Inquilab Logo

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Updated: August 27, 2023, 3:19 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

مسلم اکثریتی علاقوں کی صورتحال پر گفتگو کریں تو فوراً انتظامیہ کی بے توجہی کا شکایت سننے کو ملے گی۔ اس سے انکا ر بھی نہیں کیا جاسکتا مگر کیا ہم خود بھی اپنی بستیوں کو اس پہچان سے آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو اُن کی بدنامی کا باعث بن چکی ہیں؟

Muslim settlements should be exemplary in terms of cleanliness Because in Islam, cleanliness is declared as faith, but it is not so.Photo. INN
مسلم بستیوں کو توصفائی ستھرائی کے معاملے میں مثالی ہونا چاہئےکیوں کہ اسلام میں صفائی نصف ایمان قرار دی گئی ہے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ تصویر:آئی این این

ممبئی ہو کہ دہلی، کانپور ہوکہ بنگلور،جنوبی ہند کا کوئی شہر ہوکہ شمالی ہندکا، مغربی ہندوستان ہو کہ مشرقی ہندوستان، پورا ملک مذہب اورمعیشت کی بنیادپر تقسیم ہوچکا ہے۔ راہل گاندھی درست کہتے ہیں  کہ ہندوستان میں  دو ہندوستان بستے ہیں ، ایک غریبوں  کا ہندوستان دوسرا امیروں  کا ہندوستان مگر یہ اعتراف کوئی نہیں  کرتا کہ دھیرے دھیرے ہم نے پورے ملک میں  بستیوں  کو مذہب کے نام پر بھی تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ امیر اور غریب ہندوستان کا فرق دیہاتوں میں بھی ہے اور شہروں  میں بھی۔ ایک طرف کچی بستیاں اور جھوپڑ پٹیاں ہیں جو بنیادی سہولتوں کیلئے ترس رہی ہیں تو دوسری طرف فلک بوس عمارتوں والی وہ بستیاں  جہاں  سہولیات کا فقدان ہونے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا البتہ شہری آسائشوں کے ایسے انتظامات ہیں جن کا تصور بھی عام شہری نہیں  کرسکتے۔ 
 ہر بستی کی اپنی پہچان ہے۔ مسلم اکثریتی بستیوں کی پہچان گنجان آبادی، بنیادی سہولتوں کا فقدان اور جا بجا گندگی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس شہریوں کو مخصوص بستیوں   تک محدود رہنے پر مجبور کرتاہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آبادی میں  اضافہ کے ساتھ ہی بستی گنجان سے گنجان تر ہوتی چلی جاتی ہے۔اس کا انفراسٹرکچر جواب دینے لگتا ہےمگر لوگ باگ ہٹ کر کوئی نئی بستی بسانے کی ہمت نہیں  جٹا پاتے۔ اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک اہم وجہ غربت اور عدم تحفظ کااحساس ہے جو حالیہ دنوں  میں شدید تر ہوا ہے یا یہ کہیں  کہ کیا جارہاہے۔ اس کے باوجود ایک اہم سوال ہے جو ہمیں خود سے پوچھنے کی ضرورت ہےکہ کیا ہماری بستیوں کو اتنا ہی گندہ اور غلیظ نظر آنا چاہئے جتنی گندی اور تعفن سے پُر وہ نظر آتی ہیں ۔مسلم اکثریتی علاقوں کی صورتحال پر گفتگو کریں  تو فوراً انتظامیہ کی بے توجہی کا شکایت سننے کو ملے گی۔ اس سے انکا ر بھی نہیں کیا جاسکتا مگر کیا ہم خود بھی اپنی بستیوں  کو اس پہچان سے آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہیں   جو ان کی بدنامی کا باعث بن چکی ہیں ۔ کیا ہم، ہمارے ادارے، ہماری تعلیم گاہیں اور ہماری مساجد کے منبر سے ہونے والی تقاریرمیں  شہری نظافت کی سوجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ 
 اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں  ہر سال ۲؍ کروڑ سے زائد افراد گندگی اوراس کی بناپر ہونے والی بیماریوں سے مر جاتے ہیں ۔ ان میں  اکثریت ڈائریا سے مرنے والوں  کی اور بچوں  کی ہوتی ہے۔اگر اسپتالوں کا دورہ کریں  تو جس طرح جیلوں  میں  مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں  زیادہ نظر آتے ہیں اسی طرح  اسپتالوں کی قطاروں اور بستروں پر بھی مسلمانوں کی تعداد کی ان کی آبادی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ وہ ظلم ہےجو ہم خوداپنی بستیوں  کی گندگی میں اضافے کا باعث بن کرخود پر ڈھاتے ہیں ۔اس میں  کوئی شک نہیں  کہ حکومتیں  صاف صفائی کی طرف اس طر ح توجہ نہیں  دیتیں  جیسی دینی چاہئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گندگی ہم شہریوں  کے ذریعہ ہی پیدا ہوتی ہے۔ ہماری بے احتیاطی اس مسئلے کو سنگین تر بناتی ہے اور تھوڑی سی توجہ اس مسئلے سے نمٹنے میں  معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
مسلم بستیوں کو توا س معاملے میں  مثالی ہونا چاہئےتھا کیوں کہ اسلام میں  صفائی نصف ایمان ہے۔ ہم میں  سے کون نہیں  جانتا کہ نالیاں  پانی کی نکاسی کیلئے ہیں  مگر کیا ۹۰؍ فیصد افراد ان نالیوں  میں کوڑا کرکٹ نہیں  بہاتے۔اس کوڑا کرکٹ میں آج سب سے بڑی مقدار پلاسٹک کی تھیلیوں  کی ہوتی ہے جو یقیناً پانی کا راستہ روکتی ہے اور پھر جا بجا بجبجاتی ہوئی گٹریں  ہمارا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں ۔ جس طرح  ہم اپنے گھروں  کو صاف ستھرا رکھنے کی فکر کرتے ہیں ،اسی طرح اپنے آس پاس کو صاف ستھرا رکھنے کی جانب بھی اگر توجہ دی جائے تو بڑی حدتک اس مسئلے سے نمٹا جاسکتاہے اور اس طرح بیماریوں سے بھی بجا جاسکتاہے۔ علماء اکثر کہتے ہیں  کہ اصل اسلام تو معاشرت ہے۔ راستے سے تکلیف دہ اشیاء ہٹانے کو صدقہ قراردیاگیاہے تو کیا اپنی بستیوں  کو صاف رکھنے کی جانب توجہ دینا صدقہ نہ ہوگا۔ 
  اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں آبادی ہوگی اور گنجان آبادی وہاں گندگی بھی زیادہ ہوگی کیونکہ یہ انسانی زندگی کے نظام کا حصہ ہے مگر صاف صفائی اور گندگی کے ازالہ کی تدبیریں بھی موجود ہیں مگرمسئلہ اس وقت پیداہوتا ہے جب اجتماعی صاف صفائی کے معاملہ میں  توقع اوروں سے ہو،خود کچھ کرنے کا جذبہ نہ ہو۔ 

 اگر صرف اپنی ذات کی صفائی اور طہارت پر توجہ دی جائے اور آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی اجتماعی کوشش نہ ہوتو وہی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو ہماری بستیوں میں آج جا بجا نظر آتی ہے۔دراصل سارے مسائل کی جڑیہی  ہے۔ اپنے گھر کو صاف رکھنے کیلئے کوڑا کرکٹ عام راستوں پر یا نالیوں میں پھینک دینا  نہ صرف سماجی جرم ہے بلکہ مذہبی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ یہ معاشرتی سوجھ بوجھ   کے فقدان اور بڑی حدتک جان بوجھ کر بے توجہی برتنےکا نتیجہ ہے۔یہ ہوسکتاہے کہ انتظامیہ ہماری بستیوںکے تعلق سے واقعی سوتیلا سلوک روا رکھتا ہومگر کیا ہم اپنے حصے کی صفائی کی جانب توجہ دیتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ من حیث القوم ہم میںصاف صفائی کا شعور اوراس کےتئیں ذمہ داری پیداہو۔ یہ کام قوم کے دانشور، علمائے کرام  اوروہ تنظیمیں کر سکتی ہیں جن کی بات معاشرہ سنتاہے۔ ہماری مساجد سے ہونے والے خطبات میں معاشرت اور اپنی بستیوں کو صاف ستھرا رکھنے کی  اسلامی اہمیت کی جانب توجہ دلائی جاسکتی ہے۔ اس لئے کہ :
شکوہ ٔ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا:اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK