• Tue, 28 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسکول، تعلیم اور ہماری ترجیحات

Updated: August 10, 2025, 5:00 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

پارلیمنٹ کی عمارت کارآمد ہونے کے باوجود نئی عمارت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وزیروں کے بنگلے اچھی خاصی حالت میں رہتے ہیں، پھر بھی توڑ کر نئے بنا دیئے جاتے ہیں ... تو پھر اسکولوں اور اسپتالوں کے گرنے کاانتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا غریبوں کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے؟

It is not only the responsibility of the government and administration to provide students with learning opportunities in educational institutions, but it is the responsibility of the entire society to monitor this. Photo: INN.
یہ ذمہ داری صرف حکومت اور انتظامیہ کی نہیں ہے کہ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں سیکھنے کے مواقع فراہم ہوں بلکہ یہ ذمہ داری پورے سماج کی ہےکہ وہ اس پر نگرانی رکھے۔ تصویر: آئی این این۔

یہ شاید کسی فلم کا منظر ہے۔ ایک بلڈنگ کے زینے پر ایک بڑا سا صندوق ہے جسے کچھ لوگ سنبھال کر کھڑے ہیں۔ دو لوگ اوپر اور دو لوگ نیچے کی جانب ہیں۔ صندوق اتنا بھی وزنی نہیں تھا کہ اسے چار لوگ اوپر نہیں پہنچا پاتے لیکن کافی زور آزمائی کے باوجود اسے ٹس سے مس نہیں کرسکے۔ تھک ہار گئے تو اوپر کی جانب موجود دونوں افراد نے نیچے کی طرف موجود اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم چار افراد اسے اوپر نہیں پہنچا سکتے، کچھ اور لوگوں کو بلانا پڑے گا۔ یہ سن کر اُن دونوں نے حیرت سے کہا کہ ’’کیا اسے اوپر لے جانا تھا؟‘‘
فلم میں یہ منظر مزاح کیلئے تھا لیکن ہمارے یہاں یہی کام ’سنجیدگی‘ سے ہورہا ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں وطن عزیز میں تعلیم کی حالت زینے پر موجود اسی صندوق کی طرح ہوگئی ہے جسے سنبھالنے پر مامور افراد کو پتہ ہی نہیں ہے کہ اسے اوپر لے جانا ہے یا نیچے؟ تعلیم کے شعبے میں تعلیم کے معیارکو بہتر کرنے کے بجائے ’اندھیر نگری چوپٹ راجا‘کی طرح صرف سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے والے فیصلے کئے جارہے ہیں۔ کون کیا کہے گا؟ کون کیا سوچے گا؟ اور تعلیم پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ اس کی پروا کئے بغیر ایک خاص فکر کو فروغ دینے کی پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں۔ ملاحظہ کریں حالیہ کچھ دنوں میں پیش آنے والے چند واقعات:
راجستھان کے جھالا واڑ اور جیسلمیر میں تین دنوں میں ۲؍ حادثات پیش آئے جن میں ۸؍ طلبہ ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ جھالاواڑ میں اسکول کی چھت گرگئی تو جیسلمیر میں طلبہ پر لوہے کا گیٹ گر گیا۔ 
ان دونوں ہی جگہوں پر کارروائی کے نام پر اسکولوں کے صدرمدرسین کو معطل کردیا گیا۔ اس طرح کے حادثات کے اصل خاطی کون ہوسکتے ہیں، سب جانتے ہیں لیکن انہیں صاف بچا لیا گیا۔ 
ابھی حال ہی میں اترپردیش کے ضلع بریلی میں ایک اسکول کے ٹیچر نے طلبہ کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے کیلئے ایک نظم پڑھی۔ اس میں انہوں نے طلبہ سے کہا کہ ’’کانوڑ لینے مت جانا: تم گیان کا دیپ جلانا، مانوتا کی سیوا کرکے: تم سچے مانو بن جانا۔ ‘‘ انہوں نے بچوں سے کہا کہ تم پڑھ لکھ کر ہی ایس پی، ڈی ایم بن سکتے ہو، کانوڑ ڈھو کر یہ مقام نہیں حاصل کرسکتے۔ 
اس معاملے کے منظر عام پر آتے ہی انہیں بھی معطل کر دیا گیا۔ حالانکہ اس نظم میں ایسی کوئی بات نہیں جسے قانون شکنی کے طورپر پیش کیا جاسکے لیکن رجنیش گنگوار نامی ٹیچر کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔ 
اسی درمیان اتراکھنڈ کی حکومت نے ایک سرکیولر جاری کرکے سرکاری اسکولوں میں صبح کے وقت گیتا کا ایک شلوک پڑھنا لازمی قرار دیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ حکم وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی ہدایت پر جاری کیا گیا ہے کہ اساتذہ، شلوک کی وضاحت کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کے اثرات طلبہ کی زندگی میں نظر آئیں۔ 
دو سال قبل کی بات ہے۔ بریلی ہی کے ایک مدرسے میں صبح کے وقت مشہور دعائیہ نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ طلبہ پڑھ رہے تھے۔ ہندوتواوادی تنظیموں نے اس کیخلاف شکایت درج کرائی تو محکمہ تعلیم نے اسکول کے ہیڈ ماسڑ وزیرالدین کو معطل کردیا۔ اس سے قبل ۲۰۱۹ء میں پیلی بھیت میں بھی’لب پہ آتی ہے‘ کی وجہ سے اسکول کے ایچ ایم کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔ 
اوراب تازہ معاملہ این سی ای آر ٹی کے ذریعہ تیار کی گئی نصابی کتابیں ہیں۔ ان کتابوں میں پسند کی ’تاریخ‘ بھری جارہی ہے اور وہ تاریخ جو پسند نہیں ہے، نکالی جارہی ہے۔ 
مطلب صاف ہے کہ تعلیم کہاں جارہی ہے؟ اس کا انہیں کوئی علم ہی نہیں ہے جو تعلیم کو سنبھالنے کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ وہ صرف اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کاکام کررہے ہیں۔ جھالاواڑ میں اسکول کی چھت گرنے کے بعد ایک طالب علم کا ویڈیو سننے کو ملا تھا۔ آپ بھی پڑھ لیں۔ 
’’پارلیمنٹ کی عمارت گرنے سے قبل ہی نئی بن جاتی ہے۔ ایم ایل ایز اور ایم پیز کے بنگلے اچھی خاصی حالت میں ہونے کے باوجود توڑ کر نئے بنا دیئے جاتے ہیں ... تو پھر اسکول، سڑک، پل اور اسپتالوں کے گرنے کاانتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا غریبوں کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے؟‘‘
بات ایک بچے نے کہی ہے لیکن پتے کی کہی ہے۔ ملک میں تعلیم کا بجٹ سکڑتا اور شاہوں کے عیش و آرام پر ہونےوالے خرچ کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بچے نےنئے پارلیمنٹ کی ضرورت اور اس پر ہونے والے خرچ پر سوال اٹھایا ہے تو دیکھ لیجئے کہ اس کی باتوں میں کتنا دَم ہے۔ ۲۰۱۹ء میں منظور کئے گئے ’سینٹرل وِسٹا پروجیکٹ‘ کا بجٹ ۲۰؍ ہزار کروڑ روپے تھا جبکہ اُس سال ملک میں تعلیم کا بجٹ ۵۶؍ ہزار ۵۳۷؍ کروڑ روپےکا تھا۔ مطلب یہ کہ تعلیم کے مجموعی بجٹ کی ایک تہائی سے بھی زیادہ رقم ہم نے ایک تعمیراتی پروجیکٹ پر خرچ کردی۔ 
ایسا اسلئے ہورہا ہے کہ نئے دور کے حکمراں خودکو ’سیوک‘کہتے ہیں لیکن ’شاہ‘ سمجھتے ہیں اورعوام کو شاہ کہتے ہیں لیکن ’سیوک‘ سمجھتے ہیں۔ ہم اتنے ہی پر خوش ہوجاتے ہیں، اسلئے وہ ہماری پروا بھی نہیں کرتے۔ اب یہ فیصلہ ملک کے عوام کو کرنا ہے کہ وہ سیوک بن کررہنا چاہتے ہیں یا شاہ؟ خیال رہے کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف خاموش رہنا بھی ظلم اور انصافی کے مصداق ہے۔ بقول پروین شاکر :
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح 
اور مظفر وارثی نے اسے کچھ یوں کہا ہے:
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن 
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK