قریش اور دیگر قبائلِ عرب کی شرکت میں کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ اب مسئلہ حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کرنے کا تھا اور یہ بہت بڑا شرف تھا لہٰذا ہر قبیلہ کی آرزو اور چاہت تھی کہ یہ شرف اسی کو حاصل ہو۔ اس شرف سے دستبرداری عربوں کی اونچی ناک کیلئے بڑا نیچا کام تھا۔
مسجد نبوی۔ تصویر:آئی این این
قریش اور دیگر قبائلِ عرب کی شرکت میں کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ اب مسئلہ حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کرنے کا تھا اور یہ بہت بڑا شرف تھا لہٰذا ہر قبیلہ کی آرزو اور چاہت تھی کہ یہ شرف اسی کو حاصل ہو۔ اس شرف سے دستبرداری عربوں کی اونچی ناک کیلئے بڑا نیچا کام تھا۔ معاملہ بہت نازک تھا۔ بات بڑھتی گئی۔ نوبت خون خرابہ کی سرحد کو چھورہی تھی، کالے پتھر کے لئے سرخ خون کی ندی بہنے والی تھی کہ اس یتیمؐ کے اکیلے ہاتھوں نے اس طوفان کا رخ پلٹ دیا جو ان میں صادقؐ و امینؐ کے نام سے مشہور ہوچکا تھا اور سارے قبائل عرب میں اس کے حسن کردار، صدق و امانت اور عفت و شرافت کے چرچے ہی نہیں بلکہ دلو ںمیں اس کا ادب و احترام جاگزیں ہوچکا تھا۔
عمر کے چالیس سال پورے ہوچکے تھے۔ آپؐ مکہ کی گھاٹیوں اور اندر کی وادیوں سے گزرتے تو شجر و حجر سے آواز آتی السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ۔ آپؐ اپنے دائیں بائیں اور پیچھے مڑ کر دیکھتے تو درختوں اور پتھروں کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ غارِ حرا کی تنہائی کی سرگوشیاں جاری تھیں کہ عمر مبارک کا اکتالیسواں سال شروع ہوا اور سرِ مبارک پر اقراء باسمِ ربک الذی خلق (الخ) فرما کر رحمۃ للعالمینؐ کا تاج رکھ دیا گیا۔ اب تک جو سرگوشیاں تھیں وہ اپنی ذات تک (محدود) تھیں، یہاں سے ذمہ داری ڈالی جارہی ہے کہ جو دولت بے بہا عطا ہوئی، اس کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔
علامہ سید سلیمان ندویؑ کے الفاظ میں ’’نبوت کا نور چھ صدیوں سے زیر نقاب تھا، توحید کی دعوت ایک بیگانہ آواز تھی جو مفاسرانہ بے کسی کے عالم میں محمدؐ بن عبداللہ کی زبانِ مبارک سے بلند ہوئی۔ پورب، پچھم، دائیں، بائیں ہر طرف اس صدائے حق کو نامانوس سمجھا گیا۔ آواز دینے والے نے حسرت سے چاروں طرف دیکھا اور ہر طرف اس کو وہی مسافرانہ بے کسی، بے گانگی اور اجنبیت کا منظر نظر آیا۔‘‘ بات اس پر ختم نہ ہوئی بلکہ وہ جو لوگوں کی طرف رحمت ِ خداوندی کے پھول لے کر بڑھا تھا، لوگ اس کی طرف اینٹ پتھر لے کر دوڑے ۔ ان سنگدل اور سیاہ سینہ لوگوں نے اس نور مجسم اور رحمت ِ کاملؐ کو جانچنے پرکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جو کچھ کرسکتے تھے سب کچھ کر آزمایا۔ عزت پر، آبرو پر، جسم پر، جاں پر ، حملوں کی کون سی قسم تھی جس کو انہوں نے باقی نہ چھوڑا ہو۔ یقیناً ان کے ترکش میں کوئی تیر ایسا نہ تھا جو چلنے سے رہ گیا۔ پشت مبارک پر آلائشوں سے بھری ہوئی اوجھ رکھی گئی، سر پر خاک ڈالی گئی، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، گردن مبارک میں پھندا لگایا گیا۔‘‘ یہ سب اس کے ساتھ ہوا جو انسان تو انسان جانور کے دکھ کو بھی دیکھ کر تڑپ جاتا تھا۔ مگر پھر کیا ہوا؟ بقول سید سلیمان ندوی: ’’رفتہ رفتہ یہ اجنبیت دور ہوئی، بیگانگی کافور ہوئی، آواز کی کشش اور نوائے حق کی بانسری نے دلوں میں اثر کیا، کان والے سننے لگے، سننے لگے اور سر دھننے لگے، پھر سارا عرب اس کیف سے معمور ہوگیا۔‘‘
ربیع الاول کی مناسبت سے اس وقت جبکہ اس صادق المصدوقؐاور نبی اُمیؐ کا جشن منایا جارہا ہے، کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ ہم اس پر غور کریں کہ آپؐ نے وہ سب کچھ جھیل کر جس کی صرف ایک جھلک اوپر کی سطروں میں دکھائی گئی ہے، ہم کو کتنی عظیم الشان نعمت سے بہرہ ور کیا ہے؟ اگر آپؐ نہ آتے تو ہم اپنے خالق و مالک کو کیسے پہچانتے ؟ ہم پر خدائے برحق نے مسجود و ملائک بنا کر جو عظیم ذمہ داری ڈالی ہے اس کو کیسے جانتے؟ ہماری زندگی کا مقصد حقیقی کیا ہے اس سے کیسے واقف ہوتے؟ ایک دوسرے سے پیار و محبت، حقوق کی ادائیگی، رشتے ناطوں کا پاس و لحاظ، بڑے چھوٹے کا فرق اور اس کے آداب، زندگی کے جھمیلوں میں نرم گرم حالات، درست و صحیح راہ پر چلنے کی روشنی کہاں سے ملتی؟ ایک پاکیزہ اور صاف ستھرے معاشرہ کی وہ تصویر کیسے نصیب ہوتی جو اصحابِؓ رسولؐ کی زندگی میں ہم کو ملتی ہے اور مینارۂ نور کا کام کرتی ہے ۔ کیا ہم پر یہ فرض نہیں کہ اپنے گھر اور ماحول میں زندگی کے وہ رنگ ڈھنگ پیدا کریں جو انہوں نے اطاعت ِ رسولؐ اور محبت ِ رسولؐ کا حق ادا کرکے ہم کو دکھا دیا ہے؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ آپؐ نے جو کچھ جھیلا اور برداشت کیا تھا وہ انسانوں کی فلاح وبہبودی ہی کیلئے تھا؟ اگر واقعہ یہی ہے تو کیا آج ہماری بداعمالیوں سے آپ ؐ کی روح مبارک کو اس سے کہیں زیادہ تکلیف نہ پہنچتی ہوگی جتنی اینٹ پتھر برسانے والوں سے پہنچی تھی؟ آسمان و زمین پر لرزہ طاری کردینے والا کتنا حیرت ناک منظر تھا کہ آگ میں پھاندنے والوں کی جو کمریں پکڑ پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا وہی کمر کے بل گرایا جاتا تھا، پتھر مار مار کر گرایا جاتا تھا۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اپنا اور اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہمارے اپنے ہاتھوں آپؐ کی تعلیمات اور سنتیں کس طرح پامال ہورہی ہیں۔ اصحاب ِ رسولؐ وعدہ کے سچے اور عہد کے پکے تھے اور ہم وعدہ خلاف اور عہد کے کچے، ہم قوال وہ فعال، ہم الفاظ کے بادشاہ وہ حق و صداقت کے شاہکار، ہم گفتار وہ کردار، ہم صورت وہ حقیقت۔ آج ہم جو آپؐ کے پیغام و رسالت کے اصل امین و مخاطب اور آپؐ کے شیدائی ہیں، اتنے غافل و بے فکر ہیں کہ اس دن کو، اس مبارک ماہ کو جو انسانیت کی طلوعِ صبح صادق کا دن اور مہینہ ہے، صرف جشن منا کر لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنی محبت کو محبت رسولؐ کا حق ادا کردینا سمجھتے ہیں۔ سوچئے کیا ہماری سرگرمیوں سے محبت ِرسولؐ کا حق ادا ہوتا ہے؟ اچھا ہوتا جو ہم تجدید عہد کرتے، اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے، دیکھتے کہ اپنے اندر، گھر اور معاشرہ کے اندر ہم نبویؐ تعلیمات پر کتنا عمل کررہے ہیں۔
آج کے بعد کل ہے۔ زندگی کے بعد موت ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہر امتی خدا اور نبیؐ کے حضور کھڑا ہوگا اور سامنے اعمال نامہ کھلا ہوگا۔ تب کیاعالم ہوگا ندامت و شرمندگی کا؟ کیا اس کا اندازہ ہے؟ کچھ یہی احساس تھا جس نے اقبالؔ کی زبان سے معافی اور نبیؐ کے سامنے رسوائی سے بچنے کیلئے یہ دعا کی:
تو غنی از ہر دوعالم من فقیر= روزِ محشر عذر ہائے من پزیر
یا اگر بینی حسابم ناگزیر= از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
(ترجمہ: اے ہمارے مالک، تیری ذات ہر دوعالم سے غنی و بے نیاز ہے، تیرا خطاکار گنہگار بندہ ہوں، قیامت کے دن میرا عذر قبول کرکے معاف فرما دے اور اگر میرا حساب لینے ہی کا فیصلہ فرمائے تو حضورؐ کی نگاہِ مبارک سے چھپا کر میرا حساب لے ( کہ ہمیں ان سے بڑی شرم آئے گی)۔