Inquilab Logo

عطیہ حسین:ایک تہذیب کے زوال کی داستان

Updated: October 26, 2020, 12:41 PM IST | Shahid Nadeem

عطیہ حسین کی جنم صدی کو گزرے سات برس ہوچکے ہیں، حیرت ہے کہ ترقی پسند تحریک کی تاریخ اور تذکروں میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ عطیہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء کولکھنؤ کے ایک تعلقہ دار خاندان میں پیدا ہوئیں ، والد شاہد حسین قدوائی اور ماں نثار فاطمہ کے گھر ، نانی نے اپنی عزیز دوست عطیہ فیضی کے نام پر ان کا نام رکھا۔

Atiya Hussain
عطیہ حسین

عطیہ حسین کی جنم صدی کو گزرے سات برس ہوچکے ہیں، حیرت ہے کہ ترقی پسند تحریک کی تاریخ اور تذکروں میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ عطیہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء کولکھنؤ کے ایک تعلقہ دار خاندان میں پیدا ہوئیں ، والد  شاہد حسین قدوائی اور ماں نثار فاطمہ کے گھر ، نانی نے اپنی عزیز دوست عطیہ فیضی کے نام پر ان کا نام رکھا۔ ان کا خاندان روایات کا پروردہ مگر جدید اور روشن خیال کا تھا۔ والد کیمبرج کے تعلیم یافتہ اور والدہ نے خواتین کی تعلیم کے لئے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ خود عطیہ حسین نے مارٹنر گرلس اسکول اور ازابیلا تھورن کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔
 اودھ کلچر کی پروردہ عطیہ کی زندگی کا بیشتر حصہ انگلینڈ میں گزرا مگر    وہ یہاں کی تہذیب اور  وراثت سے خود کو الگ نہ کرسکیں۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’فونکس فیلڈ ‘  ( ۱۹۵۳ء) اور ناول سن لائٹ آن اے بروکن کالم  ایک خان کی تباہی اور زوال کا مرثیہ ہے  ۔ ناول کا عنوان ٹی ایس ایلیٹ کی ایک نظم سے ماخوذ ہے۔ سارا پس منظر تبدیل ہورہا تھا، وہ تہذیب جس کا اپنا ایک انداز تھا، تمام خامیوں کے باوجود آباد تھی۔ ناول کا مقصد تیزی سے بدلتی دنیا کو ہوبہو پیش کرنا ہے ، ایک دنیا جو اب یادوں میں آباد رہے گی۔عطیہ نے اس  دور میں لکھنا شروع کیا جب برطانیہ میں ہندوستانی انگریزی ادیبوں کے طورپر صرف راجا راؤ ، ملک راج آنند اور آر کے نارائن اپنی  شناخت  رکھتے  تھے ۔سانتھا راماراؤ، کملا کر مارکنڈے اور نین  تارا سہگل وغیرہ نے بہت  بعد میں لکھنا شروع کیا۔
 ۱۹۳۶ء کی ترقی پسند تحریک کے پہلے اجلاس میں عطیہ شریک تھیں۔ صدارت پریم چند نے کی تھی ، اس دور کو یاد کرتے ہوئے وہ لکھتی  ہیں ، تیس کی دہائی میں میں اپنے ان  نوجوان دوستوں اور عزیزوں سے بے حد متاثر تھی جو انگریزی اسکول  اور یونیورسٹی سے مارکسی کمیونسٹ اور سوشلسٹ  رضاکار بن کرنکلے تھے،  میں پہلی پروگریسیورائٹرس کانفرنس میں  شامل تھی۔  میں سرگرم سیاست کا حصہ اس لئے نہیں بن سکی کہ کئی طرح کے خاندانی  رسم ورواج کی پابند اور فرائض میں جکڑی تھی۔  انگریز گورنس کے سائے تلے اور لامارٹن کی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ گھر پر قرآن کی تعلیم نے  انہیں روایتی بنیادوں سے  جوڑے رکھا ۔ برقع کا رواج نہیں  تھا ، مگر کارمیں پردے کا اہتمام کیاجاتا تھا۔ اپنی دو بڑی بہنوں کی طرح ابتدائی تعلیم کے بعد گھر میں  رہنا انہیں پسند نہیں تھا۔ چنانچہ ۱۹۳۳ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والی وہ پہلی لڑکی تھیں ۔  اس سے قبل لڑکیوں کی تعلیم کیلئے مشہور آئی آئی کالج کی طالبہ رہ چکی تھیں  جہاں عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر تعلیم حاصل کرچکی تھیں۔
 عطیہ کی شخصیت میں بچپن سے ہی باغیانہ تیور تھے، پورے خاندان کی مخالفت کے باوجود انہوںنے اپنے ماموں زاد بھائی علی بہادر حبیب اللہ سے بیاہ کیا۔ ان کے اس قدم سے خاندان اتنا ناراض تھا کہ انہیں روایتی جہیز سے بھی محروم رکھا گیا۔ عطیہ کی خاندانی ملازمہ حُسیبن نے اپنی جمع رقم سے چاندی کا ایک لوٹا تحفہ میں دیا۔ عطیہ نے اس لوٹے کو ساری عمر اپنے پاس  رکھا۔ علی بہادر کافی باعزت اور اہم خاندان کے فرد تھے ۔ ان کے والد شیخ محمد حبیب اللہ لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور والدہ  انعام فاطمہ اپنے وقت کی لیجسلیٹو کونسل میں مسلم لیگ کی نمائندہ تھیں۔ اس کے باوجود سسرال نے آخری  وقت تک عطیہ کو قبول نہیں کیا۔ ان کی بیٹی شمع کہتی ہیں، عطیہ کو جبراً اپنی جڑوں سے محروم رکھا گیا۔  ۱۹۸۲ء  میں شوہر کے انتقال  کے بعد انہیں یکا وتنہا چھوڑ دیا گیا۔ ان کے لئے یہ اخلاقی  اور ذہنی پریشانی سے بھرا دور تھا۔‘‘    عطیہ نے انگریزی اخبار ’ دی پانیئر‘ اور ’دی اسٹیٹس مین‘ میں شمالی ہندا ور تقسیم سے متعلق مضامین  لکھنے کا  سلسلہ شروع کیا۔ افسانے بعد میں اس وقت لکھنے شروع کئے جب اپنے شوہر کے ساتھ برطانوی  ہائی کمیشن میں ملازمت کے دوران انگلینڈ منتقل ہونا  پڑا۔ انگریز ی میں لکھنا ان کی مجبوری تھی کیوں کہ اسی زبان میں وہ بخوبی اظہار کرسکتی تھیں۔ اس کے باوجود ان کے ہاں دیسی محاوروں کا استعمال  ملتا ہے۔ 
 ان کی تحریریں دقیانوسی جاگیردارانہ معاشرے اور تقسیم کے المیہ کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ تقسیم کو انہوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ تقسیم کے کچھ پہلے لندن منتقل ہونے کی وجہ سے انہیں ہندوپاک میں کسی ایک ملک کو منتخب کرنے کی سہولت تھی، مگر انہوںنے انگلینڈ میں رہنا پسند کیا ۔ وہ لکھتی ہیں، میں نے اس ملک کا احترام کیا، جس نے مجھے نہ صرف جسمانی طورپر پناہ دی بلکہ انسانی حقوق اور شہری آزادی کا بھی خیال رکھا، اسی کے ساتھ میں نے اپنے آبائی وطن کے قوانین کا احترام اور پابندی بھی کی۔ جس نے مجھے ہندوستانی ہونے کا حق عطا کیا۔‘‘اپنی مٹی اور ملک سے ہجرت اور تقسیم عطیہ حسین کا خاص موضوع ہے۔ لکھنا ان کے لئے خالص ’نجی ‘ معاملہ تھا جسے وہ پرچم بناکر لہرانے پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔ ان کی کہانیوں میں شمالی ہند کے جاگیردارانہ معاشرے کے مجبور اور محروم طبقہ کا بیان ہے ۔ جس کا ذکر انگریزی میں پہلی بار ہوا تھا ۔ فنکس فیلڈ کہانی کا انجام بڑا ہی درد ناک ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک بڑھیا ہے جو اپنا آبائی مکان چھوڑ کر تقسیم کے نتیجہ میں دوسرے ملک جانے پر آمادہ نہیں ہے۔ آخر کار اس کا پورا خاندان اسے تنہا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ لوگ ان کے گھر کو آگ لگانے آتے ہیں تو وہ اپنے بوڑھے ڈھانچہ نما جسم پر اشارہ کرکے کہتی ہے سوچ لو، سوچ لو، تم کہیں ایک گڑیا گھر میں نہیں آرہے ہو۔ 
 ناول ’سن لائٹ آن اے بروکن کالم ‘ میں ان کی اپنی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے ۔ ناول کا مرکزی کردار ’لیلیٰ‘ ایک طرح سے عطیہ ہی کا عکس ہے۔ لیلیٰ کا بچپن، گردوپیش کا ماحول، محبت کی شادی، سیاسی سماجی پس منظر سب کچھ وہی ہے جو عطیہ کا دیکھا اور سنا تھا۔ ناول میں قدیم روایتی معاشرے میں عورتوں کی پابند زندگی کا ہی نہیں جاگیردارانہ سماج کی منتشر خیالی کا بھی بیان کیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں تعلیم کی ضرورت کو محسوس کرتے  ہوئے ناول کے کردار  اورخاندان کے بزرگ ( بابا جان) سید محمد حسن ، سرسید تحریک سے متاثر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد انگریزی تعلیم حاصل کرکے غیرملکیوں سے آبائی تہذیب اور قدروں کو بچانے کی کوشش کریں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ ریاست کا کاروبار سنبھالیں، جوان کے اجداد کی وراثت تھی، لیکن جب بڑا بیٹا حامد حسن آئی سی ایس ہوگیا تو وہ مایوس ہوگئے۔ بیٹے کی مغربی طرز زندگی ، بیوی کی بے پردگی  اور اولاد کی مذہبی تعلیم سے دوری کو وہ کبھی معاف نہ کرسکے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK