Inquilab Logo

اس زمانے میں مشاعرہ گاؤں والوں کی زندگی میں رچ بس گیا تھا

Updated: May 29, 2023, 5:19 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

گزشتہ کالم میں گاؤں کے مشاعرے کا ذکر ہوا مگر بات اتنی سی نہیں ہے، ابھی اس پر بہت کچھ کہنا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

 گزشتہ کالم میں گاؤں کے مشاعرے کا ذکر ہوا مگر بات اتنی سی نہیں ہے، ابھی اس پر بہت کچھ کہنا ہے۔ بس آپ سنتے رہئے۔جہاں تک مشاعرہ گاہ کے پہرے کا سوال ہے تو اسے توڑنے کیلئے کچھ نوجوان خطرہ مول لے لیتے تھے۔ ایک نوجوان بتاتا ہے کہ وہ ایک مشاعرے میں شریک ہونا چاہتا تھا۔اس کے پاس’ پاس‘ نہیں تھا، مشاعرہ گاہ کے آس پاس کے کھیتوں میں کمر تک ٹیوب ویل سے پانی بھر دیا گیا تھا۔اس  نوجوان نے ہر حال میں مشاعرہ گاہ جانے کی ٹھان لی تھی۔ اس نےاپنا چپل ہاتھ میں لیا۔ ٹارچ جلاکر دھیرے دھیرے ایک میڈ (مینڈ) پر آگے بڑھا۔ ایک جگہ کالا بچھو نظر آیا، اس کا خطرناک ڈنک دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔وہ فوراً لوٹ گیا اور پھر اپنے گھر جاکر ہی رکا۔ وہ کہتا ہے،’’میرے اس طرح لوٹنے پر دوستوں نے بزدلی کا طعنہ دیا مگر میں نے من ہی من میں کہاکہ جان بچی  لاکھوں پائے۔ زندگی رہی تو بہت مشاعرے دیکھیں گے۔اللہ کا شکر ہے کہ اس کے بعد ایسے سیکڑوں مشاعروں میں شریک ہوئے،اب پتہ نہیں کیوں  مشاعروں  سے دلچسپی ہی نہیں رہی ہے۔‘‘
 دراصل دس بیس سال پہلے تک گاؤں میں مشاعرے کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔یہ گاؤں کے بچے بچے کے حواس پر طاری تھا۔ جو بھی مشاعروں  کا  دیوانہ ہوجاتا تھا، وہ اٹھتےبیٹھتے اور سوتے جاگتے اسی کی بات کرتا تھا ۔ واک مین اور ٹیپ پر اپنے پسندیدہ شاعر کا کلام سنتا تھا، یا خود سے مشاعرے کی محفل سجاتا تھا۔ گویا دن رات مشاعرے کے ساتھ ہی جیتا تھا۔ 
 جس گاؤں میں مشاعرہ ہوجاتا تھا، اس گاؤں کے لوگ مشکل سے صرف ایک دن صبر کرتے تھے۔ صبر کیا کرتے تھے؟ رت جگے کی بھرپائی کرتے تھے، نیند پوری کرتے تھے۔ پورا دن سو کر گزارتے تھے۔اس کے دوسرے دن قریب کے بازار جاتے تھے اور مشاعرے کی کیسٹ خرید کر لاتے تھے اور پھر ٹیپ پر اسے دن دن بھر بجاتے رہتے تھے،پسندیدہ کلام بار بار سنتے تھے۔بجلی جانے کے بعد بیٹری کا سہارا لیتے تھے۔اس دور میں ٹیپ کی کیسٹ کاچلن تھا، یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی دھوم تھی۔ ان کی خوب دکانیں بھی کھلی تھیں۔ ہر کیسٹ دکاندار کے اشتہار سے شروع ہوتی تھی۔ 
 گاؤں والے ٹیپ پر خود بھی مشاعرہ سنتے تھے، پڑوسیوں کو بھی سناتے تھے،مشاعرے کے دوسرے دن سے گاؤں کی گلی گلی   غزل ، گیت اور نظم سے گونجتی رہتی تھی،یہ سلسلہ مہینوں تک چلتا تھا۔ بڑے بوڑھے سے لے کر نوجوان تک اس میں دلچسپی لیتے تھے۔ترنم کانپوری، انجم رہبر، لتاحیا،انا دہلوی، شبینہ ادیب، جوہر کانپوری، ماجد دیوبندی، رفیق شادانی، معراج فیض آبادی اور راحت اندوری وغیرہ کے کلام شوق سے سنے جاتے تھے، ترنم سے پڑھنے والے شاعر اور شاعرات زیادہ پسند کئے جاتے تھے۔ چھوٹے بچے بھی مشاعروں میںدلچسپی لیتے تھے۔ شاعر اور شاعرہ کی نقل کرتے تھے، کہیں بھی گنگنانے لگتے تھے، چلتے پھرتے پڑھتے ہی تھے، ’خالی گھر‘ کو بھی نہیں خالی چھوڑتے تھے،یعنی خاموش بیٹھنے کی جگہ پر بھی گانے سے باز نہیں آتے تھے۔ اسے مشاعرے کا جنون نہیں تو اور کیا کہیں گے ؟ جس بچے کی آواز اچھی ہوتی تھی، اس کی اہمیت بڑھ جاتی تھی، جس گلی سے گزرتا تھا، لوگ راستہ روک کر اس سے کلام سنتے تھے۔ اکثریت ’ایکا گلا بہتے اچھا ہے ماشاء اللہ‘ (اس کا گلا بہت اچھا ہے ماشاءاللہ) کہہ کر گزر جاتی تھی۔ کچھ لوگ بچوں کی حوصلہ افزائی کیلئے چند سکے یا چاکلیٹ وغیرہ بطور انعام دیتے تھے۔ بڑی بوڑھیاں دعائیں دیتی تھیں، دلار چمکار بھی کرتی تھیں۔ خوش ہوکر ٹیڑھی ٹوپی سیدھی کردیتی تھیں،منہ ہاتھ دھلا دیتی تھیں۔ خراب آواز والے بچوں کی کھنچائی بھی کی جاتی تھی،ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ چپ رہنے کا مشوردیا جاتا تھا۔ باربار روکنے پر بھی   وہ باز نہیں آتے تھے تومار بھی پڑتی تھی۔ 
 جہاں تک نوجوانوں کا سوال ہے تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ ان کی محفل میں بھی باقاعدہ مشاعرہ ہوتا تھا۔ پسندیدہ شاعر اور شاعرہ کا کلام پڑھا جاتا تھا۔  شاندار نقل کی جاتی تھی۔ نظامت ہوتی تھی۔اس کالم نگار کو بھی مشاعروں کے معروف ناظم انور جلالپوری اور جمال آزر مرحوم کی  نقل کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اس پر داد بھی ملتی تھی۔ جمال آزر کی  بھاری بھرکم آواز شبلی کالج کے اپنی زندگی کے مشاعرے میں سنی تھی۔ انور جلالپوری کو بارہا ر مشاعروں میں  اپنے مخصوص لب ولہجے میں نظامت کرتے ہوئے  سنا۔ بچپن کا ایک دوست بے چارہ راہی بستوی بنتا تھا، ماجد دیوبندی کی آواز میں کلام سناتا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد لتا حیا اور انا دہلوی کی نسوانی آواز میں بھی گیت  سناتا تھا۔ اس طرح کے دوچار نوجوان پندرہ بیس شاعروں کی ذمہ داری سنبھال لیتے تھے۔ اچھا خاصا مشاعرہ ہوجاتا تھا۔ اس کالم نگار کے ایک سینئر ساتھی کو مشاعرے کا دورہ پڑتا تھا۔ وہ الطاف ضیاء کے مداح تھے۔ رات کے آخری پہر میں اٹھ اٹھ کر اچانک الطاف ضیاء  بن جاتے تھے۔ ہوبہو ان کی آواز میں شعر گنگناتے تھے۔ مائیک کے بغیر دور دور تک ان کی آواز سنائی دیتی تھی۔گاؤں والے سمجھ جاتے تھے کہ یہ کون ہے؟ نیند کھلنے کے بعد بھی کوئی برا نہیں مانتا تھا۔ کیونکہ کسی شاعر کا کلام سناتے وقت ان کی الگ ہی کیفیت ہوتی تھی۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ ان پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔وہ ڈوب کر کلام سناتے تھے۔ ایسے نوجوان اب گاؤں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK