Inquilab Logo

کیا ہمارا سونا اور جاگنا صحیح وقت پر ہورہا ہے؟

Updated: February 07, 2020, 10:03 AM IST | Muddassir Ahmad Qasmi

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ رات کو سونے کے لئے بنایا گیا ہے اور دن کو جاگنے اور کام کرنے کے لئے۔

وقت پر سونا اور اٹھنا بہت ضروری ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی
وقت پر سونا اور اٹھنا بہت ضروری ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی

ہم زندگی کے جس مر حلے بھی ہوں اور جس شعبہ ٔ حیات سے بھی ہمارا تعلق ہو ، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی نارمل گزرے اور ہمارا کام معیاری ہو تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے جاگنے اور سونے کا معمول درست کر لیں ، کیونکہ اگر اِن دونوں اعمال میں بے ضابطگی ہوگی تو نہ ہی ہماری زندگی نارمل ہوگی اور نہ ہی ہمارا کام کما حقہ درست ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں بھر پور تازگی کے ساتھ صبح سات بجے کوئی اہم کام انجام دینا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ گزشتہ شب ہم جلد ی سوجائیں تاکہ ہماری نیند پوری ہوجائے اور جب صبح بیدار ہوں تو اپنی طبیعت میں مکمل بشاشت محسوس کریں ۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا بلکہ دیر رات تک جاگتے رہے؛ تو سب سے پہلا امکان تو یہ ہے کہ صبح جلدی اور وقت پر آنکھ ہی نہ کھلے اور اگر کھل بھی گئی تو سوال یہ ہےکہ –کیا ہم چاق و چوبند ہوں گے اور کیا متعلقہ کام کے ساتھ انصاف کر پائیں گے؟ یقیناً نہیں ۔
سائنسی اعتبار سے بھی نیند کی کمی ہمارے جسم کے خلیوں کے کام کرنے کے طریقے کو بدل دیتی ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گلفرڈ کی سرے یونیورسٹی میں تحقیق کاروں نے معلوم کیا ہے کہ وہ جینز جن کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے خلیوں کے عمل میں تیزی لاتی ہیں ۔ تحقیق میں شامل ڈاکٹر میلکم وان شانز کے مطابق یہ جینز نیند میں کمی پر ردِ عمل ظاہر کر رہی ہیں جیسے کہ جسم بہت دباؤ میں ہے۔مذکورہ تمہید سےصحیح وقت میں جاگنے اور مناسب وقت میں سونے کی اہمیت کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
اب ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے سونے کے لئے بنایا ہے اور دن کو جاگنے اور کام کرنے کے لئے۔اس حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مواقع پر فرمادیا ہے کہ رات کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آرام کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ سورہ غافر کی آیت ۶۱؍ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ :’’ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات اِس غرض سے بنائی ہے کہ تم اس میں آرام کرو، اور دن کو روشن بنایا ہے، یقیناً اللہ کا انسانوں پر بڑا ہی فضل و کرم ہے؛لیکن اکثر انسان شکر ادا نہیں کرتے ہیں ۔‘‘ آج سائنسی طور پر یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ انسانی جسم کے اعضاء رات کے اوقات میں حالت سکون میں چلے جاتے ہیں اور اس دوران وہ زہریلے مادے خارج کرتے ہیں ؛اسی سبب ان اوقات میں سونا انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے ۔
شرعی اور عقلی طور پر یہ بات تو ثابت ہوچکی ہےکہ رات سونے کے لئے ہے، اب سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ کب سویاجائے تو اِ س حوالے سے احادیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ہم رات میں کھانے پینے اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے فوراً بعد سوجائیں ۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عشاء سے پہلے نہیں سوتے تھے اور عشا ء کے بعد بات نہیں کرتے تھے (یعنی فوراً سو جاتے تھے)۔اسی طرح بخاری کی روایت کے مطابق نبی اکرمﷺ عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ اِن احادیثِ پاک سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہمیں کھا پی کر اور عشاء کی نماز پڑھ کر جلد سوجانا چاہئے۔ چونکہ یہ ہدایت فطرت کے عین مطابق ہے اسی وجہ سے دیگر افراد بھی اس کی تصدیق کرتے آتے ہیں ۔ اس حوالے سے امریکی مفکر بنجامن فرینکلین کی ایک کہاوت ہے کہ ، رات میں جلدی سونے اور صبح سویرے بیدار ہونے کی عادت ایک شخص کو تندرست ، ذہین اور دولت مند بنا دیتی ہے ۔
موجودہ وقت میں رات میں سونے کے حوالے سے ہمیں ایک خاص نقطے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور حدیث ِ مبارک کی حکمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رات میں بات کرنے اور گپ شپ میں مشغول ہونے سے اِس وجہ سے روکا گیا ہے تاکہ ہم تہجد اور فجر کی نماز کے لئے بروقت بیدار ہوسکیں اور دن میں انجام پانے والے کام کو صحیح ڈھنگ سے کر سکیں ۔ موجودہ وقت میں اگر چہ ہمارا اوربطورِ خاص نوجوان نسل کا طرزِ عمل عموماً رات میں دیر تک بات چیت کرنے کا نہیں رہا ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم فوراً سو جاتے ہیں ؛بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم موبائل اور انٹر نیٹ کی دنیا میں مست و مگن رہتے ہیں جو یقیناً مختلف وجوہات سے مہلک اور رات میں گپ شپ کرنے سے بھی زیادہ مضر اور خطرناک ہے۔ایسے لوگوں کے لئے فجر اور تہجد کی نماز کا ادا کرنا انتہائی مشکل کام تو ہو ہی جاتا ہے؛ یہ لوگ بڑے پیمانے پر دن میں اپنے اپنے کام کے دوران جھپکی لیتے بھی نظر آتے ہیں ،اس کا اندازہ آپ آفس میں ملازمین اور کلاس میں طلباء کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں ۔ 
صبح سے کام کرتے کرتے دو پہر تک انسان چونکہ تھک جاتا ہے اس وجہ سے دو پہر کو کچھ وقفہ کے لئے تازہ دم ہونے کے واسطے آرام کرنا ایک معقول عمل ہے جو کہ سنت بھی ہے۔ اسے شریعت میں ’’قیلولہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، اس کے معنی ہیں : دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لیٹنا، خواہ نیند آئے یا نہ آئے. ( عمدۃ القاری للعینی) ’’قیلولہ‘‘ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول رہا ہے، آپ ﷺ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’دن کے سونے کے ذریعے رات کی عبادت پر قوت حاصل کرو۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی) اِس سے جہاں کھانا ہضم ہوتا ہے وہیں ذہن و دماغ اور جسم کو تازگی بھی ملتی ہے۔یاد رہے کہ قیلولہ کا مطلب ہرگز رات کی طرح لمبے وقفے کے لئے سونا نہیں ہے،جیسا کہ ایک طبقے نے مستقل اس کی عادت بنا لی ہے۔ 
رات جلدی سو نے کی اہمیت کا اندازہ ہمیں مذکورہ نکات سے بخوبی ہوگیا، اسی طرح صبح جلدی اُٹھنے کے بھی بے شمار فوائد ہیں ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : `میں صبح کے وقت سوئی تھی کہ رسول اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے اور آپؐ نے مجھے ہلایا ،پھر فرمایا: بیٹی! اٹھو! اپنے رب کی طرف سے رزق کی تقسیم میں شامل ہو جاؤ اور غفلت شعار لوگوں کی عادت اختیار نہ کرو، اللہ تعالیٰ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں ۔ (شعب الایمان،حدیث نمبر ۴۴۰۵)۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد) آج بہت سارے لوگ رزق کے حوالے سے پریشان نظر آتے ہیں ؛یقیناً ایسے لوگ اگر صبح جلدی اُٹھنے اور نہ سونے کے نبویؐ نسخے پر عمل کر لیں تو وہ رزق کی برکت سے مالا مال ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ جسمانی ،ذہنی اور کارو باری نقطہ نظر سے صبح جلدی اُٹھنے کے بے شمار فوئد ہیں ۔مزید براں یہ کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی دعا ء کے فیض سے مالا مال ہوتے ہیں ۔آپ ﷺ نے دعا کی ہے کہ : ’’اے اللہ ! میری امت کی صبح میں برکت عطافرما۔‘‘ ابن ماجہ
  یاد رکھیں ! رات جلدی سونا اور صبح جلدی اُٹھنا کوئی مشکل عمل نہیں ہے؛ کیونکہ جب ہم رات جلدی سوجائیں گے تو صبح جلدی آنکھ از خود کھل جائے گی اور جب صبح جلدی بیدار ہوں گے تو رات میں بھی جلدی نیند آہی جائے گی۔

islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK