جیمس کلیئر اپنی مقبولِ عام کتاب ’اٹامِک ہیبِٹس‘ میں لکھتے ہیں کہ انسان کی اچھی بری عادتیں اس کی زندگی پر واضح اثرات مرتب کرتی ہیں۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 12:17 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
جیمس کلیئر اپنی مقبولِ عام کتاب ’اٹامِک ہیبِٹس‘ میں لکھتے ہیں کہ انسان کی اچھی بری عادتیں اس کی زندگی پر واضح اثرات مرتب کرتی ہیں۔
بڑے خواب دیکھنے والے ہمارے نزیک قابل قدر لوگ ہوتے ہیں، لیکن دنیا کی ہنگامہ خیزی اور وقت کی تیز رفتاری کے سبب انسان کی زندگی عموماً اعلیٰ منصوبوں اور اونچی چوٹیوں کو سر کرنے کی جستجو ہی میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی مقصد کے تعاقب میں نکلتے ہیں، پُر جوش منصوبے بناتے ہیں، لیکن چند دنوں بعد ہی وہ خواب ادھورے رہ جاتے ہیں، وہ منصوبے خاکستر ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا عنصر ہے جو کامیاب انسانوں کو عام لوگوں سے ممتاز کرتا ہے؟ کیا یہ کوئی غیر معمولی صلاحیت ہے؟ یا مقدّر کی مہربانی؟
جیمز کلیئر کی شہرۂ آفاق کتاب ’اٹامک ہیبٹس‘یعنی جوہری عادتیں، اس سوال کا جواب ایک سادہ مگر بصیرت افروز اصول سے دیتی ہے: ہماری اپنی عادات ہماری کامرانی کا درجہ متعین کرتی ہیں۔ چھوٹی عادتیں بڑی کامیابیوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ ایٹم یعنی جوہر ایک عنصر کا سب سے چھوٹا ذرہ ہوتا ہے، لیکن ایٹم میں زبرست طاقت چھپی ہوتی ہے۔ یہ کتاب ہمیں چھوٹی چھوٹی لیکن طاقتورعادتوں کے دھماکے دار نتائج سے روشناس کراتی ہے۔ چند سال قبل ’اٹامک ہیبٹس‘ نے عالمِ کُتب میں دھوم مچائی تھی۔ مطبوعہ ایڈیشنوں کے علاوہ، برقی وصوتی کتاب کی شکل میں اب بھی اسکی کافی مانگ ہے۔
عادتوں کے اثرات
عادتیں ہماری زندگی پر زبردست اثر ڈالتی ہیں۔ آن لائن شاپنگ کی سہولت نے کتنی بیگمات کو نیا مشغلہ فراہم کر دیا ہے۔ کتنے آٹو ڈرائیور کام کرنے کے بجائے عقبی نشست پر لیٹ کر موبائیل دیکھتے پائے جاتے ہیں۔ ماضی کے ایک سُپراسٹار سیٹ پرچار پانچ گھنٹے تاخیر سے پہنچتے تھے۔ کتنے طلبہ پڑھائی کیلئے علی الصباح جاگ جاتے ہیں۔ اکثر لوگ کھانے کے بعد دانتوں میں خلال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ نیا لباس خریدنے سے پہلے اپنی الماری سے ایک جوڑا کسی ضرورتمند کو دے دیتے ہیں۔ یہ اچھی بری عادتیں ہیں جن کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عادتوں کو ہم قابو نہ کریں تو عادتیں ہمیں قابو کرلیتی ہیں۔
تصور کیجئے کہ اگر کوئی شخص ہر روز اپنے آپ میں صرف ایک فیصد بہتری پیدا کرے، تو ایک سال کے اختتام پر اس کی کارکردگی ۳۷؍ گنا بڑھ جائے گی۔ عادتوں میں مرکب کی شکل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بظاہر ایک فیصد معمولی سا اضافہ ہے، لیکن وقت کے ساتھ یہ چھوٹی سی بہتری بڑے انقلاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کامیابی کسی بڑے واقعے کا نتیجہ نہیں بلکہ چھوٹے اور بظاہر غیر اہم فیصلوں، عادتوں اور رویوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔
نظام اور ہدف کا فرق
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گول یعنی ہدف کے نقص یا کمزوری کی وجہ سے وہ ناکام رہے، لیکن کلیئر ایک انوکھا زاویہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مسئلہ اہداف میں نہیں، بلکہ ان کو حاصل کرنے کیلئے بنائے گئے سسٹم یعنی نظام عمل میں ہے۔ ہرکھلاڑی کا ہدف اولمپک جیتنا ہوتا ہے، لیکن سب کو تمغہ نہیں ملتا۔ فرق ان کے تربیتی نظام، معمولات اور مستقل مزاجی میں ہے۔ بات یہ نہیں کہ ہم اپنے اہداف کے معیار تک نہیں اُٹھ پاتے، بلکہ یہ ہےکہ اپنے نظام کی سطح پر گر پڑتے ہیں۔ یہ اصول زندگی کے ہر شعبے پر عائد ہوتا ہے۔ امتحان میں کامیابی، جسمانی صحت، مالی خوشحالی یا تعلقات کی مضبوطی، ہر میدان میں نتائج اِن چھوٹے مگر درست نظاموں کا صِلہ ہوتے ہیں۔ عادتوں کو پروان چڑھانے یا ترک کرنے کی خاطر ہدف پر مبنی طریقے کا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو آپ گول حاصل کرلیتے ہیں یا نہیں کرپاتے۔ اگر ناکامی ہو تو آپ مایوس ہوتے ہیں، لیکن ہر روز چھوٹے چھوٹے اقدام کے نتیجے میں آپ کو سو فیصد کامیابی ملتی ہے۔ چچا چھکن نے ایک دفعہ کمرے کی بے ترتیبی دور کرنے کا منصوبہ بنایا، ہدف طے کیا۔ اتوارکو پورا دن چچی محترمہ کی مدد سے صفائی ستھرائی اورساری چیزوں کو سلیقے سے اپنی جگہوں پررکھنے میں صرف کریں گے۔ چچا ایک دفعہ تو یہ کر لیں گے لیکن اشیاء کو اِدھر اُدھر پسارنے کی عادت بدلی نہیں تو کیا ہوگا؟
تبدیلئ برتاؤ کے چار قوانین
کتاب کا سب سے قیمتی حصہ وہ فریم ورک ہے جو مصنف نے عادتوں کو اپنانے اور بدلنے کیلئے وضع کیا ہے۔ عادتوں میں بدلاؤ کے عمل کو :
واضح بنائیے: اچھی عادت اپنانی ہے تو اس کی نشانیوں، اشاروں کو نمایاں کیجیے۔ مثلاً اگر آپ مطالعے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو کتاب تکیے کے پاس رکھنے لگیں۔
پرکشش بنائیے: عادی ہونے کے عمل کو خوشگوار بنائیے۔ مثلاً ورزش کے ساتھ اگرپسندیدہ موسیقی بھی جوڑ لی جائے تو اس کام میں دل کشی پیدا ہوگی۔
آسان بنائیے: کام کی پیچیدگی کو کم کیجئے۔ ایک خاتون، ماہر قلمکار بننے کی خواہشمند ہے۔ وہ روزانہ ۱۰؍ صفحات لکھنا شروع کرتی ہے اور چند دنوں میں گاڑی رک جاتی ہے۔ وہ اگر روزانہ ایک دو پیرگراف کی ڈائری لکھتی توعمل کرنا آسان ہوجاتا۔ آسانی کامیابی کو یقینی بناتی ہے۔
اطمینان بخش بنائیے: فوری انعام یا خوشی کا احساس عادت کو مضبوط کرتا ہے۔ مثلاً بچت کرنے کے بعد اپنی پیش رفت گراف میں دیکھنا دل کو خوشی دیتا ہے۔
یہ چار قوانین مثبت عادت اپنانے کیلئے ہیں۔ جب کسی بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو تو ان قوانین کو الٹ دیجیے۔ اس عادت کے نتیجے میں کئے جانے والے فعل کو غیر واضح، غیر پرکشش، مشکل اور غیر اطمینان بخش بنا دیجیے۔
شناخت کی طاقت
جیمز کلیئر کی فکر کا سب سے انقلابی پہلو یہ ہے کہ وہ عادتوں کو محض عمل یا رویے کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ انہیں آئیڈنٹٹی یعنی شناخت سے جوڑتے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹی وہاٹس ایپ گروپ کے ایک انکل سوچتے ہیں کہ ’’میں وزن کم کرنا چاہتا ہوں ‘‘، لیکن اگر وہ اِس طرح سوچنے لگیں کہ ’’میں ایک صحت مند، چست وچوبند شخص ہوں ‘‘ تو یہ سوچ ان کی شناخت کا حصہ بن جاتی ہے۔ اب انکل صوفے پر پڑے وہاٹس ایپ میسیج دھڑادھڑ فاروڈ کرنے کے بجائے اپنی توجہ مناسب غذا، متواتر چہل قدمی اور ورزش وغیرہ پر دیں گے۔ عادات ہماری ذات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ انسان اپنے بارے میں جو تصور رکھتا ہے، وہی اس کے رویے کو تشکیل دیتا ہے۔ اسلئے اگر کوئی شخص خود کو کتاب بیں سمجھنے لگے تو روزانہ کا مطالعہ، اس کیلئے بوجھ نہیں بلکہ شناخت کا حصہ ہوگا۔ کال سینٹر کے دو ملازمین سگریٹ نوشی ترک کرنا چاہتے تھے۔ وقفے کے دوران جب کسی نے ایک کو سگریٹ پیش کی تو اس نے کہا ’’ شکریہ، میں سگریٹ نوشی ترک کر رہا ہوں ‘‘ جبکہ دوسرے نے اس کو اپنی شناخت کے ساتھ منسلک کیا اور کہا ’’ شکریہ، میں نان اسموکر ( سگریٹ نہ پینے والا شخص) ہوں ‘‘۔ فرق معمولی ہے لیکن اثرات مختلف۔
ماحول کی اہمیت
کتاب میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ماحول انسان کے رویے کو بڑی حد تک متعین کرتا ہے۔ انسان اپنی قوتِ ارادی پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ماحول اور تناظر کی طاقت کہیں زیادہ ہے لہٰذا ہلکی پھلکی ماحول سازی بھی ہمیں کسی عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بڑی معاون ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ میٹھا کھانے سے بچنا چاہتے ہیں تو محض عزم کافی نہ ہوگا، اپنے کچن سے میٹھی اشیاء کی تعداد کم کیجئے۔ کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔
وقتی نتائج بمقابلہ دیرپا تبدیلی
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اچھی عادتوں کے نتائج فوری طور پر نظر نہیں آتے۔ درجہ حرارت میں بتدریج کمی کےسبب پانی ٹھنڈا ہوتا رہتا ہے لیکن بظاہر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ جیسے ہی درجہ حرارت ۳۲؍ ڈگری فارن ہائیٹ پر پہنچتا ہے، منجمد ہوکر برف میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کلیئراِسے Plateau of Latent Potential یعنی مخفی ممکنہ قوت کا سطحِ مرتفع کہتے ہیں۔ یعنی کئی دنوں یا مہینوں کی محنت بظاہر بے سود لگتی ہے، لیکن دراصل اندرونی تبدیلیاں جمع ہو رہی ہوتی ہیں۔ ایک دن وہ اچانک ظاہر ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مستقل مزاجی کامیابی کی کنجی ہے۔
کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ بعض جگہ مصنف نے کامیابی کی ضمانت کچھ زیادہ ہی پرامید انداز میں بیان کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات سماجی ومعاشی حالات، وسائل کی کمی یا نفسیاتی مسائل بھی کردار ادا کرتے ہیں، جنہیں صرف عادات سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ عادات کی درستگی، زندگی میں صحتمندی، خوشی، خوشحالی، کامیابی و کامرانی کے امکانات کو زیادہ روشن کردیتی ہے۔ کتاب کی خوبی اس کی سادہ زبان اور عملی مثالیں ہیں۔ یہ مثالیں اس کتاب کو محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی رہنمائی سے بھرپور بناتی ہیں۔ عادتوں کو ترک کرنے یا اختیار کرنے، پھر اس پر قائم رہنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پیچیدہ نفسیاتی مباحث یا خشک تحقیق میں الجھائے بغیر مصنف قاری کو قائل کر لیتا ہے۔