Inquilab Logo

جانور کی قربانی خلافِ رحم نہیں بلکہ یہ عین فطری تقاضا ہے

Updated: August 01, 2020, 9:05 AM IST | Maulana Nadeem Ahmed Ansari | Mumbai

بعض جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے بطور غذا پیدا کیا ہے۔چھوٹے جانوروں کو اس سے بڑا اور اس بڑے جانور کو اس سے بڑا جانور اپنی غذا بناتا ہے۔ یہی حال آبی جانوروں کا بھی ہوتا ہے، کیڑے مکوڑوں کو چھوٹی مچھلیاں کھاتی ہیں ۔ چھوٹی مچھلیوں کو بڑی مچھلیاں اور ان بڑی مچھلیوں کو بڑے آبی جانور کھاجاتے ہیں یا پھر انسان اپنی خوراک بناتے ہیں ۔یہ ایک فطری قانون ہے، جس کے تحت دنیا کا کاروبار چلتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جانور کا ذبح کیا جانا رضائے الٰہی تو ہے ہی، اس سے انسانوں کے غذا کا بھی مسئلہ حل ہوتا ہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

عید الاضحی میں مسلمان بحکم خداوندی جانور کی قربانیاں کرتے ہیں ، جس پر بعض کج فہم یا کم فہم لوگوں کی طرف سے بعض اعتراضات کئے جاتے رہتے ہیں ۔من جملہ ان کے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا خلافِ رحم ہے۔ گزشتہ دنوں اسی پروپیگنڈہ کی خاطر’بکرے‘ کی تصویر کے ساتھ بعض مقامات پر یہ ہورڈنگ لگائی گئی کہ’میں جیو ہوں ، مانس نہیں ‘۔ یہ ایک سوچی سمجھی شرارت ہے۔ یہ لوگ دراصل وحی اور اس کی حقیقت سے واقف نہیں ، اسلئے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور اسی لئے طرح طرح کی بہکی بہکی باتیں کیاکرتے ہیں جبکہ عقل کا اپنا ایک دائرۂ کار اور ہر انسان کی عقل کا اپنا ایک دائرۂ کار ہوتا ہے، کوئی انسان اپنے اس مخصوص دائرے کو عبور نہیں کر سکتا۔طویل گفتگو کا یہ موقع نہیں ۔ اس وقت ہم ذبحِ حیوان پر کئے جانے والے بعض اعتراضات کا جواب پیش کر رہے ہیں جو کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒکی کتابوں سے ماخوذ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقلِ سلیم نصیب فرمائے، آمین۔بعض لوگ نفسِ ذبح (یعنی خود ذبح) ہی پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ بے رحمی ہے، جانور کو تکلیف دینا ہے! ہم کہتے ہیں کہ ذبح میں ایسی تکلیف نہیں ہوتی، موتِ طبعی میں زیادہ (تکلیف) ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہو تو جو محبوبِ حقیقی کے حکم سے ہو، وہ سب محبوب ہے، تو جانور کے ذبح کو بے رحمی بتلانا سخت غلطی ہے۔ 
 اللہ تعالیٰ کو ماننے والی قومیں ، خواہ وہ کوئی ہوں ، اس بات کی ہرگز قائل نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالم ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو رحمٰن و رحیم مانتے ہیں ۔اب خدا کا فضل دیکھو کہ ہوا میں باز، شکرے، گدھ اور چرغ وغیرہ شکاری جانور موجود ہیں اور وہ غریب پرندوں کا گوشت ہی کھاتے ہیں ۔ گھاس اور عمدہ سے عمدہ میوے اور اس قسم کی کوئی چیز نہیں کھاتے، پھر دیکھو آگ میں پروانے کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، پھر پانی کی طرف خیال کرو کہ اس میں کس قدر خوں خوار جانور موجود ہیں ، گھڑیال اور بڑی بڑی مچھلیاں اور اود بلاؤ وغیرہ۔ یہ چھوٹے چھوٹے آبی جانوروں کو کھا جاتے ہیں بلکہ بعض مچھلیاں قطبِ شمالی سے قطبِ جنوبی تک شکار کیلئے جاتی ہیں ۔ پھر ایک اور قدرتی نظارہ سطحِ زمین پر دیکھو کہ چیونٹی کھانے والا جانور کیسے زبان نکالے پڑا رہتا ہے، بہت سی چیونٹیاں اس کی زبان کی شیرینی کی وجہ سے اس کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں تو جھٹ زبان کھینچ کر سب کو نگل جاتا ہے۔ مکڑی مکھیوں کا شکار کرتی ہے، مکھیاں کھانے والا جانور اپنی غذا ان جانوروں کو ہی مار کر بہم پہنچاتے ہیں ، بندروں کو چیتا مار کر کھاتا ہے، جنگل میں شیر بھیڑیے تیندوے کی غذا جو مقرّر ہے، وہ سب کو معلوم ہے، بلّی کس طرح چوہوں کو پکڑ کر ہلاک کرتی ہے۔ اب بتلاؤ کہ اس نظارۂ عالم کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ قانونِ ذبح جو عام طور پر جاری ہے ،یہ کسی ظلم کی بنا پر ہے۔ ہر گز نہیں ، پھر انسان پر حیوان کے ذبح کرنے کے ظلم کا الزام کیا مطلب رکھتا ہے؟ انسان کے جوئیں پڑ جاتی ہیں یا کیڑے پڑ جاتے ہیں ، کیسے بے باکی سے ان کی ہلاکت کی کوشش کی جاتی ہے، کیا اس کا نام ظلم رکھا جاتا ہے؟جب اسے ظلم نہیں کہتے، اشرف(اعلیٰ) کیلئے اخس (ادنیٰ)کا قتل جائز ہے، تو ذبح پر اعتراض کیوں کر ہو سکتا ہے؟ بلکہ غور کرو اور حضرت ملک الموت کو دیکھو کہ کیسے کیسے انبیاء و رسُل، بادشاہ، بچے، غریب، امیر ، سوداگر سب کو مار کر ہلاک کرتے ہیں اور (اس) دنیا سے نکال دیتے ہیں ۔ پھر غور کرو کہ اگر ہم جانوروں کو عید الاضحی (وغیرہ) پر اسلئے ذبح نہ کریں کہ ہمارا ذبح کرنا رحم کے خلاف ہے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا اور ان پر رحم ہوگا کہ وہ نہ کریں ۔ پس اس تمہید کے بعد گزارش ہے کہ اگر جانوروں کو ذبح کرنا خلافِ رحم ہوتا تو اللہ تعالیٰ شکاری اور گوشت خوار جانوروں کو پیدا نہ کرتا۔ اگر ان کو ذبح نہ کیا جائے تو خود یہ بیمار ہوکر مریں گے۔ پس غور کرو ان کے (ایسے) مرنے میں کس قدر تکلیف لاحق ہوگی۔
 قانونِ الٰہی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز بے حد بڑھنا چاہتی ہے۔ اگر ہر ایک برگد کے بیج حفاظت سے رکھے جائیں تو دنیا میں برگد ہی برگد ہوں اور دوسری کوئی چیز نہ ہو مگر دیکھو ہزار جانور اس کا پھل کھاتے ہیں ، اس سے پتا چلتا ہے کہ اس بڑھنے کو روکنا مرضی الٰہی ہے۔اسی طرح اگر سارے جانوروں کی پرورش کریں تو ایک وقت میں دنیا کی ساری زمین بھی ان کے چارے کیلئے کافی نہ ہوگی، آخر بھوک پیاس سے خود ان کو مرنا پڑے گا، جبکہ یہ نظارۂ قدرت موجود ہے تو ذبح کرنا خلافِ مرضی الٰہی کیوں ہے؟اس مسئلے کو تو ان دنوں ہندوستان کے متعصب لوگوں نے بھی خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا ہے کہ ان جانوروں کے پالنے والے ان کی کفالت سے معذور ہوکر کس طرح انھیں چھوڑنے پر مجبور ہو گئےاور حکومت کی جانب سے ان کے ذبح پر پابندی لگانے سے کسانوں کا کیا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔پھر کوئی کہے کہ ذبح انسان بھی جائز ہو سکتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایک انسان کے ساتھ دوسروں کے بہت سارے حقوق وابستہ ہیں ، کسی کی پرورش ہے، کسی کا کچھ، کسی کا کچھ اور۔ اسلئے اگر اس (انسان کو انسان کیلئے ذبح کرنے) کا حکم دیں تو مشکلات کا ایک بڑا سلسلہ پیدا ہو جاتا ہے،اسلئے قتلِ انسان مستلزمِ سزائے عرفی (سزا کو لازم کرنے والا) اور شرعی قانون میں سخت گناہ کہا گیا ہے۔ الغرض! انسان کا قتل اسلئے تجویز نہیں ہوا کہ انسان کے ساتھ بہت سے حقوق ہوتے ہیں ، ان کا ضائع ہونا زیادہ دُکھوں کا موجب ہے۔ 
 بعض قومیں اس (ذبحِ حیوان) پر اعتراض کرتی ہیں حالانکہ جانور سب برابر ہیں اور بعض جانوروں کو وہ بھی مارتے ہیں ، کوئی جوں کو مارتا ہے، کوئی کھٹمل کو، کوئی چوہے کو، کوئی سانپ بچھو کو، اگر یہ ہتیا یعنی قتل نہیں تو ذبح حیوان کو بھی ہتیا نہیں کہنا چاہئے۔ بعضے کمال کرتے ہیں کہ خود اپنے ہاتھ سے تو نہیں مارتے بلکہ ہمارے محلّے میں چوہے چھوڑ جاتے ہیں تاکہ ہم مار دیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK