ہر مسلمان کیلئے یہ دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل اور لازمی ہیں۔
EPAPER
Updated: July 18, 2025, 1:07 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
ہر مسلمان کیلئے یہ دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل اور لازمی ہیں۔
اس وقت ملك كے بعض علاقوں میں برادران وطن كے تهوار منعقد هو رهے هیں۔ اس موقع پر مسلمانوں كی طرف سے افراط وتفریط كا ارتكاب هوتا هے، كهیں تو ناواقف مسلمان اس قدر جھک جاتے هیں كه گویا وه ان كے هم مذهب هوگئے، اور كهیں اس كے برخلاف نفرت كا اظهار هونے لگتا هے، جیسے جلوس كے شریر لوگوں كے جواب میں كوئی ایسی بات كهه دی، جس سے ان كے مذهبی جذبات مجروح هوتے هوں، یا ان كی طرف سے چند افراد نے فساد بھڑكانےكے لئے چند پتھر پھینك دئیے تو جواب میں ان پر پتھر پھینك دئیے گئے، اس سے پھر ایك بڑا فساد پھیل جاتا هے؛ اسی لئے اس سلسله میں غیر مسلموں كے ساتھ تعلقات كے دائره كے بارے میں غور كرنا چاهئے۔ یه ایك حقیقت هے كه مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کے بارے میں سب سے اہم موضوع مذہبی تعلقات کا ہے، اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں : اپنے دین پر استقامت اور دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام۔
مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں، مسلم ممالک میں یا غیرمسلم ممالک میں، ان کے لئے دین کے چار شعبوں میں قانونِ شریعت کا التزام ضروری ہے۔ یہ چار شعبے ہیں : اعتقادات، عبادات، معاشرتی زندگی اور معاملات۔
’’اعتقادات‘‘ سے مراد وہ احکام ہیں، جن کا تعلق قلب و ضمیر سے ہو، جیسے: توحید، رسالت، آخرت کا یقین وغیرہ۔ ’’عبادات‘‘ سے وہ احکام مراد ہیں، جن کا تعلق براہِ راست خدا اور بندے کے باہمی ربط سے ہے، جیسے: نماز، روزہ وغیرہ۔ ’’معاشرتی احكام‘‘ سے مراد پرسنل لاء ہے، اس میں نکاح و طلاق کے علاوہ میراث، وصیت اور مختلف اقارب سے متعلق حقوق و فرائض بھی آجاتے ہیں ۔ ’’ معاملات‘‘ سے مراد مالی بنیاد پر دو افراد کے تعلقات و معاہدات ہیں : تجارت، اجارہ، ہبہ وغیرہ اس شعبہ کے تحت آتے ہیں اور سود و قمار جیسے حرام معاملات بھی اسی دائرہ میں ہیں ۔
یہ تمام قوانین وہ ہیں کہ چاہے مسلم اکثریتی ملک ہو یا غیرمسلم اکثریتی ملک، اور اقتدار کی کلید مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے لئے ان قوانین میں شریعت ِاسلامی کی اطاعت واجب ہے۔ یه درست نهیں هے كه رواداری كے نام پر عقیده و ایمان كے مسائل میں كوئی كمزوری قبول كی جائے، جو قوانین اجتماعی نوعیت کے ہوں، یا جرم و سزا سے متعلق ہوں، جیسے: حدود، قصاص، نظامِ مملکت وغیرہ، ان شعبوں سے متعلق شرعی قوانین وہیں قابل نفاذ ہیں جہاں باگِ اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو۔
پس غیرمسلموں سے تعلقات ان قوانین پر عمل آوری کے حق سے دست برداری اور محرومی کی قیمت پر استوار نہیں کئے جاسکتے اور اس سلسلہ میں کسی تبدیلی کو قبول کرنے کا مطالبہ فی نفسہٖ نامعقول بھی ہے ؛ کیوں کہ مسلمانوں کے ان پر عمل کرنے اور نہ کرنے سے غیرمسلم بھائیوں کو نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تہذیبی اور تمدنی اعتبار سے اپنے وجود کو دوسروں کے ساتھ گم نہ کرلیں ؛ بلکہ اپنی شناخت اورپہچان کو باقی رکھیں ؛ اسی لئے آقائے نامدار محمد رسول اللہ ﷺ نے دوسری اقوام کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے :
’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو دوسروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں هے، یہودیوں اور عیسائیوں سے مماثلت اختیار نہ کرو۔ ‘‘ (الجامع للترمذی، حدیث نمبر : ۶۲۹۵، کتاب الاستیذان )
اس تشبہ اور مماثلت کے کئی مدارج ہوسکتے ہیں : جیسے
(الف)دوسری قوموں کے مذہبی شعائر میں مماثلت اختیار کی جائے۔ (ب) تہذیبی تشبہ یعنی ایسی وضع قطع اور لباس، جو کسی خاص قوم کی شناخت بن گئی ہو اور اس کا مذہب سے تعلق نہ ہو، کو اختیار کرنا۔ لیکن تشبہ کی اس جہت میں تبدیلی آتی رہتی ہے؛ کیوں کہ اگر کوئی وضع ایک عہد میں کسی قوم کی پہچان بن گئی ہو اور بعد کو اس کا استعمال عام ہوجائے اور وہ کسی خاص مذہبی گروہ کی شناخت باقی نہ رہ جائے تو پھر تشبہ کی کیفیت ختم ہوجائے گی اور اس کا استعمال جواز کی حد میں آجائے گا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے کوٹ، پینٹ کے بارے میں ( امداد الفتاویٰ : ۴؍۲۶۸ سوال نمبر : ۳۴۵) اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ نے ساڑی کے متعلق یہی لکھا ہے۔ (کفایت المفتی : ۹؍۱۶۱)
(ج) جو ملبوسات، وضع قطع اور تقریبات کسی خاص مذہبی گروہ کی پہچان نہیں ہیں، یاانتظام و انصرام سے متعلق اُمور، جیسے طرزِ تعمیر، دفتری نظم و نسق، تجارتی طور و طریق وغیرہ ان میں غیرمسلم بھائیوں کے طریقۂ کار سے استفادہ کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے حساب و کتاب کے نظام میں روم و ایران کے طریقوں سے استفادہ کیا تھا (الفاروق : علامه شبلی نعمانیؒ : ۲؍۱۳۰۴)۔ آپؐ نے غزوۂ احزاب میں حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورہ پر اہل فارس کے طریقہ پر خندق کھدوائی تھی۔ (البدایۃ والنہایۃ) یہ اس بات كی دلیل ہے کہ ایسے اُمور میں غیرمسلم بھائیوں کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی حرج نہیں ۔
تشبہ اور مماثلت سے بچنے کا جو اُصولی حکم شریعت ِاسلامی میں دیا گیا ہے، وہ تعصب اورتنگ نظری پر مبنی نہیں ہے، اصل یہ ہے کہ شناخت کی حفاظت ایک فطری عمل ہے، غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت اور آواز کو ایک دوسرے سے ممتاز رکھا ہے، انسان کے اندر شناخت کی حفاظت کا جذبہ اتنا گہرا ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم اپنی شناخت الگ رکھنا چاہتی ہے، اپنے تمدن کی حفاظت کرتی ہے، اپنے جھنڈے الگ رکھتی ہے، ہر اسکول اپنا مستقل یونیفارم رکھتا ہے، گورنمنٹ کے مختلف محکموں کے الگ الگ یونیفارم ہوتے ہیں ؛ اس لئے اپنی شناخت کی حفاظت کوئی مذموم عمل نہیں ہے اور نہ اس میں دوسروں کی مخالفت اور ان کے بارے میں تنگ نظری ہے۔
مذہبی تعلقات کی دوسری بنیاد دوسرے مذاہب کا احترام اور ان کے مذہبی اُمور میں عدمِ مداخلت ہے۔ قرآنی تعلیمات کا نچوڑ عقیدۂ توحید کی دعوت ہے، اسلام میں توحید سے زیادہ کوئی چیز مطلوب و محمود نہیں اور شرک سے زیادہ کوئی چیز قابل ترک اور مذموم نہیں ؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے حد درجہ مذہبی رواداری کی بھی تعلیم دی ہے۔ قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ ہر شخص کو عقیدہ کی آزادی حاصل ہے اور کسی مذہب کے قبول کرنے کیلئے جبر و تشدد جائز نہیں ہے :
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔ ‘‘ (البقرۃ : ۲۵۶)
قرآن مجید میں رسولؐ اللہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا : (ترجمہ) ’’اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے (جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا) تو کیا آپ لوگوں پر جبر کرینگے یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں۔ ‘‘ (یونس: ۹۹)
عقیدہ کے علاوہ غیرمسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی بھی مکمل آزادی حاصل ہے، قرآن مجید نے صاف طور پر حضورؐ پُر نو ر کی زبانِ مبارک سے مشرکین مکہ کو کہلایا کہ ’’تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین‘‘ (الکافرون : ۶)۔ ایک اورموقع پر ارشاد ہوا: ’’ہمارے (لئے ہمارے) اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال۔ ‘‘ (القصص: ۵۵)
یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے مذہبی گروہوں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کیا جائے اور دوسری قومیں جن دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش کرتی ہوں، ان کو برا بھلا نہ کہا جائے؛ حالاں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ اسلام خدا کی ذات و صفات میں کسی کی شرکت کو جائز نہیں سمجھتا ؛ کیوں کہ یہ سچائی اور واقعہ کے خلاف ہے لیکن پھر بھی مذہبی رواداری کے تحت ان معبودانِ باطل کے بارے میں ناشائستہ باتیں کہنے سے منع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو۔ ‘‘ (الانعام : ۱۰۸)
اسی طرح عبادت گاہوں کے معامله میں بھی تمام اہل مذاہب کے جذبات کو ملحوظ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے، قرآن مجید نے جہاں عبادت گاہوں کے منہدم کرنے کی مذمت کی ہے، وہاں مسلمانوں کی مسجدوں سے پہلے یہودیوں اور عیسائیوں کے گرجوں کا ذکر فرمایا ہے، (الحج : ۴۰)۔ اس سے ظاہر ہے کہ عبادت گاہیں، خواہ کسی مذہب کی ہوں، ان کا احترام ملحوظ رکھنا چاہئے۔ رسولؐ اللہ نے بنونجران سے جو معاہدہ کیا، اس میں یہ صراحت فرمائی کہ ان کی عبادت گاہیں منہدم نہیں کی جائینگی اور نہ مذہبی اُمور میں دخل اندازی یا مداخلت کی جائے گی۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر : ۳۰۴۱) عہد ِ صدیقی میں حضرت خالد بن ولید ؓ کے ذریعہ حیرہ کا علاقہ فتح ہوا، اہل حیرہ کے لئے انہوں نے جو دستاویز تیار فرمائی، اس میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ ان کے چرچ اور گرجے منہدم نہیں کئے جائیں گے۔ امام ابویوسفؒ نے اسے نقل کیا ہے۔ (موسوعۃ الخراج : ۱۴۳)
اس سلسلہ میں خلافت ِ راشدہ اور بعد کے مسلم عہد میں بہت سی مثالیں موجود ہیں، جن کا ذکر اس وقت درازئ تحریر کا باعث ہوگا ؛ لیکن اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام عقیدۂ توحید کی حفاظت اور اپنی شناخت کی بقاء کے سلسلہ میں جس قدر حساس ہے، غیرمسلموں کے مذہبی اور سماجی مسائل میں اسی قدر کشادہ قلب، سیر چشم اور رَوادار بھی ہے، افسوس کہ اس پر غلط فہمیوں کے تہہ در تہہ دبیز پردے ڈال دیئے گئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم بالخصوص ہمارے نوجوان اِن باتوں پر غور کریں اور اپنے طریقۂ عمل کو اتنا درست اور مستحکم رکھیں کہ اچانک کوئی افتاد آن پڑے یا کوئی بات خلاف ِ توقع ہوجائے تو وہ ذہنی طور پر تیار رہیں کہ کس موقع کیلئے اسلام نے کیا تعلیم دی ہے۔