Inquilab Logo Happiest Places to Work

ملت کی شیرازہ بندی : وقت کی اہم‌ ضرورت

Updated: July 18, 2025, 2:50 PM IST | Rahmatullah bin Saad Al-Ayunsi | Mumbai

اقوام کی ترقی کے لئے آپس میں اتحاد و اتفاق کا موجود ہونا امرِ ناگزیر ہے۔ اگر آپس میں افتراق، رنجشیں اور صفوں میں اختلافات کی اونچ نیچ ہو، تو اجتماعی طور پر پوری قوم لاغر و ناتواں ہو جاتی ہے، کثیر وسائل مہیا ہونے کے باوجود دشمن کا لقمۂ تر بن جاتی ہے اور ان پر جو جب چاہے حملہ آور ہو جاتا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

اقوام کی ترقی کے لئے آپس میں اتحاد و اتفاق کا موجود ہونا امرِ ناگزیر ہے۔ اگر آپس میں افتراق، رنجشیں اور صفوں میں اختلافات کی اونچ نیچ ہو، تو اجتماعی طور پر پوری قوم لاغر و ناتواں ہو جاتی ہے، کثیر وسائل مہیا ہونے کے باوجود دشمن کا لقمۂ تر بن جاتی ہے اور ان پر جو جب چاہے حملہ آور ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ہم دنیا کے نقشے پر اس تلخ حقیقت کا نظارہ آئے دن کرتے رہتے ہیں، جس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلم ممالک بھی اتحاد کے فقدان کے سبب دشمنوں کا نشانہ بن رہے ہیں، اور یکے بعد دیگرے صلیبی و صہیونی دشمنوں کی جارحیت کا ہدف ثابت ہو رہے ہیں ۔ 
دوسری جانب جب ہم مغربی ممالک کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تباہ کن اور خوفناک عالمی جنگوں کے بعد آپس میں مضبوط اتحاد کرلیا ہے اور تنظیمیں بنا کر ایک دوسرے کے حلیف و مددگار بن گئے ہیں، یہاں تک کہ ان کی سرحدیں بھی ایک دوسرے کے لئے وا کر دی گئی ہیں۔ ان کے مفادات بھی ایک ہو چکے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کی خاطر جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اپنے وسائل صرف کرتے ہیں ۔ وہ متحد ہو کر اتنے طاقتور بن چکے ہیں کہ آج ان کی جانب کوئی ترچھی نگاہ سے دیکھنے کی جسارت نہیں کرتا، بلکہ وہ خود جس پر چاہیں جارحیت کر کے اپنے مفادات حاصل کرلیتے ہیں، چڑھائی کر کے آبادیوں کو ویرانے میں تبدیل کر دیتے ہیں، اور وسائل پر قابض ہوکر اپنی کمپنیوں کو نفع پہنچاتے ہیں۔ 
 قرآن پاک ہمیں بار بار یہود و نصاریٰ کے تعلق سے بیدار کرتا ہے اور ہوشیار رہنے کا حکم دیتا ہے، مگر ننگ ِ ملت حکمراں بار بار زخم کھانے کے باوجود سبق نہیں لیتے۔ ارشادِ ربانی ہے:’اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔ ‘‘ (المائدہ:۵۱)
 موجودہ مسلم حکمراں حقائق سے صرفِ نظر کر کے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر یہود و نصاریٰ سے دوستی رچاتے پھر رہے ہیں ۔ انہیں اپنے ذاتی مفادات کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا، یہاں تک کہ وہ، مسئلۂ فلسطین جیسے سب سے اہم و حساس معاملے کے تعلق سے بھی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدترین خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، اور عمداً اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہے ہیں ۔ 
اسلام ایک عالمی دین‌ ہے، اس کے ماننے والے، خواہ ان کا تعلق دنیا کے کسی بھی کونے سے ہو، آپس میں بھائی ہیں ۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کی خبرگیری کرنے، اپنے بھائیوں کی مدد کرنے، آپس میں متحد ہو کر زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے ارشادِ ربانی ہے: ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ ‘‘ (آل عمران:۱۰۳)
قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے:
’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔ ‘‘ (الحجرات:۱۰ )
اسلام ہمیں آپس میں مل جل کر رہنے کی تلقین کرتا ہے، صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے اور آپس میں لڑنے جھگڑنے سے روکتا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اتحاد و اتفاق کی اہمیت بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متاثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاری)
یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ اس نے رنگ و نسل، اونچ نیچ اور ذات پات کے امتیازات مٹا دیئے تاکہ انسانی و اسلامی وحدت قائم ہو، جس کے سائے تلے انسان آزاد ہو کر ترقی کر سکے۔ افسوس ! وہ اتحاد و اتفاق جو ہمارا شعار اور اسلامی مشن تھا، ہم نے اس کو قومی، لسانی، نسلی، جغرافیائی اختلافات میں الجھ کر تار تار کر دیا اور مصیبتوں کو دعوت دی۔ 
 ماضی میں جب قومِ مسلم متحد تھی، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھی تو دنیا نے وہ نظارہ دیکھا کہ ہم سپر پاور کی کرسی پر متمکن تھے، بڑی بڑی طاقتور حکومتیں ہمارے سامنے سرنگوں ہوگئی تھیں۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکے، مگر اتحاد کے فقدان کے سبب ہمارا زور جاتا رہا۔ آج بھی اگر ہم بحیثیت امت، فکری، لسانی، قومی، جغرافیائی اختلافات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اتحاد کی فضا قائم کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کوشش میں کامیاب ہوں، اور دین کی بنیاد پر متحد ہوں اور دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو ہم دوبارہ عزت و کامرانی کی بلند و بالا چوٹی پر پہنچ سکتے ہیں ان شاء اللہ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK