Inquilab Logo Happiest Places to Work

محمد سراج: مستقل مزاجی اور سخت محنت اُن کا شعار ہے

Updated: August 10, 2025, 4:58 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

ٹیم انڈیا کے اس تیز گیند باز نے اپنے دَم پر صرف میچ نہیں جیتا بلکہ نفرت کے اس بیانیے کو بھی منہدم کیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کو مشکوک بنارہا ہے۔

Mohammad Siraj Photo: INN.
محمد سراج۔ تصویر: آئی این این۔

 کرکٹ کے میدان میں گیند باز کا کام صرف وکٹیں لینا نہیں ہوتا وہ گیند باز دراصل وہ مجاہد ہوتا ہے جو مخالف کی مضبوط بیٹنگ لائن کے سامنے تنِ تنہا ڈٹ جاتا ہے، جو ہر اوور کے ساتھ نئی امید، نیا منصوبہ اور نیا جوش لے کر آتا ہے۔ آج اگر ہندوستان کی بولنگ لائن اپ میں کسی ایک نام کو’’استقامت ‘‘، مستقل مزاجی اور ٹیم پلیئر ہونے کی علامت کہا جائے، تو وہ نام بلاشبہ محمد سراج کا ہے ۔ حیدرآباد کی تنگ گلیوں سے نکل کر بین الاقوامی میدانوں تک پہنچنے والا یہ نوجوان صرف ایک کھلاڑی نہیں بلکہ ہزاروں خوابوں کا سفیر ہے۔ ان کے والد آٹو رکشہ چلاتے تھے اور سراج خود بھی کئی بار کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے پریکٹس کے لئے پیدل جایا کرتے تھےمگر انہیں نہ حالات جھکا سکے، نہ تنگدستی نے ارادوں کو کمزور کیا۔ سراج نے ہر رکاوٹ کو سیڑھی بنایا، ہر شک کو جواب میں بدل دیا اور خود کو قومی ٹیم کا مستقل اور قابلِ اعتماد ہتھیار بنا دیا۔ محمد سراج کی خاص بات صرف ان کی رفتاریا سوئنگ نہیں بلکہ ان کی گیند در گیند سیکھنے اور اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لینے کی صلاحیت ہے۔ وہ کبھی اپنے خراب اسپیل سے مایوس نہیں ہوتے۔ وہ چہرے پر غصہ مگر دل میں ضبط لئے بولنگ کرتے ہیں۔ کئی کرکٹرز ہوتے ہیں جو اپنی کارکردگی کیلئے مشہور ہوتے ہیں، لیکن سراج ان میں سے نہیں۔ وہ ایسے منفرد کھلاڑی ہیں جو خود کے مقابلے میں ٹیم کی طاقت کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی خوش ہوتے ہیں جب دوسرا بولر وکٹ لے، وہ تب بھی داد دیتے ہیں جب خود کے اسپیل میں کامیابی نہ ملے لیکن ٹیم کو فائدہ ہو۔ ان کی باڈی لینگویج، ان کا ٹیم کے ساتھ جُڑنا اور ہر میچ میں کپتان کی ہدایات پر من و عن عمل کرنا یہی سب کچھ انہیں ایک اصل ٹیم پلیئر بناتے ہیں ۔ کئی بار سراج کو بمراہ یا محمد سمیع کے سائے میں دیکھا گیالیکن سراج نے برتری کی دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے اپنا کردار نبھانے کو اولین فرض سمجھا۔ سراج نے جہاں کامیابی کے لمحات کو بڑے وقار سے قبول کیا وہیں تنقید اور ٹرولنگ کا بھی بھرپور تحمل سے سامنا کیا ہے۔ ملک کی کرکٹ تاریخ میں کئی بڑے نام آئے، کئی ستارے چمکے لیکن جو مقام خاموش ہیرو کو ملتا ہے، وہ بہت خاص ہوتا ہے۔ محمد سراج آج اسی صف میں کھڑے ہیں جہاں نہ شہرت کا غرور ہے نہ خودنمائی کا شوق، صرف محنت، سادگی اور ایک خواب کہ میں اپنے وطن کیلئے کھیل رہا ہوں ۔ 
ہندوستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں یہ ملک کے جذبات، فخر اور شناخت کا ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنی معاشرتی سچائیوں کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بعض اوقات ایک کھلاڑی کی کارکردگی ہمیں میدانِ کھیل سے نکال کر اُس سماجی اور ثقافتی تناظر کی جانب لے جاتی ہے، جس سے ہم جان بوجھ کر نظریں چرا رہے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی لمحہ ہمیں حالیہ اوول ٹیسٹ میں دیکھنے کو ملا جب محمد سراج نے آخری دن فیصلہ کن اسپیل میں ایسی جی توڑ گیند بازی کی کہ انگلینڈ کے منہ سے فتح کا نوالہ چھین لیا۔ یہ جیت صرف ایک کرکٹ میچ کی جیت نہیں تھی بلکہ ہندوستانی مسلمان کی قومی پہچان کی فتح تھی۔ — ایک ایسا لمحہ جب تعصب کی زنجیریں بکھر گئیں اور سراج کی گیندوں کی رفتار اور گرج نے خاموش سماجی منافقت کو چیر کر رکھ دیا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کوئی مسلم کھلاڑی ہندوستانی ٹیم کیلئے ہیرو بنا ہو۔ افتخار علی خان پٹودی نے آزادی سے قبل ہندوستانی ٹیم کی قیادت کی۔ ان کے بیٹے منصور علی خان پٹودی نے بعد از آزادی ٹیم کو نئے مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اظہر الدین نے ۹۰ء کی دہائی میں ٹیم انڈیا کو بشمول ۲؍ ایشیاء کپ، ہیرو کپ اور شارجہ کپ جتوائے، ظہیر خان ۲۰۱۱ء کا ورلڈ کپ جتوانے میں کلیدی کردار کے حامل تھے جبکہ ۲۰۲۳ء کے ورلڈ کپ میں محمد سمیع ایک طوفان بن گئے تھے جنہیں روک پانا تمام ٹیموں کیلئے ناممکن ہو گیا تھا لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کی کامیابیوں پر مذہب کا سایہ نہیں پڑا۔ 
لیکن آج کا ہندوستان مختلف ہے۔ جب محمد سراج نےعمرہ کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تو انہیں نشانہ بنایا گیا۔ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا، جیسے ان کی مسلم شناخت ایک مجرمانہ علامت ہو لیکن جب اسی سراج نے اوول میں ہندوستان کو ناقابل یقین حالات میں فتح دلائی تو وہی نام’’میاں میجک‘‘ بن گیا اور وہی چہرہ جو کل تک ٹرولنگ کا نشانہ تھا، آج فخر کی علامت بن گیا۔ جب سراج نے اوول میں فتح دلائی، تو صرف وکٹیں نہیں گریں اس کے ساتھ ایک بیانیہ بھی منہدم ہو گیا۔ وہ بیانیہ جس میں مسلمان ہونے کو مشکوک، الگ یا ناقابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ سراج نے جب میڈیا سے کہا کہ ’’میں صرف بھارت کیلئے کھیل رہا تھا اور ۱۴۰؍ کروڑ ہندوستانیوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانا چاہتا تھا۔ ‘‘تو یہ الفاظ محض جذباتی اظہار نہیں بلکہ ہندوستانی ہونے کی ایک زندہ علامت تھے۔ ایسے وقت میں جب سماجی فضا میں زہر گھولا جا رہا ہو، جب ایک مخصوص شناخت پر بار بار انگلی اٹھائی جارہی ہو، تب ایک محمد سراج کا میدان میں سر اُٹھا کر بولنگ کرنا، اپنے ہنر اور جذبہ سے ناقدین کو خاموش کر دینا، اصل قوم پرستی ہے۔ انگلینڈ کے کھلاڑی سراج کو’’مسٹر اینگری‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا فالو تھرو طویل، انداز جارحانہ اور وکٹ لینے کے بعد کا جشن شاندار ہوتا ہے مگر یہی سراج میدان کے باہر عاجز، شکر گزار، اپنے خاندان، کوچ اور ملک کے لئے جذباتی نظر آتے ہیں۔ ان کی کامیابیوں کے پیچھے صرف کرکٹ کی محنت نہیں بلکہ ان کے والد کی جدوجہد، ماں کے آنسو اور ایک طبقاتی جدوجہد کی مکمل کہانی چھپی ہوئی ہے۔ جب سراج کو ٹرول کیا جا رہا تھا، تب کسی نے مذہب کو ’’نجی معاملہ‘‘ نہیں کہا۔ جب ان کے عمرہ کرنےپر بلاوجہ تبصرے کئےجا رہے تھے، تب کھیل اور عقیدہ میں فرق یاد نہیں دلایا گیامگر آج جب ان کی کامیابی کو ان کی شناخت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو اعتراض ہو رہا ہے کہ مذہب کو کھیل میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟یہ منافقت دراصل ہمارے معاشرے کی دوغلی سوچ کو بے نقاب کرتی ہے کہ کامیابی میں ہم مذہب چھپانا چاہتے ہیں اور ناکامی میں مذہب کو ہدف بناتے ہیں۔ محمد سراج اب صرف ایک کرکٹر نہیں بلکہ ہندوستانی سیکولرازم اور تکثیریت کی زندہ علامت ہیں۔ ان کی گیند بازی نے نہ صرف بلے بازوں کو چت کیا بلکہ اس تعصب کو بھی شکست دی جو ان کے نام کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ آج جب ہم ’’میاں میجک‘‘ کا جشن منارہے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ یہ صرف کرکٹ نہیں، بلکہ امید، یکجہتی اور اس ہندوستانیت کا اظہار ہے جو کبھی فرق نہیں کرتی۔ 
سراج نے صرف قومی بیانیے کے طور پر کھڑی کی جارہی نفرت کی دیوار کو ہی نہیں توڑا ہے بلکہ انہوں نے ذاتی طور پر بھی کئی سنگ میل حاصل کئے ہیں۔ ان کا جوش و جذبہ تو تقریباً ہر میچ میں قابل توجہ تھا۔ وہ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں پانچوں میچ کھیلنے والے گیند باز تھے۔ انہوں نے اس دوران ۱۸۰؍ اووس سے زائد گیند بازی کی اور وہ بھی بغیر تھکے ہوئے۔ جبکہ ہمارے پا س دنیا کے سب سے بہترین گیند باز جسپریت بمراہ تھے لیکن انہوں نے ’ورک لوڈ مینجمنٹ ‘ کے نام پر ۲؍ ٹیسٹ میچ نہیں کھیلے۔ یہ نہایت حیرت انگیز ہے کہ دنیا کا سب سے بہترین گیند باز کہلانے والا بالر تو میچ ہی نہ کھیلے اور اس کے معاون یعنی سراج سے کئی کئی اوورس گیند بازی کروائی جائے۔ بمراہ کے مقابلے میں سراج نے کہیں زیادہ گیند بازی کی۔ سراج اس سے قبل آسٹریلیا میں بھی ۵؍ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے دوران ۱۵۰؍ سے زائد اوورس ڈال چکے ہیں۔ یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلسل محنت، جوش و جذبہ اور مستقل مزاجی میں یقین رکھتے ہیں اور جب بھی ٹیم کو ضرورت ہوتی ہے وہ ورک لوڈ مینجمنٹ کا بہانہ نہیں کرتے بلکہ اپنے ۱۰۰؍ فیصد سے بھی زیادہ دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ ہندوستانی نوجوانوں کے لئے ایک سبق ہیں کہ اگر ارادہ پختہ ہو، نیت صاف ہو، اور کام ٹیم کیلئے ہو، تو راستے خود بخود بن جاتے ہیں۔ سراج نے دکھایا کہ کامیابی صرف ٹیلنٹ سے نہیں، بلکہ تسلسل، تحمل اور ٹیم کے ساتھ جڑنے سے ملتی ہے۔ ملک کے کروڑوں نوجوانوں کو محمد سراج سے مستقل مزاجی، تحمل اور ٹیم پلیئر بننے کی ترغیب ضرور لینی چاہئے کیوں کہ یہی کامیابی کی کلید ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK