Inquilab Logo Happiest Places to Work

کبھی سوچا ہے سفر کی کتنی تیاری ہوئی؟

Updated: July 18, 2025, 1:02 PM IST | Intezaar Naeem | Mumbai

سماج میں ایسے بد قسمت بھی نایاب نہیں ہیں جو اپنے والدین کی خدمت کرنے کے بجائے اُن کے حقوق غصب کرتے اور ان کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

نیکی ایسا لفظ ہے جس سے دنیا کا شاید ہی کوئی شخص نا واقف ہو۔ عام طورپر لوگ نیکی کی بات کرتے اور نیک عمل کرنے کی کوشش اور جدو جہد کرتے ہیں۔ مسلمان نیکیوں کے حصول کے کچھ زیادہ ہی تمنائی ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے ذہن میں اس سلسلے میں اللہ اور رسولؐ کے احکام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہیں، لہٰذا وہ نیک عمل کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طلب گار رہتے ہیں تاکہ آخرت میں ابدی کامیابی اور سرخروئی سے سرفراز ہوسکیں۔ اسی طرح بدی اور گناہ کے تصور سے بھی کسی مسلمان کا ذہن خالی نہیں رہتا اور عام طور پر لوگ دانستہ ان سے اجتناب کی کوشش اور اپنے رب کے عتاب سے بچنے کی فکر کرتے ہیں۔ لیکن دنیوی زندگی میں انسان کے ساتھ شیطان کی کارفرمائی بھی جاری رہتی ہے اور اس کا اپنا نفس بھی اس کو دھوکے اور فریب میں مبتلا رہنے کی طرف مائل کرتا رہتا ہے۔ اگروہ اس سے حفاظت کی کوششیں نہ کرے تو اُس کی نیکیوں پر بدی و گناہ اور ظلم و ناانصافی کے میلان کاغلبہ ہوتا جاتا ہے اور بدقسمتی سے وہ وقت بھی آ جاتا ہے جب اس کے دل پر غفلت کی سیاہ چادر تن جاتی ہے، اُس کے لئے اللہ اور رسولؐ کے احکام سے روگردانی آسان ہو جاتی ہے اوراُس کا نفس گناہوں کو اُس کے لئے لذت بخش بنا دیتاہے۔ اُس کی بے اعتدالی کی یہ روش خود اس کو بھی تباہ کرتی اور سماج کے لئے بھی بے شمار مسائل پیدا کرتی ہے۔ ذیل کی سطور میں ایسے ہی چند مسائل کا ذکر کیا گیا ہے:
 حقوق پر دست درازی
اسلام نے قرابت داروں کے واضح حقوق متعین کئے ہیں۔ والدین کے حقوق سب سے زیادہ ہیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت کا عالمگیر مژدہ اسلام کی ہی خوبصورت دین ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کے سلسلے میں یہ بھی فرمایا کہ :’’ وہ تمہاری جنت یا جہنم ہیں۔ ‘‘ لیکن سماج میں ایسے بد قسمت بھی نایاب نہیں ہیں جو اپنے والدین کی خدمت کے بجائے اُن کے حقوق غصب کرتے اور ان کی زندگی کو دشوار تر بناتے ہیں۔ ایسے خطاکارگھر سے باہر اپنے علم، دولت و ثروت، مقام و مرتبہ اور اپنے سوشل ورک کا ڈھنڈورا پیٹ کر سماج کی آنکھوں میں تو دھول جھونک سکتے ہیں لیکن اللہ کی نگاہ سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ اسی طرح جو لوگ اپنے بھائیوں، بہنوں اور دیگر عزیزوں کے اللہ کے عطا کردہ حقوق میں دست درازی کرتے ہیں اور جو لوگ بچیوں کو زندہ رہنے اور لڑکیوں کو باوقار زندگی گزارنے کے حق سے محروم کر دیتے ہیں وہ بھی خدا کی پکڑ سے کہاں بھاگ سکتے ہیں ؟
 گھریلو تشدد
 اسلام پُر سکون اور راحت افزا خاندان کی بنیاد رکھتا ہے، اس لئے گھریلو تشدد اسلامی سماج میں عام تو نہیں ہے لیکن مسلم ماحول اس سے پاک بھی نہیں ہے۔ شکوہ شکایت ہو تو اُسے گفت و شنید کے ذریعہ حل کر لینے کے بجائے معاملات پولیس تھانوں اور عدالتوں تک پہنچ کر متعلقہ خاندانوں کو غیر معمولی مشکلات میں ڈالتے ہیں اور اپنے سماج کے لئے بھی رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ گھریلو مسائل مردوں اور عورتوں، دونوں ہی کی جانب سے پیدا ہوتے ہیں، کسی ایک جانب سے نہیں۔ (باقی صفحہ ۸؍پر)
 مردوں عورتوں دونوں کو سوچنا چاہئے کہ اسلامی عائلی قوانین کی رو سے زیادتی جس کی بھی ہو، سب سے اللہ واقف ہوتا ہے اور ایک دن اس کی میزانِ عدل قائم ہو کر حق اور نا حق کا فیصلہ ضرور کریگی لہٰذا ضروری ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں سنوارنے کے لئے خاندانوں میں خوش گوار ماحول قائم کیا جائے۔ 
 عزت و آبرو پر حملہ اور بد کاری
عزت و آبرو انسان کی عزیز ترین چیزوں میں سے ہے۔ اس کی حفاظت کی وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور اس پر حرف آ جائے تو اس کا چین و سکون سب چھن جاتا ہے۔ جس طرح ہر شخص اپنی عزت آبرو کی پاسداری کرتا ہے اُسی طرح اس کو یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ اس کے کسی طرز عمل سے دوسرے کی عزت پر حرف آئے تو اُس کو بھی شاید ناگوار اور اس کی بے چینی و اضطراب کا سبب ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر جب کسی شخص کا مزاج بدکاری کا بن جائے تو گویا وہ خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ اسی لئے قرآن نے مومنین کو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کی تاکید کی ہے۔ (القرآن سورہ مومنون : آیت ۵، ۶)
پڑوسی کا حق
پڑوسی کے غیر معمولی حقوق کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات بڑی حساسیت پر مبنی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کے حقوق کی پاسداری کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے : ’’جس نے پڑوسی سے اپنے گھر والوں اور مال کے بارے میں خطرہ محسوس کیا اور دروازہ بند کر کے سویا تو ایسا پڑوسی مومن نہیں ہے اور وہ بھی مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کے ظلم اور دست درازی سے محفوظ نہ ہو۔ ‘‘ اس کے باوجود ایسے نامرادوں کی کمی نہیں جو پڑوسی کے دروازے پر کوڑا پھینکنے، اس کی طرف کھڑکی کھولنے، اس کی زمین میں پر نالہ گرانے، اس کی بے پردگی کرنے، اس کی عزت و آبرو کیلئے مسائل پیدا کرنے اور اس سے غیر ضروری لڑائی جھگڑا کرنے میں کوئی تکلف کرتے ہوں۔ اللہ، رسولؐ اورروزِ آخرت پر ایمان رکھنے والے کسی بھی شخص کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ایسا ہر کام فی الفور ختم کرے، ماضی میں ایسا کچھ ہوا ہو تو اس کی تلافی کرے اور پڑوسی کو راضی اور مطمئن کرے۔ 
 جائدادوں پر ناجائز قبضہ
ہوسناکی اور مادہ پرستی کے اس دور میں دوسروں کی زمین جائداد ناجائز، حرام اور غیر قانونی طریقے پر غصب کرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ ایسے افراد گائوں میں دوسروں کے کھیت اور زمین پر اپنی فتنہ پردازی، طاقت و قوت اور اثر و رسوخ کے ذریعہ قبضہ کر لینے، اپنے نام کرا لینے اور دوسرے کو اس کے حق سے محروم کر دینے میں کوئی تکلف نہیں کرتے۔ شہروں میں دوسروں کے پلاٹ، فلیٹ اور جائدادوں کو اپنی شر انگیزی اور جھوٹی مقدمہ بازی سے ہڑپ لینے والے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جس نے کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کیا، قیامت کے دن اس کو سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔ ‘‘ 
یاد رہے کہ دوسرے کے پلاٹ پر فریب و عیاری کے ذریعہ قبضہ کر کے اس پر کثیر منزلہ بلڈنگ تعمیر کر کے فلیٹ فروخت کرنے والے اور آخرت میں اپنے لئے بُرا ٹھکانہ بُک کرانے والے افراد بھی ملت کی صفوں میں موجود ہیں اور افسوسناک طور پر اس حقیقت سے بے پروا ہیں کہ قیامت میں خدا کی بارگاہ میں کس ذلت و خواری سے دوچار اور کس درد ناک سزا کے مستحق ٹھہرینگے۔ 
 نیکی اور بدی کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں سے آگاہ کی گئی اُمت کے افراد کو شہری ذمہ داریوں کے پہلو سے بھی مثالی کردار پیش کرنا چاہئے اور اپنی دکان اور مکان اپنی حقیقی حد میں رکھنے کے سلسلے میں بھی، لیکن ملت اسلامیہ کے بہت سے افراد جو زمین کی ہوس میں گرفتار ہیں اور جن میں بظاہر دین دار اشخاص بھی ہیں وہ بھی تجاوزات (انکروچمنٹ)کی بیماری سے خود کو محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ بعض لوگ اپنی دکان سے باہر فٹ پاتھ اور سڑک پر قبضہ کر کے سرکاری ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ہی راہ گیروں کا حق مارتے ہیں اور کچھ تو فٹ پاتھ کو مستقلاً اپنی دکان میں شامل کر لیتے ہیں اور پھر مزید بڑھ کر سڑک پر کاروباری سامان پھیلا کر وہاں ٹیبل کرسیاں لگا کر کاروبار کرتے ہیں اور انہیں احساس نہیں رہتا کہ فٹ پاتھ اور سڑک پر مستقل ناجائز قبضہ کر کے جو روزی کمائی جاتی ہے وہ کتنی جائز ہوتی ہے؟ 
 گلیوں اور سڑکوں کو تنگ کر کے ٹریفک کیلئے مشکلات اور راہگیروں کے مسائل میں اضافہ کرنے والے کبھی نہیں سوچتے کہ اسلام دین رحمت ہے اور اس میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اِسلام تو راستوں کا بھی حق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج گلیوں، سڑکوں اور بالکنیوں (چھجوں )کے تجاوزات کا جرم اور گناہ کا ارتکاب کرنے والے کل کن کن متاثرین کا حق ادا کر پائینگے؟ (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK