Inquilab Logo Happiest Places to Work

انسانیت ابھی مری نہیں ہے

Updated: February 07, 2025, 1:23 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

مہاکمبھ میں بھی کتنی مائیں ہوں گی جو دولتمند ہونے کے باوجود بچوں یا گھر والوں سے بچھڑ کر بھوک پیاس سے تڑپ رہی ہوں گی جن مسلمانوں نے ان کیلئے کھانے پینے اور قیام کا انتظام کیا حتیٰ کہ مسجدوں کے دروازے کھول دئیے وہ قابل مبارکباد ہیں۔ اس کا اجر انہیں اسی سے ملے گا جو ہم سب کا رب ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

انسانی جانوں  کے زیاں  پر غم محسوس کرنا انسانی فطرت کا خاصا ہے اسلئے ہم ان تمام لوگوں  کیلئے غم و افسوس کا اظہار کرتے ہیں  جو مہاکمبھ میں  لقمۂ اجل بن گئے البتہ یہ کہنے سے گریز کرتے ہیں  کہ کتنی مرتبہ بھگدڑ مچی، کتنے لوگوں  کی جان گئی یا یہ کہ کن کی کوتاہی کے سبب یہ جان لیوا سانحہ رونما ہوا؟ کیونکہ حکومت نے عدالتی جانچ کیلئے کمیشن کا تقرر کر دیا ہے اور اس نے اپنا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ اب کمیشن ہی جواب دے گا کہ ان سوالوں  کے کیا جوابات ہیں  جو مختلف ذرائع مختلف انداز میں  بیان کر رہے ہیں ۔ مہاکمبھ سے پہلے اس میں  مسلمانوں  کے دکان لگانے پر اعتراض کیا گیا تھا اور پھر اعلان بھی کر دیا گیا تھا کہ مسلمانوں  کو دکان لگانے کی اجازت نہیں  ہوگی۔ اس وقت اس فیصلے سے تکلیف ہوئی تھی مگر اب محسوس ہورہا ہے کہ اچھا ہی ہوا مسلمانوں  کو مہاکمبھ سے دور رکھا گیا ورنہ سارا الزام انہیں  کے سر جاتا۔ آئندہ کیا ہوگا؟ یا وی آئی پی کلچر کو مذہب سے جوڑنے کو جس طرح معتوب کیا جا رہا ہے اس کے کیا اثرات ہوں  گے اس پر تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا البتہ اس حقیقت پر خوشی کا اظہار برحق ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں  مسلمانوں  نے دلوں  کے ساتھ مسجدوں  کے دروازے بھی لوگوں  کیلئے کھول دئیے۔ چند سال پہلے جب ممبئی میں  قیامت خیز بارش ہوئی تھی، سمندر نے پانی جذب کرنا بند کر دیا تھا اور گلیوں  کے علاوہ نشیبی علاقوں  کے گھروں  میں  پانی بھر گیا تھا اس وقت بھی مسجد کے دروازے مصیبت میں  گھرے لوگوں  کیلئے کھول دئیے گئے تھے۔ کئی مسجدوں  کی انتظامیہ کے علاوہ محلوں  کے نوجوانوں  نے بھی بہت اہم کردار ادا کئے تھے اور مختلف سطحوں  پر راحت رسانی کی تھی۔ یہی مذہب کا حکم ہے اور اخلاق محمدیؐ بھی۔
 جو لوگ حادثات و سانحات پر صرف رائے زنی کرتے ہیں  ان کے طرز عمل سے اتفاق نہیں  کیا جاسکتا۔ مصیبت کی گھڑی میں  اولیت راحت رسانی کو دیا جانا چاہئے۔ مجھے خوشی ہے کہ پریاگ راج اور قرب و جوار کے ہندو مسلمان سکھ مصیبت زدہ لوگوں  کو راحت پہنچا رہے ہیں ۔ حادثے کہیں  بھی اور کسی وقت بھی رونما ہوسکتے ہیں  اور حادثوں  کیلئے ضروری نہیں  کہ وہ کسی سازش کے سبب رونما ہوں  یا بد انتظامی کا نتیجہ ہوں  حادثے تمام تر حسن انتظام اور احتیاط کے باوجود رونما ہوجاتے ہیں ۔ حادثوں  کے بعد اولین کام راحت رسانی کا ہوتا ہے۔ ۱۹۹۷ء میں  حج کے دوران میں  اپنی والدہ کے ساتھ منیٰ میں  تھا۔ اچانک آگ لگ گئی۔ روپے میری جیب میں  تھے اور میں  والدہ سے بچھڑ گیا۔ شکر کر مریض ہونے کے سبب میں  مجبور ہوا تو کچھ خرید کر کھا پی بھی لیا۔ والدہ کی عمر اس وقت ۸۵؍ سال کے قریب تھی۔ وہ بھوکی پیاسی وہاں  بھٹکتی رہیں  جہاں  کبھی خیموں  کا شہر آباد تھا۔ شام کو جب پولیس نے جانے دیا تو میں  کسی طرح راہ میں  پڑے ہوئے خیموں  کے نمبر دیکھتا ہوا اس میدان میں  پہنچا جہاں  خیمے لگے ہوئے تھے۔ وہاں  دور سے ایک چیز رکھی ہوئی تھی، وہاں  پہنچا تو وہ میرا ہی بیگ تھا جس میں  تولیہ، ایک جوڑا کپڑا اور بسکٹ رکھے ہوئے تھے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بیگ کیسے بچ گیا جبکہ  یہاں  تو ہر چیز جل کر راکھ ہوچکی ہے۔ وہیں  نماز ادا کی، دوسرے ساتھی آئے سب نے والدہ کے بارے میں  پوچھنا شروع کیا، مَیں  نے ندامت ظاہر کی کہ روپے میرے پاس تھے اس لئے مجبوراً کچھ کھا لیا، والدہ بھوکی ہوں  گی کہ ان کے پاس روپے نہیں  تھے۔ یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ والدہ آگئیں ۔ مَیں  مارے ندامت کے ان سے آنکھ بھی نہیں  ملا سکا، صرف اتنا کہا کہ، ’’مجھ سے برداشت نہیں  ہو رہا تھا اسلئے کچھ کھا لیا تھا۔‘‘ وہ کہنےلگیں  کہ اچھا کیا کہ کچھ کھا لیا، میں  یہی سوچ رہی تھی کہ معلوم نہیں  کہ شمیم نے کچھ کھایا یا نہیں ؟ یہ ہوتی ہے ماں  جو اپنی بھوک اور صحت پر اپنے بیٹے بیٹی کی بھوک پیاس کو ترجیح دیتی ہے۔ مہاکمبھ میں  بھی کتنی مائیں  ہوں  گی جو دولتمند ہونے کے باوجود بچوں  یا گھر والوں  سے بچھڑ کر بھوک پیاس سے تڑپ رہی ہوں  گی جن مسلمانوں  نے ان کیلئے کھانے پینے اور قیام کا انتظام کیا حتیٰ کہ مسجدوں  کے دروازے کھول دئیے وہ قابل مبارکباد ہیں ۔ اس کا اجر انہیں  اسی سے ملے گا جو ہم سب کا رب ہے۔
 اخبارات، یوٹیوب اور دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا کہ پریاگ راج میں  جو ہوا وہ حکمراں  جماعت کی داخلی سازش کا ہی نتیجہ تھا۔ ایک طبقے نے ایک صاحب اقتدار کو سمجھا دیا تھا کہ ۲۰۱۳ء میں  کمبھ میں  ہی مستقبل کے وزیراعظم کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اگر اس مرتبہ ان کی طرف اشارہ ہوجائے تو وہ بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں  مگر وہ جو کہتے ہیں  ’مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ‘ تو ہوا کچھ ایسا کہ بڑا عہدہ ملنا تو درکنار وہ عہدہ بھی خطرے میں  پڑ گیا جو موصوف کو حاصل ہے۔ جن لوگوں  نے مسلمانوں  کو کمبھ سے دور رکھنے کے سبب ارباب اقتدار کو لتاڑا وہ سب غیر مسلم ہیں ۔ ظاہر ہے ان کو حکومتی عتاب کا ڈر رہا ہوگا اس کے باوجود وہ ڈرے نہیں ۔ جن مسلمانوں  نے اپنے دل اور مسجد کے دروازے مصیبت زدہ لوگوں  کیلئے کھول دئیے ان کو اجر ملنا تو یقینی ہے۔ بشرطیکہ ایسا کرنے والوں  کے دلوں  میں  اخلاص ہو اور انہوں  نے کسی طمع میں  ایسا نہ کیا ہو۔ یوٹیوب پر دکھائے گئے کئی شردھالووں  نے مسجدوں  کے کھولے جانے کی تردید کی۔ بعض یوٹیوب میں  ایسے مناظر دکھائے گئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانیت ابھی مری نہیں ۔ انسانیت ہر قسم کے صلہ و ستائش سے بے نیاز بھی ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے : مرکزی عام بجٹ اور بہار کا آئندہ اسمبلی انتخاب

 ایک یوٹیوب میں  بتایا گیا ہے کہ حادثے تو حج میں  بھی ہوتے رہے ہیں ۔ بے شک ہوتے رہے ہیں  مگر یہ کہنے کی ضرورت کیوں  محسوس ہوئی، کیا کسی مسلمان نے کمبھ حادثے میں  مرنے والوں  کی تعداد پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ مَیں  نے منیٰ میں  خیموں  میں  آگ لگنے اور والدہ کے بچھڑنے کا واقعہ محض اسلئے بیان کیا ہے کہ حادثوں  کے دوران انسانوں  پر گزرنے والی قیامت کا اندازہ کیا جاسکے۔ اس کو بیان کرنے کا یہ مقصد نہیں  ہے کہ جن کے سبب حادثہ ہوا یا بدانتظامی پیدا ہوئی ان کے بے قصور ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاسکے۔ انتظامیہ نے جو اقدامات حادثے کے بعد کئے وہ پہلے بھی تو کئے جاسکتے تھے، آخر کیوں  نہیں  کئے گئے؟ لیپاپوتی کرنے والے لوگ ان پولیس افسروں  کے بیانات پڑھ لیتے یا سن لیتے جو ماضی میں  کمبھ انتظامیہ کا حصہ رہ چکے ہیں  تو ان کو سمجھ میں  آجاتا کہ حادثہ کیوں  ہوا۔ کمبھ کے قریب کے مسلمان تو مبارکباد کے مستحق ہیں  جنہوں  نے لاشوں  پر سیاست کرنے کے بجائے پریشاں  حال شردھالووں  کو راحت پہنچائی اور میرے نزدیک صرف مسلمان نہیں  وہ ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے یا انتظامیہ میں  رہتے ہوئے فرض شناسی کا نمونہ بن کر سامنے آنے والے بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ان کے کاموں  سے میرا یہ اعتماد مستحکم ہوا ہے کہ انسانیت ابھی مری نہیں  ہے۔ ہندوستانیوں  چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب و فرقہ سے ہو، کے سینوں  میں  دلوں  کی دھڑکنیں  باقی ہیں  تو انسانیت کیلئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK