادہ سالانہ اعداد و شمار ہے۔ اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف نسل پرستی کی نگرانی کرنے والی تنظیم نے بتایا کہ گزشتہ سال مسلم مخالف نفرت کے ۳۰۸۰ ؍معاملات رپورٹ کئے گئے، جو ۲۰۲۳ء کے ۱۹۲۶؍ کیسز سے ۶۰؍ فیصد اضافہ اور ۲۰۲۲ء کے رپورٹ کردہ ۸۹۸؍ واقعات سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ رپورٹ میں اس تیز اضافے کی وجہ مسلم مخالف نسل پرستی کے عام ہونے اور حماس کے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیل پر حملے کے سیاسی اثرات کو قرار دیا گیا۔ تجزیہ کاروں اور کارکنوں نے خبردار کیا کہ یہ اضافہ جرمن معاشرے میں دائیں بازو کی انتہا پسند نظریات کے خطرناک طور پر مرکزی دھارے میں آنے کی عکاسی کرتا ہے۔ 

جرمنی اور یورپ بھر میں اسلامو فوبیا کے خلاف کام کرنے والی ۵۱؍ تنظیموں کو جوڑنے اور ان کی حمایت کرنے والا نیٹ ورک "کلیم کا قیام ۲۰۱۷ء میں عمل میں آیا تھا۔ یہ گروپ ہر سال یکم جولائی کو "مسلم مخالف نسل پرستی دن" کی سرگرمیوں کی رہنمائی کرتا ہے اور نفرت انگیز واقعات کی دستاویزات تیار کرنے، پالیسی سازوں سے رابطہ کرنے اور عوامی آگہی بڑھانے کیلئے کام کرتا ہے۔ آسٹریا اور سالزبرگ کی پیرس لوڈرون یونیورسٹی کے شراکت داروں کے ساتھ تعاون میں، کلیم، مسلم مخالف حملوں کی نمایاں طور پر کم رپورٹنگ کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ڈیٹا جمع کرنے کے معیارات کو یکساں کرنے پر کام کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ۷؍ لاکھ فلسطینیوں کو ایک مرتبہ پھر محفوظ مقامات چھوڑنے کا حکم: یو این

کلیم کے مطابق، ۲۰۲۴ء میں زیادہ تر مسلم مخالف واقعات، زبانی حملوں پر مشتمل تھے۔ ان کی تعداد ۱۵۵۸؍ تھی، جو کل واقعات کے نصف سے بھی زائد ہے۔ ۲۵؍ فیصد واقعات امتیازی سلوک پر مبنی جبکہ ۲۱؍ فیصد واقعات میں توہین آمیز رویہ، ہراسانی یا دھمکیاں شامل تھیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس عرصہ میں سنگین جرائم میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔ انفرادی متاثرین میں سے، جن کی جنس کا ریکارڈ موجود ہے، ۷۱ ؍فیصد خواتین تھیں۔ کلیم کے نتائج وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار سے ہم آہنگ ہیں جس نے ۲۰۲۴ء میں ۱۵۵۴؍ مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم کی اطلاع دی، جن میں مساجد پر ۵۴؍ حملے اور کم از کم ۵۳؍ افراد کے زخمی ہونے کے واقعات شامل ہیں۔ وزارت نے یہ اعداد و شمار بائیں بازو کی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ پیٹرا پاؤ کے پارلیمانی استفسار کے جواب میں جاری کئے۔

یہ بھی پڑھئے: ۱۸؍ جون نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے کا دن؛ ’یہ تقاریر معاشرے کیلئے سمِ قاتل ہیں‘

حکومت کی ناکامی

کلیم کی شریک ڈائریکٹر ریما ہنانو نے رپورٹ کو چونکا دینے والی قرار دیا۔ انہوں نے برلن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سڑکیں، بسیں یا مساجد اب ان لوگوں کیلئے محفوظ جگہیں نہیں ہیں جو مسلمان ہیں یا انہیں ایسا سمجھا جاتا ہے۔ ہنانو نے مسلم مخالف جذبات کے بڑھتے ہوئے سماجی قبول عام پر بھی خبردار کیا جو نہ صرف دائیں بازو بلکہ مرکزی سیاسی عناصر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ریکارڈ کئے گئے واقعات میں بوخم کی ایک مسجد پر ناکام آتش زنی کا حملہ شامل ہے، جس کی دیواروں پر سواستیکا بنایا گیا، سیکسنی میں ایک مسلم خاندان کے گھر پر دائیں بازو کے پڑوسی کی فائرنگ اور برلن میں ایک خاتون کو حماس سے تعلق کے سوال کے بعد ٹرین کے پٹریوں پر دھکیل دیا گیا۔ ہنانو نے حکومتی ردعمل کی کمی پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ سول سوسائٹی کی کوششوں اور حالیہ سرکاری رپورٹس کے باوجود، جو اس مسئلے کو تسلیم کرتی ہیں، اب تک ناکافی اقدامات کئے گئے ہیں۔ ۲۰۲۴ء میں جرمن حکومت کی جانب سے کمیشن کردہ ایک آزاد ماہرانہ رپورٹ نے ابتدائی مداخلت اور طویل مدتی ساختی تبدیلیوں کی سفارش کی تھی، لیکن کارکنوں کا کہنا ہے کہ ٹھوس عمل درآمد میں تاخیر ہوئی ہے۔ خاندانی امور کی وزیر لیزا پاؤس نے یہودی مخالف اور مسلم مخالف دونوں واقعات میں ڈرامائی اضافے کو تسلیم کیا اور کہا کہ حکومت سول سوسائٹی کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے ابتدائی روک تھام کے پروگراموں کی فنڈنگ کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اس وقت غزہ میں انسانیت کا شرمناک نمونہ منظر عام پر آ رہا ہے: شاہ عبداللہ دوم

دائیں بازو کی مقبولیت کا اثر

جرمنی کی مسلم آبادی، جو اندازاً ۵۵؍ لاکھ ہے اور ملک کی کل آبادی کا تقریباً ۶ء۶؍ فیصد ہے، ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۶ء کے مہاجرین کی آمد کے بعد سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لیکن آبادیاتی تبدیلیوں کے ساتھ، دائیں بازو کی بیان بازی نے بھی زور پکڑا ہے۔ آلٹرنیٹو فار جرمنی (AfD) پارٹی، جو اپنے منشور میں واضح طور پر کہتی ہے کہ "اسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے،" قومی سروے میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں نے سخت تر موقف اور بیان بازی اپنا کر جواب دیا ہے جو بالواسطہ طور پر دائیں بازو کے بیانیے کی تصدیق کرتا ہے۔ ہنانو نے خبردار کیا کہ ایسی پیش رفت ایک وسیع تر سماجی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ مسلم مخالف نسل پرستی کبھی بھی آج کی طرح سماجی طور پر قابل قبول نہیں تھی اور اب یہ معاشرے کے مرکز سے سامنے آرہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK